turky-urdu-logo

مولانا رومی اور شب عروس

تحریر : اسلم بھٹی

17 دسمبر مولانا جلال الدین رومی کا یوم وصال ہے جسے آپ ” شب عروس ” کا نام دیتے ہیں۔ وہ اپنے خالق حقیقی سے ملنے کی رات کو ” شب عروس” کہتے ہیں۔

مولانا جلال الدین رومی ایک ایسی شخصیت ہیں جسے مشرق اور مسلم دنیا میں ہی نہیں بلکہ مغرب اور باقی دنیا میں بھی بہت بڑا مفکر، شاعر اور عظیم صوفی مانا جاتا ہے۔

مولانا جلال الدین رومی کو یہ مقام ان کے خیالات اور ان کے افکار میں وسعت اور گہرائی کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج یورپ اور امریکہ میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی شخصیات میں مولانا جلال الدین رومی بھی شامل ہیں۔

مولانا جلال الدین رومی ایک عظیم صوفی شاعر، بزرگ اور عظیم مفکر تھے۔ وہ بلخ (افغانستان) میں 30 ستمبر 1207 ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلطان العلماء حضرت بہاؤالدین ولد تھے جو اپنے دور کے بہت بڑے عالم اور فاضل شخص تھے۔ آپ کا شجرہ نسب والد کی طرف سے حضرت ابوبکر اور والدہ کی طرف سے حضرت علی سے ملتا ہے۔

حضرت بہاؤالدین ولد منگولوں کے حملوں کے بعد سلطنت سلجوقیہ میں جو کہ آج ترکیہ کہلاتا ہے وہاں کے دارالحکومت قونیہ شہر میں ہجرت کر گئے۔

کہتے ہیں کہ وہاں آپ کو سلجوقی سلطان علاء الدین نے آنے کی بذات خود دعوت دی تھی اور شہر کے باہر آ کر آپ کا استقبال کیا اور آپ کو گھوڑے پر بٹھا کر خود اس کی باگ تھام کر شہر میں داخل ہوئے۔

قونیہ ہی میں مولانا جلال الدین رومی کا 17 دسمبر 1273 ء کو 68 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ یہیں آپ کا مزار ہے جہاں 17 دسمبر کو مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
محفل سماع اور ذکر و اذکار کی محافل برپا ہوتی ہیں۔

مولانا جلال الدین رومی کی بہت سی مشہور تصانیف ہیں جن میں مثنوی، دیوان کبیر، فیہا ما فیہا اور دیوان شمس قابل ذکر ہیں۔ دیوان شمس جو انہوں نے اپنے مرشد حضرت شمس تبریزی کے نام موسوم کیا اس میں 50 ہزار سے زیادہ اشعار ہیں۔ مثنوی میں ستائیس ہزار سے زیادہ اشعار موجود ہیں۔

مولانا کی کتب کا ترجمہ دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ مولانا کے چاہنے والے پوری دنیا میں موجود ہیں جو ان کے افکار و خیالات سے متاثر ہوئے۔ ان میں سے برصغیر پاک و ہند کے مشہور صوفی بزرگ شاہ عبدالطیف بھٹائی اور ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال بھی شامل ہیں۔ علامہ اقبال تو آپ سے انتہائی عقیدت رکھتے تھے۔ اقبال آپ کو مرشد رومی کہا کرتے تھے اور اپنے آپ کو مرید ہندی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔

کہتے ہیں کہ مولانا کا جب وصال ہوا تو آپ کے جنازے میں انسانوں کا ایک سمندر امنڈ آیا۔ اس میں نہ صرف مسلمان تھے بلکہ عیسائی، مجوسی، یہودی، ہندو اور تقریباً تمام مذاہب کے ماننے والے شامل تھے۔ ان لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ وہ اس لیے مولانا کے جنازے میں شریک ہوئے ہیں کہ انہوں نے ان کی تصانیف اور اشعار کے ذریعے اپنے پیغمبروں کو پہچانا ہے۔

مولانا کا پیغام خالق حقیقی سے لو لگانا عاجزی و انکساری، امن، پیار، محبت، بھائی چارہ، مساوات اور انسانوں سے انس ہے۔

آج بھی مولانا کا مزار مرجع خاص و عام ہے جہاں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ جاپان، چین، امریکہ، یورپ برطانیہ ہر جگہ سے زائرین آتے ہیں اور وہاں اپنے آپ کو آپ کے خیالات افکار سے مستفید کرتے ہیں۔

آپ کا پیغام آفاقی اور تعلیمات عالمگیر ہیں۔ آپ مخلوق کو خالق سے جوڑنے کی دعوت دیتے ہیں۔

باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
ایں درگہ ما درگی نو میدی نیست
سو بار اگر توبہ شکستی باز آ
ترجمہ:
باز آ باز آ تو جو کوئی بھی ہے باز آ جا
اگر تو کافر، مشرک اور بت پرست بھی ہے تو باز آ جا
ہماری یہ درگاہ نا امیدی کی درگاہ نہیں ہے
اگر تو سو بار بھی توبہ توڑ چکا ہے پھر بھی باز آ جا

اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو روشن اور آپ کے افکار و خیالات کو پوری دنیا میں تا قیامت جاری و ساری رکھے اور ہمیں ان سے استفادہ کرنے کی توفیق دے۔ آمین

Read Previous

ترکیہ اور یورپی یونین شام کی خودمختاری پر متفق ہیں: صدر ایردوان

Read Next

ترک قونصلر جنرل لاہور کا پاک ترک معارف اسکول رائیونڈ روڈ لاہور کا دورہ،

Leave a Reply