
13 جون 2025 کی صبح دنیا نے ایک غیر معمولی منظر دیکھا—اسرائیل نے "آپریشن رائزنگ لائن” کے تحت ایران پر بھرپور اور منظم حملہ کر دیا۔ 200 سے زائد جدید ترین لڑاکا طیارے، اسٹیلتھ ٹیکنالوجی، لانگ رینج میزائل، اور الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز کے ساتھ، اسرائیلی فضائیہ نے ایران کے حساس عسکری، ایٹمی اور کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز پر حملہ کر کے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہ حملہ محض فوجی کارروائی نہیں بلکہ ایک پیغام تھا—ان ممالک کے لیے بھی جو بظاہر خاموش ہیں لیکن درپردہ رضا مند شراکت دار بن چکے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی خاموش فضا دراصل ایک خطرناک "خاموش رضامندی” کی غمازی کر رہی ہے۔
حملہ یا اندرونی کمزوری؟
اسرائیلی حملہ انٹیلیجنس بیسڈ کارروائی نہیں بلکہ خالصتاً جاسوسی کا نتیجہ تھا۔ ایران کے اندر اسرائیل کا انسانی نیٹ ورک اتنا مؤثر ہو چکا ہے کہ ایرانی سائنسدان، فوجی افسران اور اہم تنصیبات براہ راست نشانے پر آ گئیں۔ پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی، ایرانی فوج کے چیف جنرل باقری اور دیگر اعلیٰ افسران کی ہلاکت دراصل ایران کے سکیورٹی سسٹم کی مکمل ناکامی کا ثبوت ہے۔
فضائی حدود کی خاموشی
ایران پر اتنے بڑے پیمانے پر حملے کے لیے اسرائیلی طیاروں کو کسی نہ کسی مسلم ملک کی فضائی حدود استعمال کرنا پڑی۔ اردن، سعودی عرب یا خلیجی ریاستوں میں سے کسی نے بھی اس فضائی خلاف ورزی پر احتجاج نہیں کیا۔ یہ خاموشی محض اتفاق نہیں بلکہ کسی بڑے معاہدے یا خاموش شراکت داری کی علامت ہے۔
آج جب ایران نے جوابی حملے میں اسرائیل پر ڈرونز داغے تو ان ڈرونز کو گرانے کے لیے امریکا، برطانیہ، اردن، اٹلی، یو اے ای، اور سعودی عرب نے باقاعدہ حصہ لیا۔ اردن نے تو فخریہ اعلان بھی کیا کہ ایرانی ڈرونز اس کے طیاروں نے مار گرائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مسلم دنیا ایک دشمن کے ساتھ کھڑی ہو چکی ہے، یا اسے وقت کی سادگی کہا جائے؟
انٹیلیجنس اور جاسوسی میں فرق
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انٹیلیجنس اور جاسوسی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انٹیلیجنس معلومات کا قانونی، تکنیکی اور تجزیاتی حصول ہے، جب کہ جاسوسی غدار عناصر، ایجنٹس اور خفیہ نیٹ ورک پر مشتمل غیر قانونی عمل ہے۔ اسرائیل نے ایران پر جو کاری ضرب لگائی، وہ انٹیلیجنس نہیں بلکہ برسوں کی منصوبہ بندی اور اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا نتیجہ ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر: قیادت کا فخر
ایسے حساس حالات میں جب مسلم دنیا کی قیادت آزمائش سے گزر رہی ہے، پاکستان کی قیادت فخر کا مقام رکھتی ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے صرف افواجِ پاکستان کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا بلکہ دشمن کے ہر چال کا بروقت جواب دیا۔ ان کی حکمت، تدبر اور بصیرت نے پاکستان کو خطے میں استحکام کی علامت بنا دیا ہے۔
بھارت کی حالیہ اشتعال انگیزی کا جس انداز میں فوری، مؤثر اور خاموش جواب دیا گیا، اس نے دنیا کو حیران کر دیا۔ دشمن نے ایل او سی پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی، مگر پاکستان نے نہ صرف اپنے تمام محاذوں پر برتری قائم رکھی بلکہ سفارتی سطح پر بھی بھارت کو تنہائی کا شکار کر دیا۔ بھارت کی عالمی سطح پر مہم جوئی کا جواب پاکستانی قیادت نے عزت و وقار کے ساتھ دیا، جس سے ہماری عسکری اور سفارتی حکمت عملی کی پختگی ظاہر ہوتی ہے۔
پاکستان: امن، وقار اور حکمت کا علمبردار
پاکستان نے ہمیشہ امت مسلمہ کے مفادات کو مقدم رکھا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہو یا عسکری حکمت عملی، ہر پہلو میں توازن، امن پسندی اور دور اندیشی جھلکتی ہے۔ ہم نے نہ صرف کشمیر و فلسطین میں مظلوموں کی حمایت کی، بلکہ امت کو تقسیم سے بچانے کے لیے دانشمندی سے کردار ادا کیا۔
امت کی اجتماعی آزمائش
ایران اسرائیل کشیدگی نے ثابت کر دیا کہ امت مسلمہ صرف دشمن کے حملوں سے نہیں، اپنی باہمی بے حسی، قیادت کی کوتاہی، اور اندرونی تقسیم سے بھی کمزور ہو رہی ہے۔
اگر آج مسلم ممالک ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں، تو یہ صرف بیرونی سازش نہیں، اندرونی بے بصیرتی کا نتیجہ بھی ہے۔
پاکستان کا واضح مؤقف
پاکستان ایک ذمہ دار اور امن دوست ملک ہے۔ ہم خطے میں ہر قسم کی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی جانب سے ہو۔
ہم اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ رکوانے کے لیے فوری اقدام کریں۔
پاکستان ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیتا آیا ہے اور دے گا۔ مگر ساتھ ہی ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جذبے کے ساتھ ساتھ دانش، تدبر اور قیادت کی بصیرت ہی امت کا اصل سرمایہ ہے۔