turky-urdu-logo

پاک افغان کشیدگی، کیا افغانستان متبادل ‘ٹرانزٹ ٹریڈ’ کی طرف جا رہا ہے؟

رپورٹ: شبیر احمد

پاک افغان تاجروں میں خوشی کی لہر اس وقت دوڑی جب نگران وزیر اعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے 7 نومبر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ جاری رکھیں گے’۔ یہ پریس کانفرنس پاک افغان تعلقات میں کشیدگی اور تناؤ سے جنم لینے والی بے یقینی کی صورتحال کی وضاحت پر مبنی تھی۔ عین یہی لمحہ تھا جب افغانستان کے نائب وزیر اعظم برائے اقتصادیات ملا عبدالغنی برادر ایران کے تفصیلی دورے پر تھے۔

وہ ایران میں معاشی اور تجارتی حوالوں سے اہم ملاقاتیں کر رہے تھے۔ ملا عبدالغنی برادر نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی توجہ طلب بات یہ رہی کہ دونوں فریقین نے واخان کوریڈور کی تعمیر اور استعمال پر زور دیا ۔ اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ اس روٹ کی تعمیر نوکے لیے دونوں ممالک پر مشتمل مشترکہ کمیٹیاں بنائی جائیں گی۔

افغان نائب وزیراعظم برائے اقتصادیات ملا عبدالغنی برادر ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات کے موقع پر

اپنے اسی سرکاری دورے کے دوران ملا عبدالغنی برادر نے چاہ بہار بندرگاہ کا دورہ بھی کیا۔انہوں نے چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے افغانستان کی برآمدات اور درآمدات میں اضافے پر زور دیا۔ ایرانی حکام سے مخاطب ہوکر کہا کہ وہ چاہ بہار بندرگاہ تک افغانستان کی رسائی کو آسان بنائے تاکہ برآمدات کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ ہو۔

ملا عبدالغنی برادر چاہ بہار بندرگاہ کے دورے پر

اس دورے نے ‘پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ‘کے مستقبل پر سوالات اٹھا دیے اور یہ خدشہ ابھر کر سامنے آنے لگا کہ پاک افغان کشیدگی کے پیش نظر افغانستان متبادل ٹرانزٹ ٹریڈ کی جانب گامزن ہوچکا ہے۔

پاک افغان ٹرانزٹ معاہدہ اور اسکی موجودہ صورتحال

2010 میں ہونے والا پاک افغان ٹرانزٹ معاہدہ جو 1965 کے معاہدے کی توسیع ہے، در اصل دونوں ممالک کے درمیان زمینی، ہوائی، اور بحری راستوں کے ذریعے تجارت کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اس معاہدے کی روسے دونوں ممالک ایک دوسرے کے اسٹیشن استعمال کرتے ہوئے تیسرے ملک کے ساتھ بھی تجارت کرسکتے ہیں۔پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ڈائریکٹر ضیاءالحق سرحدی نے ترکیہ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘جنیوا کنونشن کے تحت جس ملک کے پاس سمندر نہیں ہوتا، اس کا ہمسایہ ملک ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت فراہم کرتاہے۔ اس کی مثال ہمیں بھارت اور نیپال کی صورت میں نظر آتی ہے جہاں نیپال کے پاس سمندر نہ ہونے کی وجہ سے بھارت نے ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت مہیا کر رکھی ہے۔ اسی جنیوا کنونشن کے تحت پاکستان اور افغانستان کے درمیان 1965 کو معاہدہ ہوا تھا، جو 2010 یعنی 45 سال تک چلتا رہا’۔

ڈائریکٹر پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس ضیاءالحق سرحدی

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے کہا کہ ‘یہ معاہدہ اپنے وسیع تر معنوں میں آج بھی بحال ہے۔ اب بھی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت تجارتی گاڑیوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے۔افغانستان کے ساتھ تجارت کو مکمل طور پر غیرقانونی سمجھنامناسب نہیں، ایک بڑے پیمانے پر قانونی تجارت بھی ہوتی ہے’۔تاہم، ضیاءالحق سرحدی کہتے ہیں کہ’ اگرچہ یہ معاہدہ بحال ہے مگر اس کی مدت ختم ہونےکی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا ہے۔ 2010 میں یہ معاہدہ APTTAکے نام سے دس سال کی مدت کے لیے ہوا تھا۔ دونوں جانب عبوری حکومتوں کی وجہ سے اس کا مستقل حل نہیں نکل رہا’۔
کاشف انور نے پاک افغان ٹرانزٹ معاہدے کی وسعت سے اتفاق کرتے ہوئے اس کے مکمل اطلاق پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘اس معاہدے کے حوالے سے شعور کی کمی ہے اور عموماً لوگ اس طرح کے معاہدوں سے بے خبر رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ جن مال بردار گاڑیوں نے افغانستان میں کھلنا ہے وہ پاکستان میں نہ کھلیں’۔

صدر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کاشف انور

دوسری جانب ضیاء الحق سرحدی اس معاہدے کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’ یہ معاہدہ انتہائی عجلت اور جلد بازی میں کیا گیا تھا۔ اکتوبر 2010 میں امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن، افغان وزیر خارجہ زلمے رسول، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر تجارت مخدوم امین فہیم اس کے فریقین تھے، جبکہ باقی سٹیک ہولڈرز کو اس پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ طورخم، چمن اور غلام خان بارڈر پر عملی کام کرنے والوں کو مسائل کا ادراک ان بند کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والوں سے زیادہ ہوتا ہے’۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہماری 70 فیصد تجارت اسی وقت چاہ بہار اور بندرعباس کے راستے منتقل ہوگئی تھی’۔

 

کیا پاک افغان کشیدگی کا تجارت پر اثر پڑا ہے؟

پاکستان اور افغانستان کو اس وقت ایک دوسرے سے تحفظات ہیں۔ پاکستان دہشت گردوں کے ہاتھوں افغان سرزمین کے استعمال پر نوحہ کناں ہے تو افغانستان مہاجرین کے حوالےسے پاکستانی رویئے کو غیر انسانی قرار دیتاہے۔ضیاءالحق سرحدی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ’ تاجر کے لیے سب سے اطمینان بخش چیز تحفظ ہوتا ہے ۔ تاجر وہاں کروڑوں روپے کا مال بھیجے گا جہاں اسے یقین ہو کہ میرامال صحیح اور معتبر ہاتھوں میں جا رہا ہے۔ موجودہ تنازعات نے دونوں طرف تجارت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں’۔ کاشف انور اس صورتحال کے تجارتی نتائج کے بارے میں کہتے ہیں کہ ‘غیرقانونی مہاجرین کے خلاف کچھ نہ کرنے کی پالیسی کو عمر بھر برقرار نہیں رکھا جاسکتا، تاہم اس کشیدگی نے تجارت پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ دونوں حکومتوں کو بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے چاہیے’۔

پاک افغان ٹرانزٹ روٹ پر کھڑی مال بردار گاڑٖیاں

کیا افغانستان متبادل ٹرانزٹ ٹریڈ کی طرف جا رہا ہے؟

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت اور اس کے نام پر سرحد کے دونوں پار ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ کاشف انور سمجھتےہیں کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے بند ہونے یا متبادل کی صورت میں فرق تب پڑے گا جب حکومت اس معاہدے کے تحت جمع ہونے والے تجارتی ٹیکس کا تعین کرلے۔ اگر حکومت پاکستان کے پاس ٹیکس کی مد میں اچھی آمدنی ہو رہی ہے تو یقینا اس کا بڑا اثر پڑے گا، بصورت دیگر اس ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں اسمگلنگ جاری رہے گی۔

افغان نائب وزیر اعظم برائے اقتصادیات ملا عبدالغنی برادر کے دورہ ایران اور متبادل ٹرانزٹ ٹرید کی چہ مگوئیوں کے بعد ہم نے موجودہ افغان عبوری حکومت کا موقف جاننے کی کوشش کی۔
ترجمان امارت اسلامیہ ذبیح اللہ مجاہد نے ترکیہ اردو سےخصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ گزرتے وقت کے ساتھ پاکستان اور افغانستان لفظی طور پر ایک دوسرے سے تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ یہ اختلاف صرف بیان کی حد تک محدود ہے، ہماری کوشش ہے کہ اس کا اثر تجارت پر نہ پڑے۔ یہ ٹرانزٹ ٹریڈ ہمارے لیے بہت اہم ہے،جبکہ پاکستان اور دونوں ممالک سے وابستہ تاجروں کے لیے بھی اس کی افادیت زیادہ ہے’۔

متبادل بیانیے پر ردعمل دیتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں کہ’واخان راہداری یا چاہ بہار بندرگاہ کی بحالی کی کوششوں کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان متبادل ٹرانزٹ ٹریڈ کی طرف جا رہا ہے اور ہم اپنی تجارت کا رخ پاکستان سے موڑ رہے ہیں۔ جس قدر ہمارے پاس راہداریاں ہوگی، ہمارے اموال کی منتقلی اور نقل و حمل میں آسانی ہوگی’۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہر ملک کی اپنی اہمیت ہوتی ہے، کوئی دوسرا اسکا متبادل نہیں ہوسکتا۔ایران، چین اور ازبکستان کے راستے ہم تجارت کرتے ہیں۔ پاکستان کی بھی اپنی جگہ اہمیت قائم ودائم ہے۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا دوام ہمارا مطمع نظر ہے’۔

ترجمان امارت اسلامیہ افغانستان ذبیح اللہ مجاہد

ان کے مطابق باقی راہداریوں کی بحالی کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک کے بند ہونے سے تاجر اپنا مال دوسری طرف منتقل کردیتے ہیں جو مال کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔

Read Previous

ترکیہ غزہ سے مزید 50 مریضوں کو نکالنے کے لیے کام کر رہا ہے، وزیر صحت

Read Next

مسئلہ فلسطین کے منصفانہ سیاسی حل کے حصول کے بغیر ہمارے خطے میں پائیدار امن اور استحکام کا قیام ممکن نہیں،صدر ایردوان

Leave a Reply