turky-urdu-logo

ایرانی سفارتی اہلکار کے انکشافات

آج سپر مارکیٹ میں ایک ایرانی ٹی وی چینل کے صحافی سے آمنا سامنا ہوا۔ کھڑے کھڑے سلام دعا میں انہوں نے اپنے ہمراہی کا تعارف کرایا، یہ ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر علی لاریجانی کے دفتری میڈیا کے اہلکار ہیں۔ چھٹیاں گزارنے پاکستان آئے ہوئے ہیں۔یہ سُننے کے بعد اُن سے براہ راست درخواست کی کہ کچھ وقت عنایت فرمائیں، آپ سے کچھ چیزیں سمجھنا ہیں۔ انہوں نے حامی بھری اور قہوے کی چسکیوں کے ساتھ گپ شپ کا آغاز ہوا۔میرا پہلا سوال تھا کہ سعودی عرب–

پاکستان اسٹریٹجک دفاعی معاہدے پر ایرانی قیادت کا ردعمل کیا ہے؟ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے پر ایران کا مجموعی ردعمل مثبت ہے۔ گزشتہ سال سے سعودی عرب کے ساتھ ایرانی تعلقات میں خاصی بہتری آئی ہے۔ اسرائیل حملے پر سعودی ردعمل اور ولی عہد کی براہِ راست کال نے دونوں ملکوں کے درمیان ماحول کو بہتر بنایا۔ پاکستان–سعودی معاہدے کے بعد سعودی ولی عہد کے بھائی اور وزیر دفاع نے ایرانی وزیر دفاع عزیز ناصر زادہ کو ٹیلی فون پر معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

جس کے بعد ایرانی وزیر دفاع نے میڈیا کو جاری کیے گئے سرکاری بیان میں کہا کہ: "ہم ہمیشہ ان اقدامات کی حمایت کریں گے جو اسلامی ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔” انہوں نے ساتھ بیٹھے صحافی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ان سے بھی پوچھ لیں، ایرانی میڈیا نے اس معاہدے کو مثبت طور پر لیا ہے۔دوسرا سوال تھا: سعودی عرب–ایران کے درمیان آپ نے حالیہ گرم جوشی کا ذکر تو درست کیا ہے، لیکن دونوں ممالک کے درمیان مخاصمت کی خاصی گہری جڑیں موجود ہیں۔ ان کی موجودگی میں یہ گرم جوشی کتنی دیرپا ہو سکتی ہے؟کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ گزشتہ ایک عشرے میں جہاں یہ مخاصمت اپنے عروج پر پہنچی، وہیں دونوں ممالک کو اس سے بہت سے سبق بھی سیکھنے کو ملے ہیں۔ حالیہ گرم جوشی دراصل انہی اسباق کا نتیجہ ہے، نہ کہ کسی وقتی جوش کا نتیجہ۔ اس لیے امکان یہی ہے کہ دونوں ممالک ان غلطیوں کو دہرانے کی کوشش نہیں کریں گے جنہوں نے دونوں کو ہی زبردست نقصان پہنچایا ہے۔

اس کے علاوہ بہت سارے معاملات محض عدم اعتماد اور غلط فہمیوں کا نتیجہ تھے۔ اب اگر باہمی گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، تو بہت سارے ایشوز ویسے ہی ختم ہو جائیں گے۔تیسرا سوال پوچھا کہ اسرائیلی حملے کے آغاز میں ایران کو جس طرح کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس کی وجہ کیا تھی اور ایران نے اس کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات کیے ہیں؟ان کا کہنا تھا کہ نقصان کی دو بنیادی وجوہات تھیں: اول تو واضح انٹیلیجنس کی ناکامی، جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ دوم، "پاسدارانِ انقلاب” کے عہدے داروں کی انتہا درجے کی بے احتیاطی۔ "پاسداران کے عہدے دار، احتیاط کے مشورے پر اللہ وارث اور علی وارث” کہنا بہادری کا اظہار سمجھتے تھے۔ ان کے جرنیل سطح کے افسران پبلک فلیٹس میں رہتے تھے، بغیر سکیورٹی اور ذاتی گاڑی میں آتے جاتے تھے۔

اس کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔ اسرائیلی جاسوسوں کے حملے میں ریگولر فوج کا ایک بھی سینیئر افسر شہید نہیں ہوا، سبھی پاسدارانِ انقلاب کے لوگ ٹارگٹ ہوئے ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں۔چوتھا اور آخری سوال بھارتی جاسوسوں کے بارے میں پوچھا: کیا اب ایران اس حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرے گا، جس کا پاکستان بہت بار مطالبہ کر چکا ہے؟ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملے کے دوران بڑی تعداد میں افغانی اور بھارتی جاسوس سامنے آئے ہیں۔ جس کے بعد سے اس پر ایرانی پالیسی میں بہت سختی آئی ہے۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایرانی مارکیٹ میں افغانیوں اور بھارتیوں نے کثیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان کی یہ بات میرے لیے انکشاف تھی کہ ایران میں کئی بڑی سپر مارکیٹس بھارتیوں کی ملکیت ہیں یا ان میں بھارتی سرمایہ کاری شامل ہے۔

لیکن اب ایران میں بھارتیوں اور افغانیوں دونوں پر سخت نگرانی کا آغاز ہو چکا ہے۔ ماضی کی طرح ان کے لیے حالات نرم نہیں رہے۔گفتگو کے اختتام پر انہوں نے اس کو آف دی ریکارڈ قرار دیا، کیونکہ وہ نجی حیثیت میں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ تاہم میں نے ان سے اجازت لی کہ بغیر نام یا اصل عہدہ مینشن کیے گفتگو کو اپنے الفاظ میں لکھ سکتا ہوں۔ کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نے اس کی اجازت دے دی۔

Read Previous

عافیون گیسٹرونومی فیسٹیول۔ ترک کھانوں، کاروباری خواتین اور نوجوان شیف امیدواروں کی شاندار شرکت

Read Next

سعودی عرب کا ۹۵واں یومِ الوطنی — “ہماری شان فطرت میں ہے” کے عنوان سے شاندار تقریبات، دنیا بھر سے مبارکبادوں کا سلسلہ جاری

Leave a Reply