
( تحریرڈاکٹر تصوراسلم بھٹہ )آج تین ستمبر ہے اور آج کے دن عین جالوت فلسطین میں اسلامی تاریخ کا بہت بڑا تاریخ ساز معرکہ ہوا جس نے تاریخ عالم کا رخ بدل دیا ۔ اس جنگ کے حوالے سے یہ مضمون پیش خدمت ہے جو میری آنے والی کتاب “ اہل وفا کی بستی “ کا حصہ ہے “ اسرائیل کے دارلحکومت تل ابیب سے 150 کلو میٹر کے فاصلے پر جنین شہر سے گیارہ کلومیڑ دور ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو زرعین کہلاتا ہے یہ علاقہ ویسٹ بنک میں واقع ہے اور تنظیم آزادی فلسطین کے زیر انتظام ہے اس گاؤں کے باہر وادئ جزریل میں کوہ گیلوبا (Mountain of Gilboa ) کی ایک غار سے ایک چشمہ نکلتا ہے جسے عین جالوت “the Spring of Goliath”, کہتے ہیں . عبرانی (ہیبرو Hebrew) میں اس کا نام معين هارود Ma’ayan Harod ہے ۔ یہ چشمہ ہزاروں سال سے رواں دواں ہے یہودی اس چشمے کے پانی اور اس مقام کو بہت متبرک اور مقدس سمجھتے ہیں۔ ياقوت الحموي الرومي اور بہاؤالدین شداد کی تحریروں کے مطابق یہاں پر کبھی ایک فلسطینی گاؤں آباد تھا جس کا نام ہی عین جالوت تھا۔
یہ گاؤں ۱۹۲۰ء تک قائم رہا۔ جب یہودی سرمایہ کار جوشوا ہنیکن Yehoshua Hankin نے یہودی آباد کاروں کے لئے یہ سارا علاقہ خرید لیا۔ چونکہ یہ علاقہ یہودیوں کے لئے تاریخی اور مذہبی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس لئے یہودیوں نے فلسطنیوں کو اس گاؤں سے نکال دیا۔ اس لئے آج کل اسرائیلی گورنمنٹ نے یہاں ایک بہت اعلی درجہ کا تفریحی پارک بنا رکھا ہے اس پارک کا نام معین ہیروڈ نیشنل پارک (Ma’ayan Harod National Park ) ہے اسرائیل بھر سے لوگ سیر و تفریح کرنے اور اس مقام کی زیارت کے لئے یہاں آتے ہیں تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح (۱۰۲۹ قبل مسیح ) میں یہاں حق و باطل کا ایک بہت بڑا تاریخ سازمعرکہ ہوا تھا جب ایک چرواہے کے کمزور چھوٹے سے سولہ سالہ لڑکے داؤد نے اپنے سے دس گنا بڑے اور طاقتور دیو ہیکل اور دیو قامت جالوت کو موت کی گھاٹ اتار کر بنی اسرائیل کو آزادی دلا کر یہودیوں کی حکومت کی داغ بیل ڈالی تھیحضرت داؤد علیہ اسلام اور جالوت کے درمیان اس تاریخی معرکے نے دنیا کی تاریخ بدل دی بنی اسرائیل کو جالوت کی قید سے رہائی ملی اور فلسطین کی سر زمین پر یہودیوں کی حکومت قائم ہوئییہ واقعہ سورۂ البقرہ میں بڑی تفصیل سے بیان ہواہے کہ جالوت ایک بہت طاقتور بہت بڑا اور دیو ہیکل انسان تھا جس کا قد عام انسانوں سے دس گنا بڑا تھا اور وہ ایک بہت عظیم الشان اور بڑی فوج کا مالک تھااس کا تعلق فلسطی قوم سے تھا جو کنعان کی قدیم قوم تھی۔ اس نے یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد یہودیوں کو غلام بنا لیا تھا –
حضرت سموئیل علیہ السلام جو یہودیوں کے پیغمبر تھے اس وقت بہت بوڑھے ہوچکے تھے یہودیوں نے حضرت سموئیل سے درخواست کی کہ وہ کسی نوجوان کو یہودیوں کا سالار مقرر کریں تاکہ وہ یہودیوں کو جالوت کے چنگل سے رہائی دلا سکےحضرت سموئیل علیہ السلام نے اللّٰہ کے حکم کے مطابق طالوت کو یہودیوں کے لشکر کا سالار مقرر کیا یہودیوں کی اکثریت نے طالوت کی قیادت قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کا باپ کِش ایک غریب اور معمولی مزدور تھا اور گمنام خاندان سے تعلق رکھتا تھا لیکن اللّٰہ نے جب طالوت کے ذریعے انہیں ان کا گمشدہ تابوت سکینہ واپس دلوا دیا تو انہوں نے بادل نخواستہ طالوت کو سردار مان لیا اور جب طالوت اپنا لشکر لے کر عین جالوت کے مقام پر پہنچا جہاں اس کا سامنا جالوت اور اس کی فوج سے ہوا تو صیح بخاری کے مطابق اس کے ساتھ موجود یہودی جالوت اور اس کے اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر جنگ سے ہی انکاری ہوگئےاور میدان چھوڑ گئے یہاں تک کہ طالوت کے ساتھ صرف تین سو تیرہ لوگ رہ گئے تھے عین جالوت کی یہ جنگ یہودیوں کی جنگ بدر تھی جالوت نے لوہے کی زرہ بکتر پہن رکھی تھی صرف اس کی ایک آنکھ خود سے باہر تھی جنگ شروع ہونے سے پہلے حضرت داؤد نے اپنی غلیل کے پتھر سے ایسا نشانہ مارا کہ جو سیدھا جالوت کی آنکھ میں جا کر لگا وہ زمین پر گر پڑا اور حضرت داؤد نے آگے بڑھ کر اس کاسر قلم کر دیا جالوت کی موت سے اس کی فوج کے حوصلے جواب دے گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور یوں اللّٰہ نے اتنی کم تعداد میں ہونے کے باوجود نہ صرف یہودیوں کو فتح نصیب کی بلکہ انہیں تابوت سکینہ بھی واپس مل گیا اور آزادی بھی مل گئی طالوت یہودیوں کا بادشاہ بن گیا اس نے یروشلم فتح کر کے کنعان (فلسطین کا پرانا نام ) میں یہودیوں کی حکومت قائم کر دی طالوت کے مرنے کے بعد حضرت داؤد حکمران بنے اور انہوں نے یہودیوں کی دونوں ریاستوں یہودہ اور اسرائیل کو یکجا کر کے ایک متحدہ عظیم الشان سلطنت قائم کی جس کا دارالسطنت یروشلم تھا اور یوں یہودیوں کے اس سنہری دور کا آغاز ہوا جو سو سال تک قائم رہا۔ یہودیوں کی مقدس کتاب سموئیل Book of Samuel میں یہ واقعہ اتنی تفصیل سے لکھا ہے کہ جالوت Goliath اور حضرت داؤد کاحلیہ تک بیان کیا گیا ہے ۔ اس کتاب کے مطابق جالوت کا قد نو فٹ اور نو انچ تھا ۔ جبکہ حضرت داؤد کا قد پانچ فٹ آٹھ انچ کے قریب بیان کیا گیا ہے ۔ یہیں سے انگریزی میں David and Goliathکی ضرب المثل مشہور ہوئی جب دو مخالفین کا آپس میں طاقت ، جسامت اور وسائل کے اعتبار سے کوئی موازنہ نہ کیا جاسکتاہو۔ اور کمزور مقابلہ جیت جائے تو اس موقعہ پر David and Goliath کی مثال دی جاتی ہے ۔ٹھیک دو ہزار سال بعد 3 ستمبر 1260ء ( 25 رمضان 658 ہجری ) کو یہ علاقہ ایک بار پھر ایک اور تاریخ ساز جنگ کا میدان بنا جو دنیا کی دس بڑی تاریخ ساز جنگوں میں شمار ہوتی ہے اس جنگ نے ایک بار پھر دنیا کی تاریخ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔
ڈیوڈ اور گولئیتھ David and Goliath ایک بار پھر آمنے سامنے تھے ۔جس طرح دیو قامت جالوت ایک چھوٹے اور کمزور سے لڑکے کے ہاتھوں موت کی گھاٹ اترا تھا اور اس کی عظیم الشان فوج طالوت کے تین سو تیرہ فوجیوں کے ہاتھوں نیست ونابود ہوئی اسی طرح کمزور اور ناتواں مسلمانوں نے وحشی دیو ہیکل منگولوں کو پہلی مرتبہ اتنی مکمل شکست دی کہ وہ منگول جنہں ناقابل شکست سمجھا جاتا تھا جو بغداد دمشق اور بصرہ کو تباہ و برباد کرنے کے بعد خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کو نیست ونابود کرنے کی ناپاک نیت لئے آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے تھے ان کے قدم عین جالوت کے میدان میں نہ صرف ہمیشہ کے لئے رک گئے بلکہ انہیں شام عراق اور فلسطین کے علاقے بھی خالی کرنا پڑےمنگولوں کی طاقت و عظمت جبروت و حشمت ، وحشت و بربریت اور ان کے ناقابل شکست ہونے کی ساری داستانیں اور مکہ و مدینہ کو تباہ و برباد کرنے کے سارے منصوبے مصر کے ترک غلام زادوں کے ہاتھوں خاک میں مل گئے ہلاکو خان نے جس آسانی سے بغداد اور دمشق کو زیر کیا اسے لگا کہ مکہ اور مدینہ اس سے اب صرف چند دنوں کی مسافت پر رہ گیۓ ہیں ہلاکو خان مکمل طور پر اپنی عیسائی بیوی دقوز خاتون ، عیسائی ماں سورغاگاتونی بکی اور عیسائی سپہ سالار کتبوبغا کے زیر اثر تھا جن کی خواہش تھی کہ ہلاکو خان جلدازجلد سر زمین عرب پر حملہ کر کے مکہ اور مدینہ کو بھی بغداد کی طرح نیست ونابود کر دے تاکہ مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا جو سلسلہ چینگیز خان نے خوارزم میں کھوپڑیوں کے میُنار تعمیر کرکے شروع کیا تھا وہ حجاز کی تباہی کے بعد انجام کو پہنچے اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی حیثیت ایک کٹی پتنگ کی سی تھی. مسلمان نفسیاتی اور فوجی اعتبار سے کسی مقابلے کے قابل نظر نہ آتے تھے – “منگول ناقابل شکست ہیں اور مسلمانوں کے لئے اللّٰہ کا عذاب ہیں “ یہ نظریہ اتنا زور پکڑ چکا تھا کہ مسلمان منگولوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کومشیت ایزدی کے خلاف سمجھتے تھے اس وقت مصر میں ترک غلام زادوں کی حکومت تھی جو مملوک سلطنت کہلاتی تھی یہ وہی وقت تھا جب ہندوستان میں بھی خاندان غلاماں کی حکمرانی تھی اور وہ بھی ترک النسل تھے-مصر میں قائم یہ مملوک سلطنت ان کے رستے کی آخری چٹان تھی –
ایک مدھم سی امید کی لو تھی“Mangol Christian Axis”منگول کرسچین اتحاد کا اگلاہدف بھی یہی آخری مسلمریاست تھی. کیونکہ اسے زیر کئے بغیر ان کی مکہ و مدینہ کی طرف پیش قدمی ممکن نہ تھی کیونکہ مصر ہی وہ آخری ریاست تھی جس کی شکست دنیا بھر کے مسلمانوں کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتی. مملوک بھی اس خوفناک خطرے کا پورا ادراک رکھتے تھے. وہ جانتے تھے آج نہیں تو کل یہ معرکہ ہو کر رہے گااور یہ معرکہ ہواتاریخ تھی تین ستمبر 1260 اور میدان تھا عین جالوتہلاکو خان مکہ اور مدینہ پر چڑھائی کرنے کی مکمل تیاری کر چکا تھا ۔ فوجیں تیار تھیں حکمت عملی بن چکی تھی ۔ اس وقت مصر میں تیسرے مملوک سلطان سیف الدین قطز کی حکومت تھی عطاء ملک جوینی ایک فارسی مورخ تھا جس نے تاریخ جہان کشائی ( عالمی فتح کی تاریخ ) کے عنوان سے منگول سلطنت کی چشم دید تاریخ لکھی ہے ۔ وہ 1258 ء میں بغداد کے محاصرےکے دوران ہلاکو خان کے ہمراہ تھا اور سقوط بغداد کے بعد ہلاکو خان نے اسے بغداد ، لوئر میسوپوٹیمیا اور خوزستان کا گورنر مقرر کیا تھا۔ 1282ء کے آس پاس ، جووینی منگول قورلتائی یا اسمبلی میں شریک ہوا ، جو وان جھیل کے شمال مشرق میں منعقد ہوئی تھی ۔ اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہلاکو خان نے اپنے ایلچی قاہرہ روانہ کئے اور سلطان قطز کو حکم دیا کہ وہ ہتھیار ڈال کر منگولوں کی حکمرانی قبول کر لے ۔ ورنہ قاہرہ کا حشر بھی بغداد جیسا ہوگا لیکن سلطان قطز نے اپنے سپہ سالا بیبرس کے مشورے پر ان ایلچیوں کے سر قلم کر کے قاہرہ شہر کے باب زويلة پر لٹکا دئیے ۔ ہلاکو خان سخت غضب ناک ہوا اور اس نے مصر پر فوج کشی کا حکم دے دیا لیکن اسی دوران اگست 1259ء کو منگول بادشاہ قاآن اعظم منگو خان کا انتقال ہو گیا اور ہلاکو خان نئے شہنشاہ کے انتخاب کے سلسلے میں ہونے والی قرولتائی میں شریک ہونے کے لئے بلیق چاق منگولیا روانہ ہو گیا لیکن جاتے سمے اپنے نائب کتبوغا کو مصر پر چڑھائی کی ذمہ داری دے گیا ۔ منگول مسلم سیاسی وجود کو ختم کرنے سر پر آن پہنچ چکے تھے. منگول طوفان جو بڑی بڑی سلطنتوں کوخس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے تھے آج ان کے مد مقابل وہ غلام زادے تھے جن کی قیادت رکن الدین بیبرس کر رہا تھا. وہی بیبرس جو کبھی خود بھی ستر دینار کے عوض فروخت ہوا تھا. کم وسائل اور عددی کمتری کے باوجود بیبرس کو یہ معرکہ ہر حال میں جیتنا تھا. مسلمانوں کے سیاسی وجود کو قائم رکھنے کے لیے آخری سپاہی ، آخری تیر اور آخری سانس تک یہ لڑائی لڑنی تھی ۔
ہلاکو خان کی منگولیا روانگی کا سن کر سلطان قطز اور بیبرس نے یہ جنگ دفاعی انداز میں مصر کے اندر لڑنے کی بجائے فلسطین میں لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ جہاں کتبوغا اپنی فوج کے ساتھ موجود تھا ۔ بیبرس نے اسے عین جالوت کے میدان میں جالیا ۔ طبل جنگ بجا. بد مست طاقت اور جنون کے درمیان گھمسان کا رن پڑا. طاقتور منگول جب اپنی تلوار چلاتے تھے تو ان کا وار روکنا مشکل ترین کام ہوتا تھا لیکن آج جب مملوک وار روکتے تو تلواریں ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتیں. اور پھر جب جوابی وار کرتے تو منگولوں کے لیے روکنا مشکل ہو جاتا. منگولوں نے مملوکوں کو دہشت زدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ وہ لشکر نہیں تھا جو مرعوب ہو جاتا. منگولوں نے کبھی ایسے جنونی لشکر کا سامنا نہیں کیا تھا. انہیں پہلی بار میدان جنگ میں مسلم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ بیبرس انہیں گھیر کر جزریل کی وادی میں لے آیا جہاں دونوں طرف پہاڑ پر چھپے مسلمان سپاہی ان کا انتظار کر رہے تھے وہ پسپا ہوئے تو درے کے دونوں جانب بھی مسلم سپاہیوں کا راج تھا تین طرف سے گھرنے کے بعد جب انہوں نے چوتھی جانب سے محاصرہ توڑنے کی کوشش کی تو اس طرف سلطان قطز اپنے دستوں کے ساتھ موجود تھا ۔منگول چاروں طرف سے گھر گئے ۔ اوع پھر وہ انہونی ہوئی جس نے تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا ۔ منگول سپہ سالار کتبوغا اور اس کے بیٹے کی موت کے بعد مملوکوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا جزریل کی وادی اور عین جالوت کا میدان منگولوں اور ان کے گھوڑوں کی لاشوں سے اٹ گیا۔ منگول میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے. پھر چرخ نیلی فام نے وہ ناقابل یقین اور ناقابل فراموش منظر بھی دیکھا کہ وہ منگول جن کی دہشت اور خوف سے لوگ اپنے گھر کے دروازے بند کر لیتے تھے جن پر ہتھیار اٹھانا مشیت ایزدی کی خلاف ورزی سمجھا جاتا تھا ایک منگول سپاہی پوری پوری بستی کو باندھ کر لے جاتا تھا وہی منگول جب عین جالوت کے میدان جنگ سے بھاگے تو پھر انہیں کہیں جائے پناہ نہ ملی بھگوڑے منگولوں کو دیہاتوں اور بستیوں میں نہتے دیہاتیوں اور عام نہتے شہریوں نے لاٹھیوں اور پتھروں اور ڈنڈوں سے قتل کر دیا ۔
قطب الدين حسین اليونينی شام کے مشہور مورخ اور تاریخ دان تھے ۔ جو اس جنگ کے چشم دید گواہ تھے انہوں نے اس دور کے واقعات 1281ء کو اپنی کتاب “ذيل مرآة الزمان “ میں بڑی تفصیل سے بیان کئے ہیں ۔ اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کارل ایف پیڑی Carl F Petry اور لی گئیو Li Guo نے Early Mamluk Syrian Historiography کے نام سے کیاہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ“منگول ناقابل شکست ہیں” یہ وہم عین جالوت کے میدان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا”غلاموں” نے رکن الدین بیبرس کی قیادت میں بہترجنگی حکمت عملی اور جرآت و بہادری کی بدولت مسلمانوں کے بقا کی یہ جنگ جیت لی اور رہتی دنیا تک یہ اعزاز اپنے نام کر لیا اس معرکے کے بعد منگول پیش قدمی نہ صرف رک گئی بلکہ آنے والے چند ہی سالوں میں بیبرس نے منگولوں سے شام اور عراق کے مفتوح علاقے بھی واپس چھین لئے اور شام اور عراق سے ان کے اقتدار کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا ۔ “اس جنگ کو دنیا کی ان چند بڑی جنگوں میں شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے دنیا کی تاریخ کا نقشہ بدل دیا تھا ۔جے جے سینڈرز J J Saunders نے اپنی کتاب The History of Mongol Conquests میں لکھاہے کہ “This was a major turning point in world history that saw the Mamluks inflict the first of two defeats on the Mongols that ultimately halted their invasion of the Levant and Egypt.”مشہور عرب ملڑی مورخ احمد یوسف الحسن نے اپنی کتاب History of Science and Technology in Islam میں بیان کیا ہے کہ “اس جنگ کے دوران دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے بارود اور ہینڈ گن کا استعمال کیا بیبرس نے مصر آنے والے چینی تاجروں سے بارود بنانے اور اسے چلانے کا یہ ہنر سیکھا تھا اور اسے بڑی کامیابی سے منگولوں اور ان کے گھوڑوں کو ڈرانے کے کے لئے استعمال کیا ۔” یہ دور تیسرے مملوک سلطان سيف الدين قطز کا تھا جو خود بھی میدان جنگ میں موجود تھا لیکن اس جنگ میں مسلمان فوج کی قیادت اس کے سپہ سالار بیبرس کے ہاتھوں میں تھی اور وہی شروع سے آخر تک اس ساری جنگ کی حکمت عملی کا ذمہ دار تھا ۔ آج کا مسلمُ نوجوان رکن الدین بیبرس کے بارے میں بہت کم جانتا ہے حالانکہ بیبرس مسلم اُمّہ کا وہ محسن ہے جس نے نہ صرف منگولوں کے ناقابل شکست ہونے کا زعم خاک میں ملایا بلکہ اس نے ساتویں اور آٹھویں صلیبی جنگوں میں فرانس کے بادشاہ کنگ لوئی نہم کو ایسی عبرتناک شکست دی کہ پھر کبھی صلیبیوں کو فلسطین کی طرف منہ کرنے کی جرآت نہ ہوئی اور یوں صلیبی جنگوں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا صلاح الدین ایوبی اپنی موت کی وجہ سے جو کام ادھورا چھوڑ گیا تھا اسے بیبرس نے پایہ تکمیل تک پہنچایااس نے فلسطین میں بحیرہ روم کے ساحل پر قائم ان چار صلیبی ریاستوں کا مکمل صفایا کر دیا جو مشرق وسطی میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کے لئے ناسور کی حثیت اختیار کر چکی تھیں اسے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہاس نے خلافت اسلامیہ کا دوبارہ اجراء کیامشہور مسلم تاریخ نگار ابن شداد نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ “ بیبرس ایک خواب بچپن سے بار بار دیکھتا چلا آ رہا تھا کہ وہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے باہر ایک درخت کے سائے میں بے کار بیٹھا ہے اور کسی کام تلاش میں ہے ایک نورانی چہرے والے تباہ حال بزرگ اس کے پاس آتے ہیں اور اسے اپنی پھٹی ہوئی چادر دکھا کر اس چادر کو رفو کرنے کا کہتے ہیں –
بیبرس ان کی اس پھٹی چادر کی مرمت کر دیتا ہے جس پر وہ اسے دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہو جاتے ہیں” یہ خواب بیبرس نے اتنی بار دیکھا کہ اسے ازبر ہوگیا ایک بار وہ قاہرہ کی جامع مسجد عمرو بن العاص کے امام شیخ عزالدین سے ملا جو قاہرہ کے قاضی بھی تھے اور ان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ “ وہ بزرگ جو تمہیں خواب میں نظر آتے ہیں رسول اکرم صلعم کے چچا حضرت عباس رضی تعالی عنہ ہیں اور اس چادر سے مراد خلافت الہیہ ہے خواب کی تعبیر یہ ہے ایک دن جب خلافت عباسیہ پر مشکل وقت آئے گا تو تم خلافت اسلامیہ کی حفاظت کرو گے کیونکہ تم پر خلافت کیحفاظت کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے “اور یہی ہوا ہلاکو خان نے۱۲۵۸ء میں بغداد تباہ کرنے کے بعد خلیفہ المعتصم باللّہ کے خاندان کے ایک ایک فرد کو چن چن کر موت کی گھاٹ اتار دیا لیکن عین جالوت کی جنگ میں فیصلہ کن فتح کے بعد جب بیبرس چوتھا مملوک حکمران بنا تو ایک دن شیخ عزالدین نے اسے اس کا خواب یاد دلایابیبرس نے عباسی خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد کی تلاش شروع کی جس پر پتہ چلا کہ خلیفہ المعتصم باللّہ کا ایک ماموں منگولوں کے حملے میں زندہ بچ گیا تھابیبرس نے اسے قاہرہ لاکر خلافت کا وہ سلسلہ جو ۱۲۵۸ء میں موقوف ہوگیا تھا اسے ۱۲۶۱ء میں دوبارہ شروع کیااور یوں اس کے اس خواب کو تعبیر ملی جو وہ بچپن سے دیکھتا چلا آیا تھا – اور اس طرح عباسی خلافت کا پایہ تخت مصر منتقل ہوگیا ۔ عباسی خلافت کا یہ دوسرا دور شروع ہوا جو ۱۵۱۷ء تک جاری رہا جب نویں عثمانی سلطان سلیم اول نے جنگ ریدانیہ میں آخری مملوک سلطان الاشرف تومان کو شکست دے کر مصر فتح کیا اور قاہرہ میں موجود عباسی خلیفہ المتوکل علی اللؔہ الثالث کو اپنے ساتھ قسطنطنیہ لے گیا جہاں عباسی خلیفہ نے خلافت سلیم اول کو منتقل کر دی ۔ یوں تقریباً ساڑھے سات سو سال کے بعد خلافت عباسی خاندان سے عثمانیوں میں منتقل ہو گئی ۔تاریخ کے یہ گزرے اوراق میری سوچوں میں پلٹتے رہے اور میں جانے کتنی دیر سوچوں کی ان بھول بھلیوں میں کھویا رہا ۔
حمزہ اور بلال کب ابو خالد کے ساتھ پہاڑ سے اتر کر ٹیکسی کی طرف چلے گئے مجھے پتہ ہی نہ چلا ۔ میں کوہ کیلو با کے دامن میں واقع جیڈئیون کی غار Gideon ‘s Cave کے باہر کھڑا تھاغار کے اندر سے پانی کی ایک چھوٹی سی ندی بہہ کر باہر آ رہی تھی غار کے دھانے پر لوہے کی جالی لگی تھی تاکہ کوئی اندر نہ جاسکےجانے کتنے ہزاروں سال سے یہ چشمہ یونہی رواں دواں ہےیہ ندی شور مچاتی پتھروں سے ٹکراتی اور جھاگ اڑاتی نیچے وادی میں جا گرتی ہے جہاں وہ ایک چھوٹی سی جھیل کی صورت اختیار کر لیتی ہے میں اس ندی کے کنارے پڑے ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور اپنے دونوں ہاتھ ٹھنڈے پانی میں ڈبو دئیے ایک فرحت بخش سکون آمیز سی لہر میری رگ وپے میں اتر گئی میں نے چلو بھر پانی منہ میں ڈالا تو منہ میں جیسے شکر سی گھل گئی یوں محسوس ہوا جیسے یہ ٹھنڈا آب شیریں نہیں آب حیات ہوپھر میں نے پانی کے چھینٹے چہرے پر مارے تو ساری تھکاوٹ ایکدم دور ہوگئی جسم میں تازگی اور توانائی سی بھر گئی میں نے وضو کرنا شروع کردیا ایسا خوبصورت اور شاندار وضو میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں کیا تھا – وضو ختم کرنے کے بعد بھی میں اپنے پاؤں پانی میں ڈبوئے وہیں بیٹھا رہاشام ڈھلنے لگی تھی سورج کی تمازت اب ٹھنڈک میں بدل رہی تھی ہلکی ہلکی سی ہوا چل رہی تھی عین جالوت کے پانی کے بہاؤ سے فضا میں ایک عجیب سی سحر انگیز نغمگی پھیل رہی تھی – جیسے ساز فطرت نے کوئی بہت ہی خوبصورت دلکش نغمہ چھیڑ دیا ہو مجھے لگا مجھ پر کسی نے جادو کر دیا ہے میں کسی طلسم ہوش ربا میں موجود ہوں یہ پہاڑ ، یہ غار، یہ ندی ، یہ جنگل کسی جادونگری کا کوئی حصہ ہیں ابھی دیو ہیکل دیو قامت جالوت اس غار سے باہر نکلے گا اور اس دلکش ماحول کو اپنی بدصورتی سے برباد کر دیگا ایک بار پھر وحشت و بربریت کی نئی داستانیں رقم کرے گا لیکن دور حاضر کا جالوت تو جانے کب کا پیغمبروں کی اس نگری کو داغدارکر چکاہے کئی دہائیوں سے اس عفریت نے یہاں کے باسیوں کی آزادی خود مختاری اور حقوق سلب کر کے ان کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں آج ہزاروں سال بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کے وطن میں ایک بار پھر حق و باطل کا معرکہ برپا ہے اہل فلسطین کو تین ہزار سال کے بعد ایک بار پھر اسی امتحان کا سامنا ہے جس سے کبھی اہل کنعان گزرے تھے ۔ وہ چھوٹا سا فلسطینی بچہ میری نظروں کے سامنے آ گیا جو ننگے پاؤں پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک ہاتھ میں پتھر اور دوسرے ہاتھ میں غلیل اٹھائے اپنے سے دس گنا بڑے سر سے پاؤں تک حفاظتی وردی میں چھپے اسرائیلی سپاہی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے ۔ آج غلیل کا مقابلہ ایک بار پھر بندوق سے ہے اسی طرح جیسے کبھی تلوار اور گرز کا مقابلہ غلیل سے ہوا تھاتاریخ نےڈیوڈ اور گولئیتھ David and Goliath کو ایک بار پھر آمنے سامنے لا کھڑاکیا ہے ۔
تاریخ اور دن ضرور بدلا ہے لیکن نہ کردار بدلے ہیں اور نہ مقام ظلم وجور کی داستان بھی وہی ہے اور اس ظلم وستم سے جنم لینے والی سیاہ رات کو آزادی کی صبح میں بدلنے کا حوصلہ عزم اور جرآت بھی وہی ہے اور یہی اس بستی کی ریت ہےآگ ہے ، اولاد ابراہیم ہے ، نمرود ہےکیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے مجھے یاسر عرفات کے وہ الفاظ یاد آئے جو اس نے عین جالوت کی جنگ کے بارے میں کہے تھے ۔ “ This will not be the first time that our people has vanquished its enemies. The Mongols came and swept away the Abbasid caliphate, then they came to Ain Jalut in our land – in the same region where we are today fighting the Zionists – and they were defeated at Ain Jalut.” میں اپنی انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک ٹیکسی ڈرائیور ابو خالد کی آواز نے مجھے چونکا دیا وہ مجھے تلاش کرتا ہوا اوپر پہاڑ پر چلا آیا تھا وہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے یہاں سے نکل جانا چائیے ورنہ رات کے وقت جگہ جگہ بنی چیک پوسٹوں پر تعنیات یہودی سپاہی ہمارے لئے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیںمیں نے سر اٹھا کر سورج کی طرف دیکھا جو سارے دن کی مسافت طے کرنے کے بعد افق پر لالی بکھیرتا ہوا کوہ گیلوبا کی پشت میں چھپنے کے لئے تیار بیٹھا تھا افق پر پھیلی شفق کی یہ لالی اب دھیرے دھیرے سیاہی میں بدل رہی تھی میرا دل اس جگہ سے ہٹنے کو نہیں چاہتا تھا لیکن بادل نخواستہ آہستہ آہستہ اٹھ کھڑا ہوا اور بے دلی سے بھاری قدم اٹھاتا اس کے پیچھے ہولیاجہاں بلال اور حمزہ پہلے ہی ٹیکسی کے پاس کھڑے ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔رات کا اندھیرا گہرا ہونے سے پہلے پہلے ہم یروشلم واپس لوٹ آئے ۔ “ یہ مضمون فلسطین کے سفر کی یاد داشتوں پر مشتمل میری کتاب “ اہل وفا کی بستی “ میں شامل ہے ۔
