تحریر: حذیفہ شکیل
اسرائیل رفح میں اپنی فوجی کارروائیاں فوری روک دے ، عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اسرائیل کا فیصلہ ماننے سے انکار!
عالمی قوانین کے مطابق اقوام متحدہ کے وہ تمام ارکان جنہوں نے عالمی عدالت اختیار کو تسلیم کرنے کے ڈیکلریشن پر دستخط کئے ہیں وہ اس عدالت کے فیصلے ماننے کے پابند ہیں، مگر ICJ کی وئب سائٹ کے مطابق اسرائیل ان ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے جنہوں نے عالمی عدالت اختیار کو تسلیم کرنے کے ڈیکلریشن پر دستخط کیے ہیں ـ ممکن ہے اسرائیل اسی بات پر عالمی عدالت کا فیصلہ ماننے سے انکار کر رہا ہے مگر اصولاً جو بھی اقوام متحدہ کا ممبر ہے اسے ICJ کے فیصلے ماننے کا پابند ہونا چاہیے ،
عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو رفح میں فوجی کاروائیاں فوری طور پر روکنے کا حکم دیا ہے اور ایک ماہ کے اندر اندر اس حکم کو نافذ کرنے کے لیے تمام اقدامات کر کے عدالت کو رپورٹ پیش کرنے، اور اسرائیل کو رفح بارڈر کراسنگ کو بھی انسانی امداد کے لیے کھولنے کا حکم دیا ہے، اسرائیل نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اسرائیلی وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے حکم پر کسی صورت عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیلی وزیر خزانہ نے کہا کہ غزہ پٹی میں جنگ روکنے کا مطلب اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے، وقت حماس کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو بے نقاب کرے گا۔
اگرچہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی برقرار ہے اور طاقتور مغربی ریاستیں اس کے ساتھ ہیں مگر جس طرح عوامی رد عمل بڑرھ رہا ہے اور حال ہی میں تین یورپی ممالک آئرلینڈ، ناروے اور اسپین نے فلسطین تسیلم کرنے کا علان کیا ہے اور امریکہ بھر کی متعدد جامعات میں طلبہ نے جس طرح فلسطین کے حق میں احتجاجی مظاہرے کئے ہیں یہ اسرائیل کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف سزا پر عمل درامد کروانے کے محدود اختیارات رکھتی ہے!
اگر کوئی ملک انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے حکم یا فیصلے کی تعمیل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو عدالت کے پاس نفاذ کے محدود اختیارات موجود ہیں۔
عدالت غیر تعمیل کرنے والی ریاست پر زور دے کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے باضابطہ درخواست بھیج سکتی ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کو عدم تعمیل کی اطلاع دے سکتی ہے، جس کے نتیجے میں حکم عدولی کرنے والے ملک پر سیاسی دباؤ اور اقوام متحدہ کی طرف سےاقتصادی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں، عالمی عدالت مزید نقصان کو روکنے یا متاثرہ فریق کے حقوق کے تحفظ کے لیے عارضی اقدامات کا حکم دے سکتی ہے اور سنگین عدم تعمیل کی صورتوں میں معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پاس بھیج سکتا ہے، جو اس ریاست پر اقتصادی پابندیاں، سفارتی تنہائی اور دیگر اجتماعی پابندیاں لگا سکتی ہے۔
اگر اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کو قبول نہیں کرتا ہے تو اسے مختلف نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے!
بین الاقوامی برادری اسرائیل کی عدم تعمیل کو بین الاقوامی قانون اور قانون کی حکمرانی کو مسترد کرنے کے طور پر دیکھ سکتی ہے، جس سے سفارتی دباؤ اور تنقید ہوتی ہے، دوسرے ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات، خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے عالمی عدالت کے فیصلے کی حمایت کی ہے وہ اسرائیل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، عالمی عدالت کے فیصلے کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پابندیاں یا دیگر اقدامات کر سکتی ہے، عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے سے اسرائیل کا انکار بین الاقوامی برادری میں اس کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، دوسرے ممالک یا فریق اسرائیل کے خلاف اضافی قانونی مقدمات لے سکتے ہیں، جو ممکنہ طور پراسرائیل کے لئے مزید قانونی نتائج کا باعث بن سکتے ہیں، اسرائیل کو بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے مختلف مسائل پر دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کرنا مشکل ہو جائے گا۔
عالمی عدالت انصاف کے فیصلے مشاورتی ہیں اور عدالت کے پاس نفاذ کے اختیارات نہیں ہیں۔ تاہم بین الاقوامی برادری اکثر ریاستوں پر بین الاقوامی قانون کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے عالمی عدالت کے فیصلوں کی تعمیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔ مگر یہ دباو بیشتر مواقعوں پر صرف مسلمان ریاستوں کے لئے ہوتا ہے، انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کی پہلے ربع سالوں نیا عالمی نظام مسلمانوں کی وسیع سلطنت کو ختم کرنے کے لیے وضع کیا گیا ـ چار اتحادی ممالک میں فرانس، برطانیہ، روس اور امریکہ شامل ہیں ـ جب تک ان ممالک کی اقتصادی اور جنگی طاقت کو چیلنج کرنے والے ممالک سامنے نہیں آتے، اسرائیل جیسے غیر فطری ملک فیصلے ماننے سے انکار کرتے رہیں گے کیونکہ معاملہ مسلمان ملک کا ہے ـ اگر یہ سب کسی عیسائی ملک کا معاملہ ہوتا جیسے 1999 میں انڈونیشیا میں ایک معمولی سے واقعہ کو مذہبی رنگ دے کر مشرقی تیمور کو ایک الگ ملک بنا کر فوری تسلیم کر لیا گیا تھا ـ اسی طرح فاک لینڈ جزائر کے تنازعہ پر 1980 کی دہائی میں برطانیہ اور ارجنٹائن کی جنگ پوری عیسائی دنیا نے مداخلت کر کے چند دن میں ختم کرا کے معاملہ فریقین کے اتفاق سے طے کرا دیا تھا ـ
