turky-urdu-logo

چین پاک معاہدوں میں کشمیر کی گونج

تحریر:نعیمہ احمد مہجور

چین اور پاکستان کے حالیہ سربراہ اجلاس پر جہاں برصغیر کے کروڑوں عوام کی نظریں مرکوز تھیں وہیں کشمیر کی ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی کے لئے یہ انتہائی اہم اجلاس تھا جس کی بظاہر وجوہات لداخ میں چین کا گھُس آنا، وادئ گلوان میں اُس کا ہزاروں کلو میٹر پر قبضہ کرنا یا ۵اگست ۲۰۱۹ کا جموں و کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے کا بھارتی فیصلہ ہے۔
جموں و کشمیر کی متنازعہ حثیت کے بارے میں چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے وہ چاہیے اقوام متحدہ میں قرار دادوں کو پاس کروانا تھا، عالمی سطح پر اس خطے کی متنازعہ حثیت کو منوانا تھا یا معاشی حالات کو سدھارنے میں پاکستان کی امدد کرنا تھا۔
۱۹۶۲ کی جنگ کے بعد بھارت اور چین کے مابین اگر تعلقات میں قرُبت پیدا نہیں ہوئی البتہ چند اکا دُکا واقعات کو چھوڑکر کوئی ایسی بڑی تکرار بھی نہیں ہوئی کہ جہاں دونوں ملکوں کے بیچ تلخی کا کوئی گماں ہوتا۔
لیکن ۵اگست ۲۰۱۹ کے بعد چین کا رویہ اُس وقت سے تبدیل ہوگیاجب سے جموں وکشمیر کو توڑ کر اندرونی خودمختاری سے محروم کردیا گیا ہے۔
دو سال پہلے تک لائین آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کے بیچ گولہ باری کا سامنا رہتا تھا لیکن ۲۰۱۹ کے بعد اس کی شدت چین اور بھارت کے بیچ سرحد یا ایل اے سی پرمحسوس کی جارہی ہے اور اس کی وجہ سے افواج کی مزید تعیناتی اور بھاری اسلحہ اور سازو سامان کو پہنچانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق لداخ کی جانب سرحد پر ایک لاکھ سے زاید فوجی تعینات کئے گئے ہیں اور دونوں ملکوں کا جدید ترین اسلحہ پہاڑی سرحد کی زینت بن گیا ہے۔
چین اور بھارت کے بیچ اس کشیدگی کے پس منظر میں جب عمران خان اور شی جنگپنگ کے سربراہ اجلاس کے بعد مشترکہ بیان میں چین کہتا ہے کہ “جموں و کشمیر کا تنازعہ تاریخی حثیت رکھتا ہے جس کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور باہمی سمجھوتوں کے تحت حل کرنا لازمی ہے”، تو یہ بھارتی سفارت کاری کے لئے ایک بڑا دھچکا تصور کیا جارہا ہے۔
بھارت یہ مان کے آگے بڑھ رہا ہے کہ اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے بعد جموں و کشمیر کے تنازعے کو اُس نے ہمیشہ لے لیے زمین بوس کردیا ہے اور اس کی حمایت میں بعض مغربی طاقتوں کی خاموشی اختیار کر نے کی پالیسی کار آمد ثابت ہورہی ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور دوسرے مغربی ملکوں نے بارہا جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں پر آواز تو اُٹھائی ہے لیکن کبھی کھل کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے کشمیر کو حل کرنے پر زور نہیں دیا اور نہ کشمیر میں روزانہ چار پانچ نوجوانوں کی دہشت گردی کی آڑ میں ہلاک کرنے کی بھارتی پالیسی پر تنقید کی۔
کشمیر کے روزنانے کے ایک ایڈیٹر ( سیکورٹی کے کارن نام نہیں ظاہر کیا ہے) کہتے ہیں کہ “ عالمی برادری کو ذمہ دار کیا ٹھہرانا جب پاکستان نے کشمیر مسلے میں کبھی خود کو بحیثیت فریق تصور ہی نہیں کیا۔ اگر خود کو اس مسلے کا فریق سمجھتا تو بھارت کے اس پروپیگنڈے کا توڑ کرتا کہ کشمیر میں “ اسلامی دہشت گردی” ہے اور بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی مسلح مزاحمت کا جواز پیش کرتا، امریکہ پر ۱۱ ستمبر کے حملوں کے بعد پاکستان اتنا ڈر گیا کہ کشمیر میں جاری مسلح جدوجہد سے دامن بچاتا رہا۔ بھارت نے اس دوران اپنے موقف کو سفارت کاری سے اتنا فعال بنادیا کہ جنرل مشرف کو دہلی بلاکر چار نکات فارمولہ کے سمیت واپس بھیج دیا حالانکہ یہ بھارت کے لئے سنہری موقعہ تھا”۔
چین کے حالیہ بیان پر بیشتر کشمیریوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے اور اس انتظار میں ہیں کہ چین کے بعد کیا روس بھی جموں و کشمیر کے بارے میں اب ایسا ہی موقف اختیار کرے گا جس نے کبھی کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت نہیں کی ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ کشمیر کا مسلۂ شاید حل ہوا ہوتا اگر روس نے عالمی اداروں میں بھارتی موقف کا کُھل کر ساتھ نہ دیا ہوتا۔
چند برسوں میں روس اور چین کے قریبی تعلقات اور طالبان کی کامیابی کے بعد روس اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں۔ قیاس لگایا جارہا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیاں مظبوط تعلقات کے پس منظر میں چین پاکستان سمیت دوسرے مسلمان ممالک روس کے مزید قریب آنے لگیں ہیں۔
مسلمانوں کی قربت حاصل کرنے میں روسی صدر کا مغربی ملکوں کی اسلام مخالف مہم اور توہین اسلام بیانات پر شدید ردعمل ظاہر کرنا کسی حد تک کارگر ثابت ہوگیا ہے۔ بیشتر مسلم ممالک چین اور روس کے سائے تلے نئے بلاک سے جڑنے لگے ہیں جو امریکہ کے لئے باعث پریشانی بن چکا ہے۔
چین کا خیال ہے کہ لداخ میں بھارتی افواج کی بھاری موجودگی اور دہلی کے براہ راست کنٹرول کے پیچھے کئی مقاصد کار فرما ہیں جن میں تبت میں علہیدگی پسندوں کی حمایت اور امداد دینا شامل ہے۔ بھارت گلگت بلتستان میں سیپیک کی راہداری اور شاہراہ قراقرم میں رکاوٹیں ڈالنے اور اس خطے کو مغربی ملکوں کے اشارے پر غیر مستحکم کرنے کی اپنی پالیسی پر گامزن ہے۔
دو سال سے لداخ میں چین اور بھارت کے بیچ کافی تناو پایا جاتاہے ڈیڑھ برس پہلے گلوان میں دونوں کی افواج کے درمیان شدید لڑائی ہوئی جس میں دونوں ملکوں کو ۱۹۶۲ کے بعد پہلی بار جانی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ تب سے چین نے نہ صرف بھارتی افواج کو لداخ میں مصروف رکھا ہے بلکہ اروناچل میں بھی کچھ علاقوں پر قبضہ کرکے بستیاں قایم کی ہیں۔
چین اور پاکستان کے بیچ بڑھتے دفاعی اور معاشی تعلقات بھارت کے لئے باعث پریشانی ضرور ہے جو اپنے بیشتر بیانات میں اس کا اظہار بھی کر چکا ہے۔ بھارت کے فوجی سربراہ نے چند روز پہلے ہی یہ بیان دیا ہے کہ لداخ میں غیر معمولی صورت حال ہے اور اُن کے ملک کو اس وقت دو طرفہ دشمن کا سامنا ہے۔
بھارتی پارلیمان میں بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن رہنما راہول گاندھی نے بی جے پی کی حکومت کی شدید تنقید کرتے ہوئے اس کا برملا اظہار کیا کہ “موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے چین اور پاکستان دفاعی طور پر انتہائی قریب ہوچکے ہیں جس کی وجہ آئین ہند کا آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ اے کو ہٹانا ہے اور جس نے سوئے ہوئے دشمن چین کو جگایاہے”۔
اندرونی طور پر بھارت کے سیاسی اور پالیسی ساز اداروں میں اس بات کا خوف ہے کہ گلوان وادی اور ڈوکلام میں فوجی ٹکراو کے دوران چین کا رویہ انتہائی سخت ہوگیا ہے، وہ لداخ میں ہزاروں رقبے کو اپنے قبضے میں کرکے مزید ہیش قدمی پر گامزن ہے۔
جب سے عمران خان چین کے ساتھ اربوں ڈالر کے برابر دفاعی اور معاشی معاہدے کرکے واپس لوٹے ہیں تو بھارتی میڈیا میں اسے خاص موضوع بنا کر حکومت کو دو محاذوں پر اپنی افواج تیار رکھنے پر زور دیا جانے لگا ہے۔
عالمی تھنک ٹینکس کی رپورٹوں میں لکھا جارہاہے کہ چین اور پاکستان کے درمیاں قریبی تعلقات پر امریکہ خوش نہیں ہے اور وہ چین مخالف اپنی پالیسی کی عمل آوری کے لیے پاکستان کے ساتھ دوبارہ اپنے تعلقات استوار کرنے پر سوچ رہا ہے۔
لیکن ان رپورٹوں میں سب سے بڑا سوال یہ اُٹھایا جارہا ہے کہ اگر کشمیر کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے لئے بھارت پاکستان کے بیچ جنگ ہوتی ہے تو کیا چین میدان جنگ میں اُتر کر پاکستان کی حمایت کرے گا؟
بعض مبصر اس بات پر متفق ہیں کہ لداخ سے منسلک گلگت بلتستان میں اگر بھارت کی جانب سے کوئی چپقلش ہوتی ہے تو چین ضرور مداخلت کرے گا جہاں اُس نے موٹی سرمایہ کاری کی ہے جس کی وہ کسی بھی صورت میں حفاظت کرے گا۔
البتہ چین کے سیاسی امور کے ماہر راوجن شیانگ کہتے ہیں کہ “گلوان یا اروناچل میں چینی پیش قدمی کے باوجود چین کسی طرح سے جنگ کے حق میں نہیں ہے۔ وہ معیشت کے اپنے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں سنجیدہ ہے۔ پاکستان نے جو اپنی نئی قومی پالیسی ترتیب دی ہے اور جس کا محور معیشت رکھا گیا ہے وہ بھی چین کے کہنے پر تیار ہوئی ہے۔ چین اس وقت پاکستان میں اقتصادی منصوبوں کی عمل آوری چاہتا ہے لیکن اگر بھارت نے خطے میں کسی بھی کشیدگی کو ہوا دی یا جموں و کشمیر کی ۴اگست ۲۰۱۹ والی حثیت واپس نہیں کی تو چین کے پاس بھی مداخلت کرنے کے سوا شاید اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ کشمیری قوم نے بھی اب چین سے ہی امیدیں باندھ رکھیں ہیں کہ وہ اُن کی جدوجہد کی حمایت کرے اور اُن کا وقار، شناخت اور آئین بحال کروائے جو کشیدگی کو ختم کرنے کی پہلی شرط رکھی گئی ہے”۔
چین کی پالیسی سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ وہ جنرل مشرف کے چار نکات فارمولہ کی حمایت کرتا ہے، وہ بغیر کسی بڑی تبدیلی کے سرحد پار کشمریوں کے بیچ راہداری کھولنے اور اُنہیں ایک دوسرے سے تجارتی یا سیاسی روابط قائم کرنے کی آزادی کا خواہاں ہے بھلے ہی کشمیر بھارت پاکستان کے درمیان منقسم اور اُن کے زیر کنٹرول رہے۔

Read Previous

واٹس ایپ: ڈیسک ٹاپ پرایپ کرنیوالوں کیلئے ‘وائس میسجز’ فیچر میں تبدیلی

Read Next

ترک فلم آئلا کو پاکستان میں ریلیز کرنے کا اعلان

Leave a Reply