
ترکی کے قومی ترانہ استقلال مارشی کے شاعر مہمت عاکف ایرسوئے کی آج برسی منائی جا رہی ہے
مہمت ایرسوئے لاکھوں ترکوں کے دلوں میں بستے ہیں ان کی مقبولیت کی وجہ صرف قومی ترانے تک ہی محدود نہیں بلکہ شاعری سمیت دیگر شعبوں میں بھی ان کی بے شمار خدمات ہیں۔
مہمت 20 دسمبر 1873 میں عثمانی استبول کے ضلع فاتح میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے ہی اسکول سے حاصل کی۔
آپ نے عربی زبان اپنے والد صاحب سے سیکھی جبکہ فرانسیسی اور فارسی اسکول اور مدرسے میں سیکھی۔
اعلی تعلیم کے حصول کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن والد کی وفات کے بعد انہیں تعلیم چھوڑ کر روزی روٹی کمانا پڑی۔
اسی سال مہمت نے ویٹرنری اسکول میں داخلہ لیا اور تعلیم مکمل کر کے وزارت زراعت میں نوکری کر لی ۔ تعلیم سے ان کے لگاو کی بدولت انہوں نے استنبول کی سرکاری یونیورسٹی میں ویٹرنری سائنسز کے شعبے میں استاد کے فرائض بھی انجام دیے۔
مہمت ایرسوئے کو ان کی حب الوطنی اور اعلی پائے کی خطابت کی وجہ سے عثمانی انٹیلی جنس میں برتی کر لیا گیا۔
عثمانی سلطنت کے زوال پذیر ہونے کے بعد سے ترکی کی جنگ آزاری تک مہمت ایرسوئے نے ترک عوام میں جذبہ آزادی بیدار کروایا ۔
نومبر 1920 میں وزارت تعلیم نے ترکی کا قومی ترانہ لکھنے کے لیے مقابلے کا اعلان کیا جس میں 700 سے زائد شعرا نے شرکت کی۔
انعامی رقم کی وجہ نے ایرسوئے نے مقابلے میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تاہم بعد میں وزیر تعلیم حمداللہ کے کہنے پر قومی ترانہ لکھا جسے یکم مارچ کو ترک پارلیمٹ میں پڑھ کر سنایا گیا اور 12 مارچ 1921 کو قومی ترانے کے طور پر اپنایا گیا۔
1923 میں ترکی کی آزادی کے بعد جب سیکولر نظام حکومت راج ہوا تو مہمت ایرسوئے نے ترکی سے مصر ہجرت کر لی اور قائرہ یونیورسٹی میں ترک زبان سکھانا شروع کر دی۔
1935 میں لبنان کے دورے کے دوران ملیریا میں مبتلا ہو گئے جس کے ایک سال بعد آپ ترکی آئے اور 27 دسمبر 1936 میں خالق حقیقی سے جا ملے۔