پندرہ مئی 1948ء کادن اہل فلسطین کی زندگیوں میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاریخ میں اسے نکبہ Nakba یعنی قیامت کے دن سے یاد کیا ہے ۔ ہر سال پندرہ مئی کو فلسطین بھر میں یہ دن بڑے اہتمام اور زور وشور سے منایا جاتا ہے ۔ اس دن کی اتنی اہمیت کیوں ہے ۔ زیر نظر مضمون میں اسی بات کو موضوع بحث بنایا ہے ۔
یہ مضمون میری آنے والی کتاب “اہل وفا کی بستی “ میں شامل ہے
پچھلے آٹھ ماہ سے انبیاء اکرام کی سرزمین ایک بار پھر لہو لہو ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بستی کے باسی اپنی زندگی اور موت ، عزت وغلامی کی ایک اور جنگ لڑ رہے ہیں۔ آگ اور دھوئیں کے اٹھتے بادلوں میں قبلہ اول چھپ سا گیا ہے ۔ لیکن نجانے کیوں مجھے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے وہ الفاظ باربار یاد آتے ہیں جو اس نے ڈیڑھ سال آج ہی کے دن یروشلم شہر کے باہر ایک اونچی چوٹی پر کھڑے ہو کر دیار یسین کے اجڑے گاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہے تھے

“ڈاکٹر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹوٹ جائیں گےہم ہار جائیں گے۔ اور وہ ہمارے وطن پر قابض ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوگا اس وقت تک ایسا نہیں ہوگا جب تک ہمارے جسموں میں خون کی ایک بوند بھی باقی ہے ۔ ہمارے جسموں پر ایک بھی سر سلامت ہے ۔ جب تم فلسطین میں سفر کرو گے تو تمہیں ہر فلسطینی شہر کے داخلی دروازے پر لگی چابی پر یہ جملہ لکھا نظر آئے گا “ حتماً سنعود – ہم یقیناً واپس آئیں گے“
ہم باب لُد دیکھ کر لُد شہر سے باہر نکلے تو رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے چاند کی چاندنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی پورن ماشی کی سنہری روشنی رات کی سیاہ تیرگی کا دامن پوری طرح چاک کرنے میں ناکافی تھی ۔ اس لئے ملگجا سا اندھیرا ہر سو چھایا ہوا تھا
ٹیکسی بیبرس کے پل پر سے گذرتی ہوئی لُد شہر سے باہر آئی اور پھر ایک چکر کاٹ کر لُد انٹرچینج سے ہائی وے ون پر آگئی جو تل ابیب اور یروشلم کے درمیان مرکزی موٹر وے ہے

یہ موٹر وے ویسٹ بنک کے درمیان سے گذرتی ہے اور تل ابیب کو یروشلم سے ملاتی ہوئی جیریکو ، بحیرہ مردار اور وادی اردن کی طرف نکل جاتی ہے
اور کئی جگہ پر اس کے دونوں طرف بہت اونچی اونچی دیواریں بنائی گئی ہیں جو اسے ویسٹ بنک سے جدا کرتی ہیں ۔
ان اونچی دیواروں کے پیچھے بنی جیل میں رہنے والے ویسٹ بنک کے بد نصیبوں کو اول تو اس ہائی وے پر سفر کی اجازت ہی نہیں ملتی اور اگر کسی کو اس پر سفر کرنے کا پرمٹ مل جائے تو بھی اسے ان چیک پوسٹوں پر کڑی تفشیش کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہر انٹرچینج پر خاص ان کے لئے بنائی گئی ہیں
ابو قاسم کی کمنٹری مسلسل جاری تھی وہ شخص فلسطین کی تاریخ پر ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھا اب وہ ہمیں “ نکبہ “ کے بارے میں بتا رہا تھا کہ کیسے 1948ء میں اسرائیل کی مسلح تنظیموں ہگانہ ، لہی اور ارگون نے اسلحہ اور طاقت کے زور پر فلسطنیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر دربدر کردیا تھا

اس نے دائیں جانب سڑک کے کنارے ایک چوٹی پر استادہ کچھ کھنڈرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوبا ہے وہ گاؤں جسے 1948ء میں جلا کر راکھ کر دیا گیا تھا اور اس کے فلسطینی باشندوں کو در بدر کر دیا گیا تھا
ہم نے اپنی دائیں جانب موجود اس چھوٹی سی پہاڑی چوٹی کی طرف دیکھا جہاں کئی عمارتوں کے کھنڈرات چاند کی روشنی میں ملگجے اندھیرے اور دھند میں لپٹے دور سے کسی بھوت بنگلے کی طرح نظر آرہے تھے
یہ ان چھ سو گاؤں میں سے ایک ہے جو آج بھی آپ کو اسرائیل کے طول و عرض میں بکھرے نظر آتے ہیں
ان میں سے کچھ گاؤں کو ملیا میٹ کر کے ان پر نئے شہر بسائے گئے ہیں اور کچھ آج بھی سوبا کی طرح کھنڈرات کی صورت میں یہودیوں کی
شق القلبی ، دنیا کی بے حسی اور فلسطنیوں کی بے بسی و بے چارگی کی ان کہی کہانیاں سناتے نظر آتے ہیں
چودہ مئی کو اسرائیل بنا اور پندرہ مئی کو فلسطینیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ایک انتہائی منظم سازش کے تحت پورے فلسطین میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکال دیا گیا ان کے گھر اور ان کی زمینیں چھین لی گئیں لاکھوں بے گھر ہوئے،ہزاروں بے گناہ قتل ہوئے،اس نسل کشی اور قتل عام کو تاریخ میں“ نکبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
نکبہ کے معنی تباہی ، بربادی ، قیامت ، اور مصیبت کے ہیں .اس قیامت صغریٰ کے دوران اسی فی صد سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہوئے اور ہزاروں فلسطینی عرب ہونے کے جرم میں اپنی جان سے گئے
چار لاکھ سے زائد فلسطینی اردن شام ، لبنان اور دوسرے ہمسایہ ممالک میں پنا ہ لینے پر مجبور ہوئے چھ سو کے قریب فلسطینی گاؤں اور شہر اجاڑ دئیے گئے گھروں کو بلڈوز کر دیا گیا
ان کے کنوؤں میں زہر ملا دیا گیا زمینوں کو آگ لگا دی گئی تاکہ وہ واپس نہ لوٹ سکیں فلسطنیوں کی اس نسل کشی پر آج بھی پندرہ مئی کو پورے فلسطین میں یوم نکبہ منایا جاتا ہے اور یہ سب “ پلان ڈالٹ – Plan Dalt” کے تحت کیا گیا جس کی منصوبہ بندی بن گوریان نے کی تھی فلسطنیوں کی یہ نسل کشی 1948ء میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کی وجہ بنی الان پاپے Ilan Pappé ایک اسرائیلی یہودی ہے وہ اسرائیلی پارلیمنٹ کا ممبر رہا اور اس حیثیت سے اسے اسرائیل کے ان خفیہ دستاویزات تک رسائی حاصل تھی جو1948 ء میں ہونے والی اس منصوبہ بندی کے بارے میں تھے جو نکبہ کا پیش خیمہ بنی وہ آج کل برطانیہ کی یونیورسٹی آف اکسرٹر University of Exerter
میں سوشل سائنسز اور انٹرنیشنل سڈییز کا پروفیسر اور ڈائیریکٹر ہے
اس نے 1980 ء میں حکومت برطانیہ کی ڈی کلاسی فائی کی جانے والی خفیہ دستاویزات اور اسرائیلی خفیہ دستاویزات کے مطالعے اور ریسرچ کے بعد کئی کتب لکھی ہیں
1- The Ethnic cleansing of Palestine (2006)
2- The Modern Middle East (2005)
3- A History of Modern Palestine
One Land 2 people
4- Britain and the Arab – Isralai Conflict (1988)
5- Biggest Prison on Earth
A History of Occupied
Territories
6 – Lobbying for Zionism
On both sides of Atlantic
اس کی ان کتب میں سے ایک کتاب
The Ethnic cleansing of Palestine
میں نے حمزہ کے پاس دیکھی اور مجھے یہ کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا
اس کتاب میں 1948ء میں نکبہ کے دوران فلسطنیوں کی ہونے والی نسل کشی کے بارے میں ہوش ربا اور انتہائی خوفناک انکشافات کئے گئے ہیں
الان لکھتا ہے کہ 1948ء میں اسرائیل کی اعلان آزادی کے وقت فلسطین میں نو لاکھ فلسطینی عرب تھے
جن میں سے سات لاکھ بیس ہزار فلسطنیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا
اور ان کو بے گھر کرنا زائیونسٹ تحریک کے Zionist Movement بنیادی اہداف میں سے ایک تھا
تاکہ اسرائیل کو بنانے سے سے پہلے یہاں آبادی کا تناسب یہودیوں کے حق میں بدلا جا سکے
اور فلسطنیوں کی نسل کشی ایک انتہائی منظم اور طے شدہ پروگرام کے تحت کی گئی جس کے ماسٹر مائینڈ بن گوریان اور اس کی دس رکنی مشاورتی کمیٹی تھی
اس نسل کشی کے لئے ہگانہ کے مسلح افراد کو استعمال کیا گیا لہی اور ارگان کی دہشت گر دانہ کاروائیوں کے ذریعے نہتے شہریوں کا قتل عام ہوا اور انہیں خوفزدہ کر کے انہیں اپنے گھر بار اور شہر گاؤں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا”
ایک اور جگہ وہ لکھتا ہے کہ“ ارگان اور لہی نہ صرف نہتے شہریوں کے خلاف دہشت گر دانہ کاروائیوں میں ملوث تھیں بلکہ انہوں نے ایک منظم سازش کے تحت فلسطین میں برطانوی گورنمنٹ کے خلاف بھی دہشت گردی کی برطانوی فوجیوں کو گھات لگا کر قتل کیا سرکاری عمارتوں میں بم کے دھماکے کئے تاکہ برطانوی حکومت کو مجبوراً فلسطین یہودیوں کے حوالے کر کے واپس جانا پڑے
کنگ ڈیوڈ ہوٹل یروشلم میں فلسطین کی برطانوی حکومت کا ہیڈ کوارٹر قائم تھا 1926 ء کو اس میں ہونے والا بم دھماکہ کفن کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور حکومت برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین کا نظم ونسق یہودیوں کے حوالے کر کے فلسطین چھوڑنے کا ارادہ کر لیا “
ایک جگہ الان لکھتا ہے کہ 1892ء میں ہونے والی صہیونی کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ فلسطین کو “ تبدیل “ کر دیا جائے اور اس کے لئے ہر طرح کے ذرائع اور طریقے استعمال کئے جائیں تاکہ یہودی اکثریت میں آجائیں اور فلسطینی عرب اقلیت میں تبدیل ہو جائیں
اس مقصد کے لئے ساری دنیا کے یہودیوں میں مقدس سرزمین کی طرف ہجرت کرنے کی مہم چلائی گئی فلسطینی عربوں کی زمینیں منہ مانگے داموں خرید کر وہاں یہودیوں کو لا کر بسایا گیا
اور یہ مہم اتنی کامیاب تھی کہ 1935ء سے پہلے یہودیوں کی تعداد جو پنتیس ہزار تھی اب 1935 ء میں بڑھ کر ساڑھے تین لاکھ تک پہنچ چکی تھی ۔1910ء میں یہی تعدادپانچ ہزار کے قریب تھیان نوآباد یہودیوں کو“ییشوا – Yeshvu “کہا جاتا تھا
ان کی حفاظت کے لئے ایک مسلح تنظیم بنائی گئی جسے ہر طرح کے جدید اسلحے سے لیس کیا گیا
بن گوریان اور اس کے ساتھیوں نے 1904ء میں ہی سارے فلسطین کا دورہ کر کے سیاسی معاشی اور فوجی اعتبار سے اہم فلسطینی علاقوں کو انتخاب کر لیا تھا جنہں یہودی تسلط میں لانا ان کی اولین ترجیح تھی انہوں نے پورے فلسطین کا انتہائی تفصیلی نقشہ تیار کیا تھا جس میں فلسطینی عربوں کی تعداد اور ان کے علاقوں کے بارے میں ہر طرح کی مکمل تفصیل درج تھی ۔1920 ء میں وہ یہودی جو پہلی جنگ عظیم میں شریک ہوئے تھے ان کو ہگانہ کے نام سے منظم کیا گیا
اور اسے ایک باقاعدہ سول آرمی کی شکل دی گئی -1925 ء میں میں ایک خاص منصوبے کے تحت ہگانہ کے بہترین اور ذہنی طور پر مضبوط افراد کو منتخب کر کے لہی اور ارگان جیسی دہشت گرد زیر زمین تنظمیں بنائی گئیں تاکہ جہاں گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے وہاں ان تنظیموں کے ذریعے اپنے احداف حاصل کئے جا سکیں
پلان ڈیPlan Dalet ۔ 1940ء میں لاٹ تیار کر لیا گیا تھا جس کو چار مرحلوں میں لاگو کیا جانا تھا
۱- پلان اے Plan Aleph :
یہ 1945ء میں منظر عام پر آیا اس کے مطابق آزاد اسرائیل کے قیام کااعلان کرنا اور اس کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو دور کرنا تھا
۲- پلان بی ( Plan Bet):
یہ 1945ء میں بنااور1947ء میں منظر عام پر آیا اس کے مطابق برطانوی حکومت کے ذریعے اقوام متحدہ سے اسرائیل کو منظور کروانا اور اس کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں سے نبرد آزما ہونا تھا
۳- پلان سی (Plan Gimel)
یہ 1926ء میں بنا اور دسمبر 1947 ء میں اقوام متحدہ سے اسرائیل کے حق میں قرارداد منظور ہونے کے بعد منظر عام پر آیا
اس پلان کے تحت ہاگانہ اور دیگر مسلح یہودی ملشیا اور گروپوں کو منظم کرنا اور بہترین اسلحہ اور تربیت سے لیس کرنا تھا
۴- پلان ڈی ( Plan Dalet)
یہ زائیونسٹ تحریک
Zionist Movement
کا سب سے اہم مرحلہ تھا جس کے تحت فلسطینی عربوں کو ہر ممکن جائز اور ناجائز طریقے سے ان کے آبائی گھروں اور زمینوں سے بے دخل کر کے ان کی جگہ یہودیوں کو آباد کرنا تھا – “Aleph, Bet , Gimel and Daletعبرانی زبان کے پہلے چار حروف تہجی ہیں
اسرائیل بننے کے بعد پلان ڈالٹ کو حقیقت کا روپ دینے والی ہگانہ اسرائیل کے آرمی بن گئی اور لہی اور ارگون سے موساد کی بنیاد پڑی
یہ امر انتہائی شرم ناک اور اہمیت کا حامل ہے کہ پچھلے پچھتر سالوں میں بیس سے زیادہ اسرائیلی وزیر اعظم اور صدور ایسے بنے جن کا تعلق لہی اور ارگون سے تھا اور سوسے زیادہ ایسے افراد اسرائیلی کابینہ کے رکن بن چکے ہیں جن کا خمیر ان دہشت گرد تنظیموں سے اٹھا تھا ۔
چابی ، ہنڈولہ ، کفویہ ، تربوز اور سنہری گنبد فلسطینی عربوں کی جدوجہد آزادی اور مزاحمت کی پانچ علامتیں ہیں جو 1948ء کے انسانیت کش مظالم کے بعد زبان زد عام ہوئیں –
سنہری گنبد سے مراد قبتہ الصخرا کا گنبد ہے جو قبتہ الصخرا ، مسجد اقصٰی اور حرم قدسی پر یہودی تسلط کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے
سنہری گنبد کی تصویر آج آپ کو نہ صرف فلسطین میں بلکہ ساری دنیا میں ٹی شرٹس پر ، کتابوں پر ، دیواروں پر غرض ہر چیز پر قبلہ اوّل پر یہودی قبضے کی علامت کے طور پر کندہ نظر آتی ہے
کفویہ کالے اور سفید رنگ کا چیک کا رومال ہے جسے گلے کے گرد یا سر پر لیپٹ کر پہنا جاتاہے۔ 1936ء
سے پہلے فلسطین کے دیہاتی کفویہ اور شہری کاربوش
(لال ترکی ٹوپی) پہنتے تھے ۔ 1936 ء میں عرب فلسطینی مسلمانوں نے فلسطین پر برطانوی قبضہ اور تسلط کے خلاف بغاوت کر دی جو تین سال تک جاری رہی
اس تحریک آزادی کے دوران کفویہ فلسطینی قومیت ، آزادی اور مزاحمت کی علامت کے طور پر سامنے آیا اور آج تک اسی حوالے سے جانا جاتاہے
میں نے پہلی بار یاسر عرفات کو کفویہ میں دیکھا تھا یہ غالباً ستر کی دہائی کی بات ہے تو مجھے سفید اور کالے رنگ کے رومال میں لپٹا یاسر عرفات بہت بھلا لگا
آپ ویسٹ بنک کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں اور آپ کو شہر کے داخلی دروازے پر ایک بہت بڑی چابی کندہ نظر آئے گی
آپ کسی بھی فلسطینی کے گھر چلے جائیں ایک چابی آپ کو ان کے گھر میں دیوار پر سجی نظر آئے گی
یہ چابی ان لاکھوں فلسطنیوں کے اپنے گھروں میں واپس لوٹنے کےحق کااستعارہ ہے جو 1948ء کے نکبہ میں بے گھر ہوئے اپنے وطن ، اپنے شہر اپنی زمینیں اور اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کئے گئے وہ آج بھی اپنے گھروں میں واپسی کے منتظر ہیں ایک نسل جاتے ہوئے ایک خاص تقریب میں یہ چابی اپنی آنے والی نئی نسل کو “ حتماً سنعود – ہم یقیناً واپس آئیں گے “ کے وعدے کے ساتھ منتقل کرتی ہے
فلسطینی ہر سال پندرہ مئی کو یوم نکبہ مناتے ہیں اس دن ساری دنیا میں ہزاروں فلسطینی اپنے ہاتھوں میں چابی لے کر نکلتے ہیں اور مہذب دنیا کے سوئے ضمیر کا تالا کھولنے کی کوشش کرتے ہیں فلسطین کے طول وعرض “لن نرہل – ہم نہیں جائیں گے یعنی ہم فلسطین سے نہیں جائیں گے “ کے نعروں سے گونج اٹھتے ہیں
تربوزفلسطین میں پایا جانے والا سب سے عام پھل ہے ۔ یہ سارے فلسطین میں کاشت کیا جاتا ہے اور کئی فلسطینی کھانوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے اس کے فلسطینی تہذیب وتمدن پر بڑے گہرے اثرات ہیں ۔ اس کے رنگ بھی فلسطینی پرچم کے رنگوں جیسے ہیں ۔ سبز ، سفید، لال اور کالا رنگ فلسطینی جھنڈے کا رنگ بھی ہے ۔ 1968ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے فلسطینی جھنڈے پر پابندی لگا دی اسے لہرانے بنانے اور لگانے پر سخت سزاؤں کے نفاذ کا حکم جاری ہوگیا لیکن آزادی کے جذبے پر کون پابندی لگاسکتا ہے فلسطنیوں نے تربوز کو اپنے جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا ۔ وہ تربوز کی کٹی ہوئی قاشیں لے کر باہر نکلنے لگے ۔ فلسطینی آرٹسٹوں نے تربوز کو اپنے آرٹ کا حصہ بنالیا ۔ اور پھر اس دن سے تربوزفلسطنیوں کی مدافعت اور جنگ آزادی کی علامت بن گیا۔
ہنڈالہ Handala حنطلہ ایک دس سال کے بچے کا ادھورا کارٹون ہے جو پیوند لگے کپڑے پہنے ، اپنے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھے ، ننگے پاؤں ، دنیا کی طرف پیٹھ کئے کھڑا ہے اسے ایک فلسطینی کارٹونسٹ ناجی العلی نے 1969ء میں پہلی بار بنایا تھا
یہ کارٹون ایک دس سالہ مہاجر فلسطینی لڑکے کی بے بسی کسمپرسی اور وطن سے دوری کی علامت ہے جو بچپن میں زبردستی اپنے گھر سے بے گھر کیا گیا اور آج بھی مہذب دنیا کی بے حسی کی طرف پیٹھ کئے ننگے پاؤں کھڑا اپنے گھر جانے کا منتظر ہے

حنطلہ Handala کیکٹس کی نسل کا ایک جنگلی پودا ہے جو فلسطین کےطول و عرض اور صحرا میں پایا جاتا ہے اور اس کی جڑیں زمین میں بہت گہری ہوتی ہیں اور پانی کی شدید کمی اور دھوپ کی شدت میں بھی اپنا وجود برقرار رکھتا ہے حالات جیسے بھی ہوں یہ پودا مرجھاتا نہیں ہے
اس پودے کی انہی خصوصیات کی بناء پر ناجی نے اپنے کارٹون کو حنطلہ کا نام دیا
ناجی سلیم العلی29 اگست 1938ء کو فلسطین کے شہر طبیرآس Tiberias کے نزدیک ایک گاؤں میں پیدا ہوا وہ دس سال کا تھا جب 1948ء میں اسرائیل بنا اور فلسطنیوں پر قیامت (نکبہ) ٹوٹ پڑی اور وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ لبنان میں مہاجر کی زندگی گزارتا رہا
ناجی العلی کا یہ کارٹون اس کی اپنی زندگی کی عکاسی کرتا ہے
جب وہ دس سال کی عمر میں ننگے پاؤں اپنے گھر سے نکلا تھا اور بھوکا پیاسا دھکے کھاتا پیدل کئی سو میل کی مسافت طے کر کے لبنان کے مہاجر کیمپ میں پہنچا اس کا یہ کارٹون جب اخبار میں چھپا تو کہرام مچ گیا ساری دنیا میں فلسطنیوں کے لئے ہمدردی کی ایک لہر دوڑ گئی یہ دس سالہ لڑکا فلسطنیوں کی بے بسی و بیچارگی اور ان کی اپنے گھروں میں واپسی کے حق کی علامت بن گیا
یہودی ایک بچے کے ادھورے خاکے سے اس قدر خائف ہوئے کہ موساد نے علی کو لندن کے بھرے بازار میں اسکے اخبار کے دفتر کے سامنے قتل کر دیا علی تو مرگیا لیکن اس کا تخلیق کیا ہوا یہ دس سالہ بچہ آج بھی سخت جانی ، استقامت ، مزاحمت جلاوطنی اور آزادی کا ایک استعارہ بن کر زندہ ہے
علی کہا کرتا تھا کہ یہ بچہ اس وقت تک بڑا نہیں ہوگا جب تک وہ اپنے گھر اپنے گاؤں واپس نہیں لوٹ جاتا آپ ویسٹ بنک کے کسی شہر کسی گاؤں میں چلے جائیں گلیوں کی دیواروں پر حنطلہ اپنی پیٹھ آپ کی طرف کئے اپنا نوحہ آپ کو سناتا نظر آئے گا وہ آج بھی اپنے گھر جانے کا منتظر ہے تاکہ اس کی عمر جو ٹھہر گئی وہ ارتقاء کی منازل طے کر سکے
ابو قاسم کی نان سٹاپ کمنٹری جاری تھی اور ہم پورے انہماک کے ساتھ اس کی ان بیش قیمت معلومات سے مستفید ہو رہے تھے کہ ٹیکسی یروشلم کے نواح میں داخل ہوئی اس نے اچانک ٹیکسی روک دی اور ہم سے باہر آنے کی درخواست کی۔وہ ہمیں سڑک کے کنارے ایک اونچی جگہ پر لے گیا جہاں سے روشنیوں میں نہائے یروشلم شہر کا بہت خوبصورت منظر نظر آتا تھا فضا میں خوشگوار سی خنکی تھی ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی
چودھویں کا چاند اپنی پوری آب وتاب سے جگمگا رہاتھا ہر سو ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی پھیلی ہوئی تھی یروشلم شہر کا یہ پہلا نظارہ جیسے آنکھوں کے رستے میری روح میں اتر گیا
انبیاء کی سرزمین حضرت ابراہیم کا وطن مسلمانوں کا قبلہ اوّل کیا کچھ نہیں تھا اس شہر میں مجھے لگا جیسے میں عرصے سے اس شہر کو جانتا ہوں۔میرا اس شہر سے کوئی بہت پرانا رشتہ ہے دور شہر کی چھوٹی بڑی روشنیوں کے درمیان ایک سنہری گنبد چمکتا نظر آرہا تھا یہ قبتہ الصخرہ کا گنبد تھا
اس گنبد سے ٹپکنے والی روشنی سب سے جدا تھی سب سے مختلف یوں لگا جیسے اس گنبد سے نور کی بارش ہو رہی ہے
چرخ نیلی فام پر جگمگ کرتے لاکھوں ستارے ، چودھویں کے چاند کی ٹھنڈی چاندنی ،دور تک پھیلے یروشلم شہر کی روشنیاں
یہ منظر سحر انگیز ہی نہیں فسوں خیز بھی تھا جی چاہتا تھا کہ بس کھڑے اسے دیکھتے رہیں
لیکن ابو قاسم نے اس وقت اس رنگ میں بھنگ ڈال دی جب اس نے شہر کے بیچوں بیچ بنی ایک بلند وبالا بہت بڑی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عمارت کنگ ڈیوڈ ہوٹل کی ہے جہاں فلسطین کی برطانوی حکومت Mandatory British Palestine کا ہیڈ کوارٹر قائم تھا اور اسے 1946ء میں صہیونی دہشت گرد تنظیم ارگان نے بم سے اڑا دیا تھا جس میں نوے سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے اور اس حادثے کے بعد برطانوی حکومت نے فلسطین چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا
پھر وہ سڑک کے نیچے بنی عمارات کے ایک سلسلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا اس جگہ کبھی ایک فلسطینی گاؤں
“دیر یاسین “ آباد تھا
اپریل 1948ء میں صہیونی دہشت گرد تنظیم لہی نے رات کے وقت اس پر حملہ کر دیا اور اس گاؤں میں رہنے والے چھ سو باشندوں کو گھروں میں بند کر کے آگ لگا دی اس حادثے میں ڈیڑھ سو کے قریب لوگ شہید ہوئے جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے –
بعد میں اس گاؤں کو بلڈوز کرکے ملیا میٹ کر دیا گیا اور آج کل یہاں ایک مینٹل ہیلتھ ہسپتال قائم ہے جس کا نام Kfar Shaul Mental Health Center ہے
دیر یسین کے واقعے کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی ۔ 10اپریل 1948ء کو البرٹ آئین سٹائین نے امریکن فرینڈز آف فائیٹرز فار دی فریڈم آف اسرائیل کو خط لکھ کر ان کی امداد اور حمایت کرنے سے انکار کیا تھایہ تنظیم لہی کا امریکن چپٹر تھی
پھر اس نے اپنے ہاتھ کی الٹی سمت سے اپنی آنکھوں کے گوشے صاف کئے لیکن وہ اپنے آنسوؤں کو چھپانے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ چھلکتی آنکھوں اور رندھی آواز میں بولا ۔
“ڈاکٹر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹوت جائیں گےہم ہار جائیں گے۔ اور وہ ہمارے وطن پر قابض ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوگا اس وقت تک ایسا نہیں ہوگا جب تک ہمارے جسم میں خون کی ایک بوند بھی باقی ہے ہمارے جسموں پر ایک بھی سر سلامت ہے ۔ جب تم فلسطین میں سفر کرو گے تو تمہیں ہر فلسطینی شہر کے داخلی دروازے پر لگی چابی پر یہ جملہ لکھا نظر آئے گا کہ حتماً سنعود ۔ ہم یقیناً واپس آئیں گے “
میں گنگ کھڑا رہا ۔ مجھے لگا میری قوت گویائی جواب دے گئی ہے ۔ نجانے کیوں میں اس کی ڈبڈبائی آنکھوں کا سامنا نہ کر سکا مجھے لگا جیسے میں بھی اس کا مجرم ہوں اور اس کی شاکی نظروں سے منہ پھیر کراس ہسپتال کو دیکھنے لگا جہاں کبھی دیر یسین تھا۔ پھرپتہ نہیں کس وقت وہ مجھے اکیلا وہیں چھوڑکر نیچے اتر گیا ۔ اور میں جانے کتنی دیر تک کھوئی کھوئی آنکھوں کے ساتھ عمارتوں کے اس سلسلے کو دیکھتا رہا
میرے کانوں میں عورتوں اور بچوں کے چیخنے چلانے اور رونے دھونے کی آوازیں گونج رہی تھیں آنکھوں کے سامنے ان کے گھروں سے اٹھتے شعلے رقص کر رہے تھے
دیر ہوگئی تو مجھے بلال کی آواز سنائی دی جو نیچے ابو قاسم کے ساتھ ٹیکسی کے قریب کھڑا جانے کب سے مجھے پکار رہا تھا
دُکھی اور افسردہ دل کے ساتھ میں نے اس ہسپتال پر ایک آخری نظر ڈالی جس کی بنیادیں دیر یسین کے بے گناہ فلسطینیوں کی جلی ہوئی لاشوں پر قائم تھیں ۔ اور بھاری قدموں سے ٹیکسی کی طرف چل دیا۔
ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے میں نے ابو قاسم سے وہ سوال پوچھ ہی لیا جو بڑی دیر سے میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا“کیا تم ہر مسافر سے ایسے ہی باتیں کرتے ہو جیسے تم نے ہم سے کی ہیں “وہ ہنس پڑا لیکن اس کی ہنسی کے پیچھے چھپا غلامی کا درد اور بے بسی صاف نظر آرہی تھی
“ کہاں صاحب اگر میں ہر مسافر سے یہ باتیں کرتا جو آپ سے کی ہیں تو میرا ٹیکسی کا لائسینس کب کا کینسل ہو گیا ہوتا اور میں کسی جیل میں پڑا ہوتا-“
اس نے ٹیکسی سٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی اور بڑے دکھ بھرے لہجے میں بولا “ ڈاکٹر تم بھلے آدمی لگتے ہو تمہارے دل میں مسلم اُمّہ کا درد ہے اور تم فلسطنیوں اور مسلمانوں کی تاریخ سے بھی بخوبی روشناس محسوس ہوتے ہو تم جیسا مسافر مہینوں بعد ملتا ہے جس سے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کو جی چاہتا ہے اور پھر تم نے بتایا ت
ھا کہ واپس جا کر تم اپنا سفر نامہ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہو تو اس لئے تم سے یہ سب کہہ ڈالا جو ہم اپنے سائے سے بھی کہتے ہوئے ڈرتے ہیں
میری یہ ساری باتیں تمہارے پاس میری اور میری قوم کی امانت ہیں وعدہ کرو کہ انہیں من وعن ایسے ہی لکھو گے جیسے تمہیں بتائی ہیں یہ صرف میرا اور قوم کا ہی نہیں ہماری آنے والی نسلوں کا بھی دکھ ہے جس سے دنیا کو آگاہ کرنا بڑا ضروری ہے
اگر تم جیسے لوگ یہاں آتے رہیں گے تو امید ہے شائد ہماری حالت زار پر دنیا کو ایک دن رحم آجائے”میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے یقین دلایا کہ میں اس کی یہ امانت ضرور دوسروں تک پہنچاؤں گا
باقی سارے راستے میں ابو قاسم خاموش رہا شائد اس کے پاس اب کہنے کو کچھ نہ بچا تھا یا پھر وہ بھی ہماری طرح دیر یاسین کے ان بے بس اور لاچار باسیوں کی بے بسی اور بے چارگی یاد کر کے اداس ہو گیا تھا جنہیں ان کے ناکردہ گناہوں کے عوض ان کے اپنے گھروں میں زندہ جلا دیا گیا تھا
اداسی اور تکلیف کے آثار اس کے چہرے سے نمایاں تھے
جب اس نے ہمیں گولڈن وال ہوٹل کے باہر اتارا ہمارا سامان اٹھا کر اندر ہال میں پہنچایا اور میں نے اسے سو شیکل طے شدہ کرائے سے زیادہ ادا کئے تو بھی وہ کچھ نہ بولا اور بس شکراًُ کہہ کر رخصت ہو گیا اور میں اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ ہی ڈھونڈتا رہ گیا-
سنہری گنبد کی تصویر آج آپ کو نہ صرف فلسطین میں بلکہ ساری دنیا میں ٹی شرٹس پر ، کتابوں پر ، دیواروں پر غرض ہر چیز پر قبلہ اوّل پر یہودی قبضے کی علامت کے طور پر کندہ نظر آتی ہے
کفویہ کالے اور سفید رنگ کا چیک کا رومال ہے جسے گلے کے گرد یا سر پر لیپٹ کر پہنا جاتاہے۔ 1936ءسے پہلے فلسطین کے دیہاتی کفویہ اور شہری کاربوش (لال ترکی ٹوپی) پہنتے تھے ۔ 1936 ء میں عرب فلسطینی مسلمانوں نے فلسطین پر برطانوی قبضہ اور تسلط کے خلاف بغاوت کر دی جو تین سال تک جاری رہی اس تحریک آزادی کے دوران کفویہ فلسطینی قومیت ، آزادی اور مزاحمت کی علامت کے طور پر سامنے آیا اور آج تک اسی حوالے سے جانا جاتاہے
میں نے پہلی بار یاسر عرفات کو کفویہ میں دیکھا تھا یہ غالباً ستر کی دہائی کی بات ہے تو مجھے سفید اور کالے رنگ کے رومال میں لپٹا یاسر عرفات بہت بھلا لگا
آپ ویسٹ بنک کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں اور آپ کو شہر کے داخلی دروازے پر ایک بہت بڑی چابی کندہ نظر آئے گی آپ کسی بھی فلسطینی کے گھر چلے جائیں ایک چابی آپ کو ان کے گھر میں دیوار پر سجی نظر آئے گی یہ چابی ان لاکھوں فلسطنیوں کے اپنے گھروں میں واپس لوٹنے کےحق کااستعارہ ہے جو 1948ء کے نکبہ میں بے گھر ہوئے اپنے وطن ، اپنے شہر اپنی زمینیں اور اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کئے گئے وہ آج بھی اپنے گھروں میں واپسی کے منتظر ہیں ایک نسل جاتے ہوئے ایک خاص تقریب میں یہ چابی اپنی آنے والی نئی نسل کو “ حتماً سنعود – ہم یقیناً واپس آئیں گے “ کے وعدے کے ساتھ منتقل کرتی ہے
فلسطینی ہر سال پندرہ مئی کو یوم نکبہ مناتے ہیں اس دن ساری دنیا میں ہزاروں فلسطینی اپنے ہاتھوں میں چابی لے کر نکلتے ہیں اور مہذب دنیا کے سوئے ضمیر کا تالا کھولنے کی کوشش کرتے ہیں فلسطین کے طول وعرض “لن نرہل – ہم نہیں جائیں گے یعنی ہم فلسطین سے نہیں جائیں گے “ کے نعروں سے گونج اٹھتے ہیں
تربوزفلسطین میں پایا جانے والا سب سے عام پھل ہے ۔ یہ سارے فلسطین میں کاشت کیا جاتا ہے اور کئی فلسطینی کھانوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے اس کے فلسطینی تہذیب وتمدن پر بڑے گہرے اثرات ہیں ۔ اس کے رنگ بھی فلسطینی پرچم کے رنگوں جیسے ہیں ۔ سبز ، سفید، لال اور کالا رنگ فلسطینی جھنڈے کا رنگ بھی ہے ۔ 1968ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے فلسطینی جھنڈے پر پابندی لگا دی اسے لہرانے بنانے اور لگانے پر سخت سزاؤں کے نفاذ کا حکم جاری ہوگیا لیکن آزادی کے جذبے پر کون پابندی لگاسکتا ہے فلسطنیوں نے تربوز کو اپنے جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا ۔ وہ تربوز کی کٹی ہوئی قاشیں لے کر باہر نکلنے لگے ۔ فلسطینی آرٹسٹوں نے تربوز کو اپنے آرٹ کا حصہ بنالیا ۔ اور پھر اس دن سے تربوزفلسطنیوں کی مدافعت اور جنگ آزادی کی علامت بن گیا۔
ہنڈالہ Handala حنطلہ ایک دس سال کے بچے کا ادھورا کارٹون ہے جو پیوند لگے کپڑے پہنے ، اپنے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھے ، ننگے پاؤں ، دنیا کی طرف پیٹھ کئے کھڑا ہے
اسے ایک فلسطینی کارٹونسٹ ناجی العلی نے 1969ء میں پہلی بار بنایا تھا یہ کارٹون ایک دس سالہ مہاجر فلسطینی لڑکے کی بے بسی کسمپرسی اور وطن سے دوری کی علامت ہے جو بچپن میں زبردستی اپنے گھر سے بے گھر کیا گیا اور آج بھی مہذب دنیا کی بے حسی کی طرف پیٹھ کئے ننگے پاؤں کھڑا اپنے گھر جانے کا منتظر ہے
حنطلہ Handala کیکٹس کی نسل کا ایک جنگلی پودا ہے جو فلسطین کے طول و عرض اور صحرا میں پایا جاتا ہے اور اس کی جڑیں زمین میں بہت گہری ہوتی ہیں اور پانی کی شدید کمی اور دھوپ کی شدت میں بھی اپنا وجود برقرار رکھتا ہے حالات جیسے بھی ہوں یہ پودا مرجھاتا نہیں ہے
اس پودے کی انہی خصوصیات کی بناء پر ناجی نے اپنے کارٹون کو حنطلہ کا نام دیا
ناجی سلیم العلی29 اگست 1938ء کو فلسطین کے شہر طبیرآس Tiberias کے نزدیک ایک گاؤں میں پیدا ہوا وہ دس سال کا تھا جب 1948ء میں اسرائیل بنا اور فلسطنیوں پر قیامت (نکبہ) ٹوٹ پڑی اور وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ لبنان میں مہاجر کی زندگی گزارتا رہا
ناجی العلی کا یہ کارٹون اس کی اپنی زندگی کی عکاسی کرتا ہے
جب وہ دس سال کی عمر میں ننگے پاؤں اپنے گھر سے نکلا تھا اور بھوکا پیاسا دھکے کھاتا پیدل کئی سو میل کی مسافت طے کر کے لبنان کے مہاجر کیمپ میں پہنچا اس کا یہ کارٹون جب اخبار میں چھپا تو کہرام مچ گیا ساری دنیا میں فلسطنیوں کے لئے ہمدردی کی ایک لہر دوڑ گئی یہ دس سالہ لڑکا فلسطنیوں کی بے بسی و بیچارگی اور ان کی اپنے گھروں میں واپسی کے حق کی علامت بن گیا
یہودی ایک بچے کے ادھورے خاکے سے اس قدر خائف ہوئے کہ موساد نے علی کو لندن کے بھرے بازار میں اسکے اخبار کے دفتر کے سامنے قتل کر دیا علی تو مرگیا لیکن اس کا تخلیق کیا ہوا یہ دس سالہ بچہ آج بھی سخت جانی ، استقامت ، مزاحمت جلاوطنی اور آزادی کا ایک استعارہ بن کر زندہ ہےعلی کہا کرتا تھا کہ یہ بچہ اس وقت تک بڑا نہیں ہوگا جب تک وہ اپنے گھر اپنے گاؤں واپس نہیں لوٹ جاتا آپ ویسٹ بنک کے کسی شہر کسی گاؤں میں چلے جائیں گلیوں کی دیواروں پر حنطلہ اپنی پیٹھ آپ کی طرف کئے اپنا نوحہ آپ کو سناتا نظر آئے گا وہ آج بھی اپنے گھر جانے کا منتظر ہے تاکہ اس کی عمر جو ٹھہر گئی وہ ارتقاء کی منازل طے کر سکے
ابو قاسم کی نان سٹاپ کمنٹری جاری تھی اور ہم پورے انہماک کے ساتھ اس کی ان بیش قیمت معلومات سے مستفید ہو رہے تھے کہ ٹیکسی یروشلم کے نواح میں داخل ہوئی اس نے اچانک ٹیکسی روک دی اور ہم سے باہر آنے کی درخواست کی وہ ہمیں سڑک کے کنارے ایک اونچی جگہ پر لے گیا جہاں سے روشنیوں میں نہائے یروشلم شہر کا بہت خوبصورت منظر نظر آتا تھا فضا میں خوشگوار سی خنکی تھی ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی چودھویں کا چاند اپنی پوری آب وتاب سے جگمگا رہاتھا ہر سو ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی پھیلی ہوئی تھی یروشلم شہر کا یہ پہلا نظارہ جیسے آنکھوں کے رستے میری روح میں اتر گیا انبیاء کی سرزمین حضرت ابراہیم کا وطن مسلمانوں کا قبلہ اوّل کیا کچھ نہیں تھا اس شہر میں مجھے لگا جیسے میں عرصے سے اس شہر کو جانتا ہوں میرا اس شہر سے کوئی بہت پرانا رشتہ ہے
دور شہر کی چھوٹی بڑی روشنیوں کے درمیان ایک سنہری گنبد چمکتا نظر آرہا تھا یہ قبتہ الصخرہ کا گنبد تھا۔اس گنبد سے ٹپکنے والی روشنی سب سے جدا تھی سب سے مختلف یوں لگا جیسے اس گنبد سے نور کی بارش ہو رہی ہے

چرخ نیلی فام پر جگمگ کرتے لاکھوں ستارے ، چودھویں کے چاند کی ٹھنڈی چاندنی ،دور تک پھیلے یروشلم شہر کی روشنیاں یہ منظر سحر انگیز ہی نہیں فسوں خیز بھی تھا جی چاہتا تھا کہ بس کھڑے اسے دیکھتے رہیں
لیکن ابو قاسم نے اس وقت اس رنگ میں بھنگ ڈال دی جب اس نے شہر کے بیچوں بیچ بنی ایک بلند وبالا بہت بڑی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عمارت کنگ ڈیوڈ ہوٹل کی ہے جہاں فلسطین کی برطانوی حکومت Mandatory British Palestine کا ہیڈ کوارٹر قائم تھا اور اسے 1946ء میں صہیونی دہشت گرد تنظیم ارگان نے بم سے اڑا دیا تھا جس میں نوے سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے اور اس حادثے کے بعد برطانوی حکومت نے فلسطین چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھاپھر وہ سڑک کے نیچے بنی عمارات کے ایک سلسلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا اس جگہ کبھی ایک فلسطینی گاؤں“دیر یاسین “ آباد تھا اپریل 1948ء میں صہیونی دہشت گرد تنظیم لہی نے رات کے وقت اس پر حملہ کر دیا اور اس گاؤں میں رہنے والے چھ سو باشندوں کو گھروں میں بند کر کے آگ لگا دی اس حادثے میں ڈیڑھ سو کے قریب لوگ شہید ہوئے جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے –
بعد میں اس گاؤں کو بلڈوز کرکے ملیا میٹ کر دیا گیا اور آج کل یہاں ایک مینٹل ہیلتھ ہسپتال قائم ہے جس کا نام Kfar Shaul Mental Health Center ہے
دیر یسین کے واقعے کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی ۔ 10اپریل 1948ء کو البرٹ آئین سٹائین نے امریکن فرینڈز آف فائیٹرز فار دی فریڈم آف اسرائیل کو خط لکھ کر ان کی امداد اور حمایت کرنے سے انکار کیا تھا یہ تنظیم لہی کا امریکن چپٹر تھی
پھر اس نے اپنے ہاتھ کی الٹی سمت سے اپنی آنکھوں کے گوشے صاف کئے لیکن وہ اپنے آنسوؤں کو چھپانے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ چھلکتی آنکھوں اور رندھی آواز میں بولا ۔
“ڈاکٹر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹوت جائیں گےہم ہار جائیں گے۔ اور وہ ہمارے وطن پر قابض ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوگا اس وقت تک ایسا نہیں ہوگا جب تک ہمارے جسم میں خون کی ایک بوند بھی باقی ہے ہمارے جسموں پر ایک بھی سر سلامت ہے ۔ جب تم فلسطین میں سفر کرو گے تو تمہیں ہر فلسطینی شہر کے داخلی دروازے پر لگی چابی پر یہ جملہ لکھا نظر آئے گا کہ حتماً سنعود ۔ ہم یقیناً واپس آئیں گے “
میں گنگ کھڑا رہا ۔ مجھے لگا میری قوت گویائی جواب دے گئی ہے ۔ نجانے کیوں میں اس کی ڈبڈبائی آنکھوں کا سامنا نہ کر سکا مجھے لگا جیسے میں بھی اس کا مجرم ہوں اور اس کی شاکی نظروں سے منہ پھیر کراس ہسپتال کو دیکھنے لگا جہاں کبھی دیر یسین تھا۔ پھرپتہ نہیں کس وقت وہ مجھے اکیلا وہیں چھوڑکر نیچے اتر گیا ۔ اور میں جانے کتنی دیر تک کھوئی کھوئی آنکھوں کے ساتھ عمارتوں کے اس سلسلے کو دیکھتا رہا
میرے کانوں میں عورتوں اور بچوں کے چیخنے چلانے اور رونے دھونے کی آوازیں گونج رہی تھیں آنکھوں کے سامنے ان کے گھروں سے اٹھتے شعلے
رقص کر رہے تھے دیر ہوگئی تو مجھے بلال کی آواز سنائی دی جو نیچے ابو قاسم کے ساتھ ٹیکسی کے قریب کھڑا جانے کب سے مجھے پکار رہا تھا
دُکھی اور افسردہ دل کے ساتھ میں نے اس ہسپتال پر ایک آخری نظر ڈالی جس کی بنیادیں دیر یسین کے بے گناہ فلسطینیوں کی جلی ہوئی لاشوں پر قائم تھیں ۔ اور بھاری قدموں سے ٹیکسی کی طرف چل دیا۔
ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے میں نے ابو قاسم سے وہ سوال پوچھ ہی لیا جو بڑی دیر سے میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا “کیا تم ہر مسافر سے ایسے ہی باتیں کرتے ہو جیسے تم نے ہم سے کی ہیں “ وہ ہنس پڑا لیکن اس کی ہنسی کے پیچھے چھپا غلامی کا درد اور بے بسی صاف نظر آرہی تھی
“ کہاں صاحب اگر میں ہر مسافر سے یہ باتیں کرتا جو آپ سے کی ہیں تو میرا ٹیکسی کا لائسینس کب کا کینسل ہو گیا ہوتا اور میں کسی جیل میں پڑا ہوتا-“
اس نے ٹیکسی سٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی اور بڑے دکھ بھرے لہجے میں بولا “ ڈاکٹر تم بھلے آدمی لگتے ہو تمہارے دل میں مسلم اُمّہ کا درد ہے اور تم فلسطنیوں اور مسلمانوں کی تاریخ سے بھی بخوبی روشناس محسوس ہوتے ہو تم جیسا مسافر مہینوں بعد ملتا ہے جس سے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کو جی چاہتا ہے اور پھر تم نے بتایا تھا کہ واپس جا کر تم اپنا سفر نامہ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہو تو اس لئے تم سے یہ سب کہہ ڈالا جو ہم اپنے سائے سے بھی کہتے ہوئے ڈرتے ہیں میری یہ ساری باتیں تمہارے پاس میری اور میری قوم کی امانت ہیں وعدہ کرو کہ انہیں من وعن ایسے ہی لکھو گے جیسے تمہیں بتائی ہیں یہ صرف میرا اور قوم کا ہی نہیں ہماری آنے والی نسلوں کا بھی دکھ ہے جس سے دنیا کو آگاہ کرنا بڑا ضروری ہے اگر تم جیسے لوگ یہاں آتے رہیں گے تو امید ہے شائد ہماری حالت زار پر دنیا کو ایک دن رحم آجائے” میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے یقین دلایا کہ میں اس کی یہ امانت ضرور دوسروں تک پہنچاؤں گا باقی سارے راستے میں ابو قاسم خاموش رہا شائد اس کے پاس اب کہنے کو کچھ نہ بچا تھا یا پھر وہ بھی ہماری طرح دیر یاسین کے ان بے بس اور لاچار باسیوں کی بے بسی اور بے چارگی یاد کر کے اداس ہو گیا تھا جنہیں ان کے ناکردہ گناہوں کے عوض ان کے اپنے گھروں میں زندہ جلا دیا گیا تھا اداسی اور تکلیف کے آثار اس کے چہرے سے نمایاں تھے
جب اس نے ہمیں گولڈن وال ہوٹل کے باہر اتارا ہمارا سامان اٹھا کر اندر ہال میں پہنچایا اور میں نے اسے سو شیکل طے شدہ کرائے سے زیادہ ادا کئے تو بھی وہ کچھ نہ بولا اور بس شکراًُ کہہ کر رخصت ہو گیا اور میں اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ ہی ڈھونڈتا رہ گیا-

اس نے اچانک ٹیکسی روک دی اور ہم سے باہر آنے کی درخواست کی وہ ہمیں سڑک کے کنارے ایک اونچی جگہ پر لے گیا جہاں سے روشنیوں میں نہائے یروشلم شہر کا بہت خوبصورت منظر نظر آتا تھا فضا میں خوشگوار سی خنکی تھی ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی چودھویں کا چاند اپنی پوری آب وتاب سے جگمگا رہاتھا ہر سو ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی پھیلی ہوئی تھی ۔یروشلم شہر کا یہ پہلا نظارہ جیسے آنکھوں کے رستے میری روح میں اتر گیا انبیاء کی سرزمین حضرت ابراہیم کا وطن مسلمانوں کا قبلہ اوّل کیا کچھ نہیں تھا اس شہر میں مجھے لگا جیسے میں عرصے سے اس شہر کو جانتا ہوں میرا اس شہر سے کوئی بہت پرانا رشتہ ہے ۔دور شہر کی چھوٹی بڑی روشنیوں کے درمیان ایک سنہری گنبد چمکتا نظر آرہا تھا یہ قبتہ الصخرہ کا گنبد تھا۔اس گنبد سے ٹپکنے والی روشنی سب سے جدا تھی سب سے مختلف یوں لگا جیسے اس گنبد سے نور کی بارش ہو رہی ہے
چرخ نیلی فام پر جگمگ کرتے لاکھوں ستارے ، چودھویں کے چاند کی ٹھنڈی چاندنی ،دور تک پھیلے یروشلم شہر کی روشنیاں یہ منظر سحر انگیز ہی نہیں فسوں خیز بھی تھا جی چاہتا تھا کہ بس کھڑے اسے دیکھتے رہیں
لیکن ابو قاسم نے اس وقت اس رنگ میں بھنگ ڈال دی جب اس نے شہر کے بیچوں بیچ بنی ایک بلند وبالا بہت بڑی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عمارت کنگ ڈیوڈ ہوٹل کی ہے جہاں فلسطین کی برطانوی حکومت Mandatory British Palestine کا ہیڈ کوارٹر قائم تھا اور اسے 1946ء میں صہیونی دہشت گرد تنظیم ارگان نے بم سے اڑا دیا تھا جس میں نوے سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے اور اس حادثے کے بعد برطانوی حکومت نے فلسطین چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا
پھر وہ سڑک کے نیچے بنی عمارات کے ایک سلسلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا اس جگہ کبھی ایک فلسطینی گاؤں “دیر یاسین “ آباد تھا
اپریل 1948ء میں صہیونی دہشت گرد تنظیم لہی نے رات کے وقت اس پر حملہ کر دیا اور اس گاؤں میں رہنے والے چھ سو باشندوں کو گھروں میں بند کر کے آگ لگا دی اس حادثے میں ڈیڑھ سو کے قریب لوگ شہید ہوئے جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے –
بعد میں اس گاؤں کو بلڈوز کرکے ملیا میٹ کر دیا گیا اور آج کل یہاں ایک مینٹل ہیلتھ ہسپتال قائم ہے جس کا نام Kfar Shaul Mental Health Center ہے
دیر یسین کے واقعے کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی ۔ 10اپریل 1948ء کو البرٹ آئین سٹائین نے امریکن فرینڈز آف فائیٹرز فار دی فریڈم آف اسرائیل کو خط لکھ کر ان کی امداد اور حمایت کرنے سے انکار کیا تھا۔یہ تنظیم لہی کا امریکن چپٹر تھی پھر اس نے اپنے ہاتھ کی الٹی سمت سے اپنی آنکھوں کے گوشے صاف کئے لیکن وہ اپنے آنسوؤں کو چھپانے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ چھلکتی آنکھوں اور رندھی آواز میں بولا ۔
“ڈاکٹر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹوت جائیں گےہم ہار جائیں گے۔ اور وہ ہمارے وطن پر قابض ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوگا اس وقت تک ایسا نہیں ہوگا جب تک ہمارے جسم میں خون کی ایک بوند بھی باقی ہے ہمارے جسموں پر ایک بھی سر سلامت ہے ۔ جب تم فلسطین میں سفر کرو گے تو تمہیں ہر فلسطینی شہر کے داخلی دروازے پر لگی چابی پر یہ جملہ لکھا نظر آئے گا کہ حتماً سنعود ۔ ہم یقیناً واپس آئیں گے “
میں گنگ کھڑا رہا ۔ مجھے لگا میری قوت گویائی جواب دے گئی ہے ۔ نجانے کیوں میں اس کی ڈبڈبائی آنکھوں کا سامنا نہ کر سکا مجھے لگا جیسے میں بھی اس کا مجرم ہوں اور اس کی شاکی نظروں سے منہ پھیر کراس ہسپتال کو دیکھنے لگا جہاں کبھی دیر یسین تھا۔ پھرپتہ نہیں کس وقت وہ مجھے اکیلا وہیں چھوڑکر نیچے اتر گیا ۔ اور میں جانے کتنی دیر تک کھوئی کھوئی آنکھوں کے ساتھ عمارتوں کے اس سلسلے کو دیکھتا رہا
میرے کانوں میں عورتوں اور بچوں کے چیخنے چلانے اور رونے دھونے کی آوازیں گونج رہی تھیں آنکھوں کے سامنے ان کے گھروں سے اٹھتے شعلے رقص کر رہے تھے
دیر ہوگئی تو مجھے بلال کی آواز سنائی دی جو نیچے ابو قاسم کے ساتھ ٹیکسی کے قریب کھڑا جانے کب سے مجھے پکار رہا تھا
دُکھی اور افسردہ دل کے ساتھ میں نے اس ہسپتال پر ایک آخری نظر ڈالی جس کی بنیادیں دیر یسین کے بے گناہ فلسطینیوں کی جلی ہوئی لاشوں پر قائم تھیں ۔ اور بھاری قدموں سے ٹیکسی کی طرف چل دیا۔
ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے میں نے ابو قاسم سے وہ سوال پوچھ ہی لیا جو بڑی دیر سے میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا “کیا تم ہر مسافر سے ایسے ہی باتیں کرتے ہو جیسے تم نے ہم سے کی ہیں “ وہ ہنس پڑا لیکن اس کی ہنسی کے پیچھے چھپا غلامی کا درد اور بے بسی صاف نظر آرہی تھی
“ کہاں صاحب اگر میں ہر مسافر سے یہ باتیں کرتا جو آپ سے کی ہیں تو میرا ٹیکسی کا لائسینس کب کا کینسل ہو گیا ہوتا اور میں کسی جیل میں پڑا ہوتا-“ اس نے ٹیکسی سٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی اور بڑے دکھ بھرے لہجے میں بولا “ ڈاکٹر تم بھلے آدمی لگتے ہو تمہارے دل میں مسلم اُمّہ کا درد ہے اور تم فلسطنیوں اور مسلمانوں کی تاریخ سے بھی بخوبی روشناس محسوس ہوتے ہو تم جیسا مسافر مہینوں بعد ملتا ہے جس سے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کو جی چاہتا ہے اور پھر تم نے بتایا تھا کہ واپس جا کر تم اپنا سفر نامہ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہو تو اس لئے تم سے یہ سب کہہ ڈالا جو ہم اپنے سائے سے بھی کہتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔میری یہ ساری باتیں تمہارے پاس میری اور میری قوم کی امانت ہیں وعدہ کرو کہ انہیں
من وعن ایسے ہی لکھو گے جیسے تمہیں بتائی ہیں یہ صرف میرا اور قوم کا ہی نہیں ہماری آنے والی نسلوں کا بھی دکھ ہے جس سے دنیا کو آگاہ کرنا بڑا ضروری ہے ۔اگر تم جیسے لوگ یہاں آتے رہیں گے تو امید ہے شائد ہماری حالت زار پر دنیا کو ایک دن رحم آجائے”
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے یقین دلایا کہ میں اس کی یہ امانت ضرور دوسروں تک پہنچاؤں گا ۔باقی سارے راستے میں ابو قاسم خاموش رہا شائد اس کے پاس اب کہنے کو کچھ نہ بچا تھا۔یا پھر وہ بھی ہماری طرح دیر یاسین کے ان بے بس اور لاچار باسیوں کی بے بسی اور بے چارگی یاد کر کے اداس ہو گیا تھا جنہیں ان کے ناکردہ گناہوں کے عوض ان کے اپنے گھروں میں زندہ جلا دیا گیا تھا ۔اداسی اور تکلیف کے آثار اس کے چہرے سے نمایاں تھے۔
جب اس نے ہمیں گولڈن وال ہوٹل کے باہر اتارا ہمارا سامان اٹھا کر اندر ہال میں پہنچایا اور میں نے اسے سو شیکل طے شدہ کرائے سے زیادہ ادا کئے تو بھی وہ کچھ نہ بولا اور بس شکراًُ کہہ کر رخصت ہو گیا اور میں اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ ہی ڈھونڈتا رہ گیا-
میری یہ ساری باتیں تمہارے پاس میری اور میری قوم کی امانت ہیں وعدہ کرو کہ انہیں من وعن ایسے ہی لکھو گے جیسے تمہیں بتائی ہیں یہ صرف میرا اور قوم کا ہی نہیں ہماری آنے والی نسلوں کا بھی دکھ ہے جس سے دنیا کو آگاہ کرنا بڑا ضروری ہے۔اگر تم جیسے لوگ یہاں آتے رہیں گے تو امید ہے شائد ہماری حالت زار پر دنیا کو ایک دن رحم آجائے” میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے یقین دلایا کہ میں اس کی یہ امانت ضرور دوسروں تک پہنچاؤں گا باقی سارے راستے میں ابو قاسم خاموش رہا شائد اس کے پاس اب کہنے کو کچھ نہ بچا تھا یا پھر وہ بھی ہماری طرح دیر یاسین کے ان بے بس اور لاچار باسیوں کی بے بسی اور بے چارگی یاد کر کے اداس ہو گیا تھا جنہیں ان کے ناکردہ گناہوں کے عوض ان کے اپنے گھروں میں زندہ جلا دیا گیا تھا اداسی اور تکلیف کے آثار اس کے چہرے سے نمایاں تھے
جب اس نے ہمیں گولڈن وال ہوٹل کے باہر اتارا ہمارا سامان اٹھا کر اندر ہال میں پہنچایا اور میں نے اسے سو شیکل طے شدہ کرائے سے زیادہ ادا کئے تو بھی وہ کچھ نہ بولا اور بس شکراًُ کہہ کر رخصت ہو گیا اور میں اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ ہی ڈھونڈتا رہ گیا-
															