تحریر:مہتاب خان
مصریوں کی غلامی سے رہائی کے بعد جب صحراے سینا میں بنی اسرائیل کو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے باقاعدہ شریعت عطا کی گئی تو ساتھ ہی حضرت موسیٰ کو یہ ہدایت بھی کر دی گئی کہ وہ بدنی اور مالی عبادت کی مختلف رسوم ادا کرنے کے لیے خیمے کی شکل میں بنی اسرائیل کے لیے ایک عبادت گاہ بنائیں۔ اس خیمے کی بناوٹ، اس کے ساز وسامان اور اس میں ادا کی جانے والی رسوم کی پوری تفصیل خود اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو سمجھائی۔ ١ تورات میں اس خیمے کا ذکر ”خیمہ اجتماع”، ”مقدس”، ”مسکن” اور ”شہادت کا خیمہ” کے مختلف ناموں سے کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ خاص وضع کا ایک صندوق بنا کر اس میں تورات کی الواح کو محفوظ کریں اور اسے ”خیمہ اجتماع” میں ایک مخصوص مقام پر مستقل طور پر رکھ دیں
داؤد علیہ السلام ک زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک باقاعدہ مرکز عبادت تعمیر کرنے کی ہدایت ملی۔
حضرت داؤد نے اس مقصد کے لیے ارنان یبوسی نامی شخص سے اس کا کوہ موریا پر واقع کھلیان خریدا اور تعمیر کے لیے ابتدائی تیاریاں شروع کر دیں۔ ٥ تاہم اپنی حیات میں وہ اس مرکز عبادت کو تعمیر نہ کر سکے۔
حضرت سلیمان نے اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے دور حکومت میں مقررہ جگہ پر ایک شان دار عبادت گاہ تعمیر کرائی جو تاریخ میں ”ہیکل سلیمانی” (Solomon’s Temple) کے نام سے معروف ہے۔ اس کی تعمیر 950 ق م میں مکمل ہوئی۔
بابل کے بادشاہ نبوکد نضر کو ان پر مسلط کیا جس نے 586 ق م میں یروشلم پر حملہ کر کے ہیکل کو جلا کر برباد کر دیا ، اس کے تمام خزانے اور قیمتی ظروف لوٹ لیے، بنی اسرائیل کا قتل عام کیا اور انھیں اسیر بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا۔
فارس کے بادشاہ خورس (Cyrus) نے بابل کو فتح کرنے کے بعد 538 ق م میں بنی اسرائیل کو واپس یروشلم جانے اور وہاں ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دی۔
ہیکل ثانی کی تعمیر، جس کو زربابلی ہیکل کا نام دیا گیا،515 ق م میں مکمل ہوئی۔ یہ ایک بالکل سادہ سی عبادت گاہ تھی جس کا تزیین وآرایش اور تعمیر کے معیار کے لحاظ سے سلیمانی ہیکل کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں تھا۔
یہ عبادت گاہ تقریباً ساڑھے چار سو سال تک قائم رہی ، لیکن اس عرصے میں وقتاً فوقتاً حملہ آوروں کے ہاتھوں بے حرمتی کا نشانہ بنتی رہی۔ 169 ق م میں یونانی بادشاہ انطوخیوس چہارم ایپی فینس نے ہیکل پر قبضہ کر کے اس کے سازوسامان اور خزانے کو لوٹ لیا ١٤ اور اس میں زیوس (Zeus) دیوتا کے نام پر قربانی کا مذبح قائم کر کے سردار کاہن کو مجبور کیا کہ وہ اس پر ایک خنزیر کی قربانی کرے۔
اس کے رد عمل میں ‘مکابیوں کی بغاوت’ نے جنم لیا اور 165 ق م میں یہوداہ مکابی کی قیادت میں بنی اسرائیل حملہ آوروں کو بے دخل کر کے ہیکل کی بازیابی اور تطہیر میں کامیاب ہو گئے۔
اس کی یاد میں یہودی اب تک حنوکہ (Hanukkah) کا سالانہ تہوار مناتے ہیں۔
63 ق م میں یونانیوں کی جگہ جنرل پومپی کی قیادت میں رومی فوج نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس موقع پر زربابلی ہیکل کا ایک بڑا حصہ تباہی کی نذر ہو گیا۔
یہودیہ کے بادشاہ عظیم ہیردویس نے، جس کا زمانہ حکومت 37 ق م سے 4 عیسوی تک ہے، زربابلی ہیکل کی تعمیر نو کرتے ہوئے احاطہ ہیکل یعنی اس کے گرد چار دیواری کو وسیع تر کر دیا، اور زمین سے اس کی اونچائی مزید بلند
کر دی۔یہ تعمیر 19 ق م میں شروع ہوکر 46 سال تک جاری رہی”۔
کی تباہی اور فلسطین سے یہودیوں کی بے دخلی کی پیش گوئی دوسری مرتبہ 70عیسوی میں پوری ہوئی۔ جب رومی جنرل طیطس (Titus) نے 70ء میں یروشلم پرحملہ کر کے یہود کا قتل عام کیا اور ہیکل کو بالکل تباہ وبرباد کر دیا۔ زندہ بچ جانے والے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا گیا اور یروشلم میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا،
تاہم بعد کے ادوار میں یہ پابندی نرم کر کے یہودیوں کو مخصوص مواقع پر یروشلم میں آنے اور ہیکل کے کھنڈرات کی زیارت کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ہیکل کی اس دوسری تباہی میں اس کی صرف مغربی دیوار محفوظ رہ گئی تھی جو رفتہ رفتہ یہودیوں کا مقام اجتماع اور ان کی گریہ وزاری کا مرکز بن گئی اور اس بنا پر ”دیوار گریہ” (Wailing Wall) کہلانے لگی۔
136ء میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے یروشلم کو دوبارہ آباد کر کے اس کا نام ‘Aelia Capitolina ‘ رکھا اور ہیکل کی جگہ رومی دیوتا ‘Jupiter ‘ کے نام پر ایک عالی شان معبد تعمیر کرا دیا۔
چوتھی صدی عیسوی میں مسیحیت کے روم کا سرکاری مذہب بن جانے کے بعد 336ء میں قسطنطین اعظم نے اس معبد کی جگہ کلیساے نشور (Church or Resurrection) تعمیر کرا دیا۔
638ء میں مسلمانوں نے یروشلم کو فتح کیا تو اس موقع پر امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ صحابہ کی معیت میں مسجد اقصیٰ میں آئے۔ اس وقت ہیکل کے پتھر (صخرہ بیت المقدس) کے اوپر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ سیدنا عمرنے صحابہ کے ساتھ مل کر اس کو صاف کیا اور احاطہ ہیکل کے اندر جنوبی جانب میں نماز پڑھنے کے لیے ایک جگہ مخصوص کر دی۔ بعد میں اس جگہ پر لکڑی کی ایک مستطیل مسجد تعمیر کی گئی۔ 688ء میں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے صخرہ بیت المقدس کے اوپر ایک شان دار گنبد تعمیر کرا دیا جو ‘قبۃ الصخرہ’ (Dome of Rock) کے نام سے معروف ہے۔ اسی نے لکڑی کی مذکورہ سادہ مسجد کی تعمیر نو کر کے اس کے رقبے کو مزید وسیع کر دیا۔ اسلامی لٹریچر میں ”مسجد اقصیٰ” سے مراد یہی مسجد ہے۔
1078ء میں جب سلجوقی ترکوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو ان کے 20 سالہ دور حکومت میں یورپ اور پوری دنیا سے آنے والے مسیحی زائرین کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کیا گیا اور ان کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے معمولات میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ اس کے رد عمل میں 1096ء میں مغربی یورپ میں غیظ وغضب کی ایک لہر اٹھی جس نے صلیبی جنگوں کا روپ دھار لیا۔ پوپ اربن دوم کے حکم پر عیسائی جنگجوؤں کا ایک لشکر یروشلم پر قبضے کے لیے روانہ ہوا جس نے 1099ء میں یروشلم پر قبضہ کر کے مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کو اپنے تصرف میں لے لیا۔ مسیحی فاتحین نے قبۃ الصخرہ کو کلیسا میں تبدیل کر کے اس کے کلس پر سونے کی ایک بڑی صلیب نصب کر دی، جبکہ قبہ کے اندر مسیحی بزرگوں کی مورتیاں اور تصویریں آویزاں کر دی گئیں۔ صخرہ کے اوپر ایک قربان گاہ بنا دی گئی جسے انھوں نے ‘Temple Domini’ جبکہ مسجد اقصیٰ کو ‘TemplumSolomonis’کا نام دے دیا۔
88 سال کے بعد 1187ء میں مسلمان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں دوبارہ یروشلم پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور مسجد اقصیٰ کو مسجد کی حیثیت سے بحال کر کے قبۃ الصخرہ سے صلیب اتار دی گئی۔اہل حلب کا خاص طور پر بنایا ہوا منبر مسجد میں نصب کرایا۔
مملوک اور عثمانی عہد کے تقریبا ہر بادشاہ نے ہی اس کی توسیع یا یہاں تعمیرات کے اضافے کا سلسلہ جاری رکھا۔
1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل مشرقی یروشلم پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے اور مسجد کو اسرائیلی فوج نے اپنے کنٹرول میں لے لیا،تاہم اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان نے خیر سگالی کے اظہار کے طور پر احاطہ مقدسہ کی چابیاں اردن کے حکمران ہاشمی خاندان کے سپرد کر دیں۔ اس وقت سے اس احاطے اور اس سے ملحق بعض عمارتوں کا کنٹرول یروشلم کے مسلم وقف کے پاس ہے جو اس کے جملہ امور کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۔
21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔
