turky-urdu-logo

سلگتا ہوا کشمیر ۔ ترکیہ کا کردار۔ امن کی آس۔ تحریر: شبانہ ایاز

کشمیر، جو کبھی اپنے قدرتی حسن کے باعث "جنت نظیر” کہلاتا تھا، آج خون، آنسوؤں اور تنازعات کی دلدل میں ڈوبا ہوا ہے۔ 5 اگست 2025 کو، یہ خطہ ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا مرکز بن چکا ہے۔ پہلگام حملے (22 اپریل 2025) اور مئی 2025 کے فوجی تصادم نے کشمیر کے زخمی دل کو مزید چھلنی کر دیا ہے۔ اس پیچیدہ تنازع کے حل کے لیے عالمی برادری کی خاموشی اور غیرجانبداری نے صورتحال کو مزید گھمبیر کیا ہے۔ تاہم، ترکیہ نے گزشتہ چند برسوں میں کشمیر تنازع پر اپنی واضح آواز اور مثبت کردار کے ذریعے اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ترکیہ کا یہ کردار نہ صرف پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا ہے بلکہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی جدوجہد کو بھی تقویت دیتا ہے۔ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن نے 2019 سے 2022 تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں مسلسل کشمیر کے مسئلے کو اٹھایا اور اسے ایک "سلگتا ہوا مسئلہ” قرار دیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر تنازع کے حل پر زور دیا اور مذاکرات کے ذریعے اسے حل کرنے کی ضرورت پر بات کی۔ 2020 میں، ایردوآن نے کہا تھا کہ "کشمیر پاکستان کے لیے جتنا اہم ہے، اتنا ہی ترکیہ کے لیے بھی ہے”، جس سے دونوں ممالک کے درمیان گہری تاریخی اور ثقافتی قربت کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے 2021 میں بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کہا کہ "مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے اہم ہے”، اور اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے فریم ورک کے تحت حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ترکیہ نے نہ صرف عالمی فورمز پر کشمیر کے لیے آواز اٹھائی بلکہ پاکستان کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کو بھی مضبوط کیا۔ 2022 میں، وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران، ایردوآن نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے حل کی حمایت کی، جس پر پاکستان نے خیرمقدم کیا۔ ترکیہ کی یہ غیر متزلزل حمایت کشمیریوں کے لیے ہمت و حوصلے کا باعث بنی، جیسا کہ ورلڈ کشمیر ایوئرنیس فورم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر غلام نبی فائی نے بھی تسلیم کیا۔ترکیہ نے کشمیر تنازع کے حل کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے اس پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ کا کثیر الجہتی طریقہ کار اس تنازع کے حل کے لیے اہم ہو سکتا ہے۔ اگرچہ بھارت نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اسے اپنے "اندرونی معاملات” میں مداخلت قرار دیا، ترکیہ نے اس تنقید کے باوجود اپنا موقف برقرار رکھا۔ ترکیہ کی یہ جرأت مندانہ پوزیشن اسے دیگر مسلم ممالک سے ممتاز کرتی ہے، جو عموماً کشمیر تنازع پر خاموش رہتے ہیں یا غیرجانبدار موقف اپناتے ہیں۔ترکیہ کی یہ حمایت پاکستان کے لیے اس وقت اور بھی اہم ہو جاتی ہے جب خطے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک بھارت کے ساتھ اپنے معاشی اور سٹریٹجک تعلقات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ترکیہ نے نہ صرف عالمی فورمز پر کشمیر کے لیے آواز اٹھائی بلکہ پاکستان کے ساتھ اپنے اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی کیے، جیسے کہ فوجی اور سفارتی تعاون۔ترکیہ کا کشمیر تنازع پر موقف کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے:ترکیہ نے اقوام متحدہ جیسے پلیٹ فارمز پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرکے عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے۔ اس سے کشمیری عوام کی جدوجہد کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ ترکیہ کی غیر مشروط حمایت نے پاکستان کو سفارتی تنہائی سے بچانے میں مدد کی، خاص طور پر جب دیگر ممالک غیرجانبدار رہتے ہیں۔کشمیریوں کے حق خودارادیت کی وکالت: ترکیہ نے بارہا اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی، جو اس تنازع کے حل کی بنیاد ہے۔علاقائی استحکام کے لیے کردار: ترکیہ کا موقف خطے میں امن و استحکام کے لیے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتا ہے، جو جوہری خطرات کے تناظر میں انتہائی ضروری ہے۔تاہم، ترکیہ کے کردار کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ 2024 میں، ایردوآن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا ذکر نہیں کیا، جسے بعض مبصرین نے ترکیہ کے برکس گروپ میں شمولیت کی کوششوں سے جوڑا، کیونکہ بھارت اس گروپ کا بانی رکن ہے۔ اس خاموشی پر پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے پاکستانی سفارت کاری کی ناکامی قرار دیا۔ اس کے باوجود، ترکیہ نے دیگر مواقع پر اپنی حمایت جاری رکھی، جیسے کہ انقرہ میں یوم یکجہتی کشمیر کی تقریب میں پاکستانی سفیر کی طرف سے ترکیہ کے موقف کی تعریف۔ترک پاکستان فرینڈشپ گروپ کے پارلیمانی لیڈر علی شاہین نے کشمیری قیادت سے ملاقات پر ایک تاریخی جملہ میں کہا کہ *”کشمیر کے آنسو ہمارے آنسو ہیں۔”* جس کی بازگشت پاکستان و کشمیر میں سنی گئی۔اسی طرح ترکیہ کی حکمران جماعت ہو یا اپوزیشن و دیگر جماعتیں یہاں تک کہ ترکیہ کے عوام ۔۔۔سب کا کشمیر پر ایک ہی مؤقف ہے کہ ہمارا دل کشمیر کے ساتھ دھڑکتا ہے ۔بھارت کی جانب سے ترکیہ کے بیانات پر مسلسل تنقید اور اسے "اندرونی معاملات میں مداخلت” قرار دینا بھی ترکیہ کے لیے ایک چیلنج ہے۔ کشمیر تنازع کا حل ایک پیچیدہ چیلنج ہے، جس کے لیے عالمی برادری کے فعال کردار کی ضرورت ہے۔ ترکیہ اس تنازع کے حل کے لیے مندرجہ ذیل طریقوں سے مثبت کردار ادا کر سکتا ہے: ترکیہ کو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر کشمیر کے لیے آواز اٹھاتے رہنا چاہیے تاکہ عالمی برادری پر دباؤ بڑھے۔ ترکیہ کی ثالثی کی پیشکش کو مزید فعال کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات شروع کیے جا سکتے ہیں۔ ترکیہ دیگر مسلم ممالک، خاص طور پر او آئی سی کے ارکان کو، کشمیر کے لیے متحد کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ترکیہ کو بھارتی زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کے لیے عالمی اداروں کی توجہ بار بار مبذول کروانی چاہیے۔کشمیر کا زخمی دل مرہم مانگتا ہے، اور ترکیہ نے اپنے مثبت کردار کے ذریعے اسے عالمی سطح پر آواز دینے کی کوشش کی ہے۔ ترکیہ کی غیر متزلزل حمایت، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی وکالت، اور ثالثی کی پیشکش اس تنازع کے حل کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ تاہم، اس کردار کو مزید موثر بنانے کے لیے ترکیہ کو اپنے سفارتی دائرہ کار کو وسیع کرنا ہوگا اور دیگر عالمی طاقتوں، جیسے کہ چین اور روس، کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ کشمیر تنازع کا حل نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے، اور ترکیہ اس حل کی امید کی ایک کرن ثابت ہو سکتا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ ترکیہ کے اس مثبت کردار کی حمایت کرے اور مذاکرات کے ذریعے کشمیری عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک پائیدار حل تلاش کرے۔

Read Previous

ترکیہ نے ففتھ جنریشن لڑاکا طیارہ پروگرام میں مصر کی شمولیت کی منظوری دے دی

Read Next

سربراہ پاک بحریہ کو ترکیہ کے اعلیٰ عسکری اعزاز "لیجن آف میرٹ” سے نوازہ گیا

Leave a Reply