تر ک حکام نے استنبول دھماکے میں ملوث مرکزی ملزمہ سمیت درجنوں مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ مرکزی ملزمہ کی شناخت أحلام البشیر سے ہوئی ہے اور اس کا تعلق شام ہے ۔ ملزمہ نے تفتیش کے دوران پولیس کو بتایا کہ وہ 4 ماہ قبل غیر قانونی طور ایک اور مشتبہ شخص کے ساتھ استنبول آئی تھی، جس کی شناخت صرف تا حال ‘B.’ سے ہوئی ہے۔ وہ ورکنگ کلاس ایسنلر ڈسٹرکٹ میں دو دیگر شامی شہریوں کے ساتھ مقیم تھے۔
ملزمہ چار ماہ تک ایک ٹیکسٹائل ورک شاپ میں بطور ملازمہ کام کررہی تھی ۔ ملزمہ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس نے شمالی شام میں عین العرب میں PKK کی خصوصی انٹیلی جنس ایجنٹ کے طور تربیت حاصل کی تھی۔ استنبول دھماکے کی ہدایت بھی وہیں سے ملی تھی ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس منصوبہ بندی کی رازداری کو برقرار رکھنے کے لیے وہ اپنے ساتھیوں سے کسی قسم کے ٹیلیفونک رابطے سے گریز کرتی تھی۔
دھماکے کے روز احلام البشیر اپنے ساتھی کے ساتھ استقلال ایونیو آئی تھی۔ ملزمہ 40 منٹ تک ایک بینچ پر بیٹھی رہی ۔ اس کے اٹھنے کے چند منٹ کے بعد استقلال اسٹریٹ دھماکے سے لرز اٹھا جبکہ دھماکے کے مقام پر پہنچنے کے بعد اس کا ساتھی جائے وقوعہ سے فرار ہو گیا تھا۔
پولیس حکام کے مطابق اس کے ساتھی کو پکڑنے کے لیے جگہ جگہ چھاپے مارے جارہے ہیں ۔جلد وہ بھی پولیس کی گرفت میں ہو گا ۔انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ دہشت گرد تنظیم پی کے کے کا ارادہ احلام البشیر کو یونان اسمگل کرنے اور وہاں پھانسی دینے کا تھا ۔پولیس نے احلام البشیر سمیت 45 سے زائد افراد کو حراست میں لے رکھا ہے اور ان سے ہر طرح کی تفتیس جاری ہے ۔
واضح رہے کہ ترک حکام کے مطابق پی کے کے علیحدگی پسند دہشتگرد تنظیم ہے جو ترکیہ کی سلامتی کے خلاف 35 برس سے دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے ۔اور خواتین اور بچوں سمیت 40 ہزار سے زائد افراد کی موت کی ذمہ دار ہے۔
