
ترک صدر رجب طیب ایردوان کی دورہِ سربیا سے واپسی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یونان کا حالیہ رویہ ناقابل بیان ہے۔انہوں نے کہا کہ "ہم ایک رات اچانک آ سکتے ہیں” کے الفاظ کو وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف، ایجیئن میں اس کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، ہمارے طیاروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے جبکہ کئی طیارے نیٹو کے دائرہ کار میں فرائض ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ کو ملنے والے ایس 400 میزائیلوں کو یونان واویلا مچارہا ہے جبکہ اس نے خود ایس 300 میزائیل خرید رکھے ہیں اور اس پر ابھی تک یونان نے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
امریکہ کی جانب سے یونان میں اڈہ قائم کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ وہ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (20-26 ستمبر) میں جائیں گے تو انہیں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کرنے اور ان مسائل پر بات کرنے کا موقع ملے گا۔
انہوں نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ یونان سمندری دائرہ اختیار کے تناظر میں بحیرہ ایجیئن اور مشرقی بحیرہ روم میں ترکی پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے، صدر نے کہا کہ
اس موضوع کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ یونان ، ترکیہ کے ساتھ براہ راست بات کرنے کے بجائے، اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور یہاں تک کہ نیٹو میں بھی ہمارے بارے میں مسلسل شکایت کر کے دھمکی دینے والے میکنزم چلا رہا ہے۔ اس کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہم ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنا بیان پیش نہیں کرتے بلکہ سب کچھ بڑے واضح اور کھلے انداز میں پیش کرتے ہیں۔