turky-urdu-logo

کرد ریاست اور اسرائیلی خواہش

تحریر:شمس الدین امجد

کرد ریاست کا قیام امریکہ اور اس سے کہیں زیادہ اسرائیل کی خواہش ہے۔ عربوں اور شیعہ مخالفت میں گھرا ہوا اسرائیل کرد ریاست کو فطری حلیف سمجھتا ہے۔ نیتن یاہو نے کچھ دن قبل کرد ریاست کے قیام پر زور دیا تھا، اب بھی عراق کے کرد علاقے کو نیم خودمختاری حاصل ہے، اور وہاں اسرائیل موجود ہے، دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بعض اڈے بھی ہیں۔ ایران کے اسرائیل پر حملے کے وقت ان اڈوں کی فعالیت کی خبر میڈیا میں آئی تھی۔


یہاں پر آ کر وہ مفروضہ ٖغلط ثابت ہو جاتا ہے کہ ترکی کے اقدام کو امریکہ و اسرائیل کی حمایت حاصل تھی۔ اگلے دن ڈونلڈ ٹرمپ نے شکوہ بھی کیا کہ ترکی نے شام پر غیردوستانہ قبضہ کر لیا ہے۔ ترکی کے اقدام کی بنیادی وجہ ہی کرد ریاست کے قیام کو روکنا ہے۔ کرد ترکی کی آبادی کا غالباً 20 فیصد ہیں۔ ایک عرصہ سے ترکی کو ان علاقوں میں علیحدگی پسندی کا سامنا ہے۔ وہاں کرد پارٹی ایچ ڈی پی پر پابندی لگا دی گئی جو پارلیمنٹ میں غالبا تیسری بڑی پارٹی تھی۔

شام کے کرد علاقے ترکی کے لیے درد سر ہیں۔ وہاں فوجی آپریشن بھی ہوئے اور ترکی کا قبضہ بھی، مگر ایک وسیع علاقہ کردوں کے زیرکنٹرول ہے جو ترکی کےلیے ناپسندیدہ ہے۔ عراق کے کرد علاقے پر بھی ترکی کے حملے جاری رہتے ہیں۔ کرد ریاست کا قیام ترکی کی سالمیت کے لیے مستقل خطرہ بن جائے گا، ممکن ہے اسے اپنے علاقے سے ہاتھ دھونے پڑیں، ایسا نہ ہوا تو مستقل شورش کا سامنا رہے گا۔ سو ترکی کسی ایسے کھیل کا حصہ کیسے بنے گا جو اس کی اپنی سالمیت کے لیے خطرہ ہو۔


ہمارے ہاں مسئلہ یہ کہ جیسے اپوزیشن ہر انقلاب سے اپنا انقلاب آتا دیکھنا شروع کر دیتی ہے، وہیں ہماری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو ہر انقلاب سے خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے، یہ احساس تو غالبا طرفین کو ہے کہ چنگاری کسی وقت بھی شعلے میں بدل سکتی ہے۔ تو ہمارے ہاں حکومت کے حامی احباب کے لیے رجیم چینج کے خلاف بات کرنا سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ شام میں جمہوری جدوجہد نصف صدی پرانی ہے، وہاں مختلف شہروں میں حافظ الاسد کا قتل عام بھی نصف صدی پرانا ہے، وقتاً فوقتاً ایسا ہوتا رہا ہے وہاں، کسی بھی عرب ملک کے مقابلے میں زیادہ۔ 2011 کے وقت بھی اولاً پرامن جمہوری جدوجہد تھی، جسے طاقت کے زور پر دبا دیا گیا۔

لاکھوں قتل ہوئے، شہروں کے شہر کھنڈر بنا دیے گئے، ایک تہائی سے زیادہ آبادی ہجرت پر مجبوری ہوئی۔ ہزاروں جیلوں میں قتل کر دیے گئے۔ابھی صیدیانا جیل کی خبریں آئیں جو گوانتاناموبے کو شرما دینے والی تھیں، اسی ایک جیل میں بعض دعووں کے مطابق 35 ہزار لوگ قتل کیے گئے۔ ایسی کسی ڈکٹیٹرشپ کو ریاست سمجھنا شامی عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔


جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بشار کے ہٹنے سے اسرائیل کو فائدہ ہوگا، تو یہ دعوی تو حقائق کے بالکل برعکس ہے، نہیں معلوم کہ اس کی بنیاد کیا ہے۔ جو لوگ شام سے کچھ دلچسپی رکھتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ اسرائیل تو شام پر ہر دوسرے دن حملہ کرتا تھا، دارالحکومت دمشق پر بھی، شامی حکومت تو اپنے خلاف کسی حملے کا جواب نہیں دے سکی، وہ فلسطین یا غزہ کا ساتھ کیا دیتی۔ ایران کے سفارتخانے پر دمشق میں حملہ ہوا، مگر شام اس سے غیر متعلق رہا، اور ایران کو اپنی سرزمین سے کارروائی کرنی پڑی۔ پھر غزہ پر اسرائیلی حملوں کو تو ایک سال سے زائد ہو گیا، ایک دفعہ بھی شام نے چوں تک نہیں کی۔


باقی ہمارے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے حامی احباب اس سے خوفزدہ نہ ہوں، یہاں پر اس کا کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔ نہ ہی یہ بات دہرانے یا بتانے کی ضرورت ہے کہ فوج نہ ہوتی تو ہمارا حال بھی شام و لیبیا جیسا ہوتا۔ ہمارے سید منور حسن ؒ فرماتے تھے کہ فوج نہیں، قوم ریاست کی بقا کی ضامن ہوتی ہے، ورنہ بڑی افواج رکھنے والی ریاستیں بکھر نہ جاتیں، حال ہی میں سوویت یونین کی وہ مثال دیتے تھے کہ وہ بھی سپر پاور تھی، مگر فوج اور اسلحہ اسے بکھرنے سے نہیں بچا سکے۔

مشرقی پاکستان میں ہم اپنی فوج کا معاملہ بھی دیکھ چکے ہیں۔ جو اصل بات فکر کرنے کی ہے ، وہ یہ کہ فوج اور قوم میں خلیج نہ ہو، اور حکومت، فوج اور قوم ایک پیج پر ہوں۔ اس وقت جو صورتحال ہے، اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل فکرمندی اور پریشانی کی بات تو یہی ہونی چاہیے۔

Read Previous

ترکیہ کے ایجوکیشن ایڈوائزر کی بحریہ یونیورسٹی کے ثقافتی میلے میں شرکت

Read Next

اللہ کے بعد ہمیں ترکیہ پر اعتماد ہے: وزیرِ اعظم لبنان

Leave a Reply