تحریر: عالم خان
پروفیسرز میس میں کھانے کے بعد جمعہ پڑھنے جامع مسجد آیا، آج کےکھانے میں خصوصی طور پر سادہ شوربہ بنایا جاتا ہے اس کے باوجود وہی رش تھا جو اچھے کھانوں کے وقت ہوتا ہے مسجد میں امام صاحب خلاف معمول اپنی قوم کے نوجوانوں کو ان کے آباء واجداد کی قربانیوں کی لازوال داستانوں کے ذریعے جذبہ جہاد اور حب الوطنی پر ولولہ انگیز تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ آیات اور احادیث سے بھر پور درس دے رہے ہیں..سامعین بہت انہماک سے سن رہے ہیں اور میں ایک کونے میں بیٹھا یہ سطور لکھ رہا ہوں تاکہ زندہ قوموں کا آنکھوں دیکھا حال آپ تک پہنچا سکوں ۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران خلافت عثمانیہ جرمنی کی اتحادی ہونے کی وجہ سے اپنے اکثر علاقوں کو کھو چکی تھی اتحادی افواج سرزمین ترکی پر قابض ہونے کے لیے پیش قدمی کر رہیں تھیں. ترک قوم سیٸول اور فوج ایک طاقت ہو کر اپنی سر زمین کے دفاع کے لیے میدان جنگ میں موجود تھی. اتحادی افواج نے ہر طرف سے محاصرہ کیاہوا تھا ترک قوم کو ایک طرف سخت سرد موسم اور دوسری طرف دشمن کی گولہ باری کا سامنا تھا۔ میدان جنگ میں موجود مجاہدوں کے پاس کھانے کے لیے سوائے چاول سے بنے ہوئے سادہ شوربے اور روٹی کے ایک ٹکڑے کے سوا کوئی کھانا میسر نہ تھا اور اسی پر انہیں کئی کئی دن گزارا کرنا پڑتا تھا. ہزاروں کی تعداد میں مجاہدین جام شہادت نوش کر رہے تھے ۔
لیکن موسم کی شدت کے باوجود خالی پیٹ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے تھے، ایک ہی نعرہ تکبیر اس عزم اور جذبے کے ساتھ لگایا جاتا تھا کہ فتح یا جام شہادت…. لڑائی جاری تھی کوئی بھوک سے تو کوئی دشمن کی بے رحم گولیوں سے شہادت پا رہا تھا لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے حوصلے مضبوط اور ارادے جوان ہو رہے تھے جس کا نتیجہ 18 مارچ 1915 کو چناق کلے کے مقام پر فتح کی صورت میں نکلا ۔ گھروں سے بچے، اور خواتین مورچوں کی طرف بھاگنے لگے جہاں سرد موسم میں بھوک سے بے حال غازیان اور شہدا پڑے ہوئے تھے۔ ایک طرف فتح کا جشن تو دوسری طرف ان کے پاس روٹی کے ایک ایک ٹکڑے اور ٹھنڈے شوربہ پر آنسو بہاتی آنکھیں تھیں۔
اس کے بعد ہر سال 18 مارچ کو اس تاریخی فتح کی یاد اپنے محسنوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے عملی طور پر منائی جاتی ہے اور اپنے شہیدوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اس دن صرف شوربہ بنایا جاتا ہے تاکہ نوجوان نسل اپنی تاریخ سے جڑی رہے ماضی سے سیکھے،اور یہ یاد رکھے کہ ان کے مستقبل کے لیے کتنی قربانیاں دی گئی ہیں۔ امام صاحب شہداء کے ایصال ثواب کے لیے ہاتھ اٹھا رہے ہیں اور میں یہ آخری سطور لکھ رہا ہوں: "کاش ہمارے ہاں بھی ایسی یکجہتی اور تربیت کا مظاہرہ کیا جاتا اور صرف “ہم زندہ قوم ہیں ”کے نغموں پر اکتفا نہ کیا جاتا”۔