
تحریر: شبانہ ایاز
غزہ میں جاری انسانی بحران، جہاں بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، عالمی برادری کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ گلوبل صمود فلٹیلا (Global Sumud Flotilla) اس بحران کے حل کے لیے ایک اہم انسانی کوشش ہے، جو 44 ممالک سے ہزاروں کارکنوں، ڈاکٹروں، صحافیوں، اور معروف شخصیات پر مشتمل ہے۔
یہ قافلہ 15-20 ستمبر 2025 تک غزہ کے ساحلوں تک امدادی سامان (خوراک، ادویات، بچوں کا دودھ) پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔انسانی زندگی کی حفاظت ہر مذہب، فلسفہ، اور بین الاقوامی قانون کا بنیادی اصول ہے۔ قرآن کریم کی سورہ المائدہ (آیت 32) واضح کرتی ہے کہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
جنیوا کنونشنز (آرٹیکل 55 اور 56) قابض طاقت/ملک پر لازم کرتے ہیں کہ وہ شہریوں کو خوراک، پانی، اور طبی امداد فراہم کرے گا۔ تاہم، غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیل-حماس تنازع نے ان اصولوں کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ اقوام متحدہ نے اسے "انسانی ساختہ تباہی” قرار دیا، جہاں 64,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 332 کی موت *بھوک* سے ہوئی۔ *غزہ میں بھوک کا جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال* غزہ میں بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کے شواہد ناقابل تردید ہیں۔ یورپی یونین کے خارجہ پالیسی سربراہ جوزف بوریل نے مارچ 2024 میں کہا کہ "قحط کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
” اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل کی ناکہ بندی نے خوراک، ادویات، اور ایندھن کی ترسیل کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) نے خبردار کیا کہ اگر فوری جنگ بندی اور امدادی رسائی نہ دی گئی تو قحط پورے خطے میں پھیل سکتا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، 2.9 لاکھ سے زائد بچوں اور 1.5 لاکھ حاملہ خواتین کو فوری غذائی مدد کی ضرورت ہے۔ *ناکہ بندی کا اثر* اسرائیل نے مارچ 2025 سے امدادی سامان کی ترسیل پر پابندی لگائی، جس سے شہریوں کی حالت بدتر ہوئی۔ماہرین نے اسے *”نسل کشی* ” کا عمل قرار دیا، کیونکہ بھوک کو شہری آبادی کو کمزور کرنے کے لیے دانستہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ *امدادی مقامات پر حملے۔
غزہ میں امدادی مقامات پر فلسطینیوں پر حملوں نے انسانی بحران کو مزید گھمبیر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (OCHA) اور دیگر تنظیموں نے متعدد واقعات کی دستاویزی رپورٹ پیش کی ہے۔جنوری 2024، خان یونس امدادی ٹرک پر فائرنگ سے 21 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے۔مارچ 2025، غزہ سٹی۔ المواسی کے "محفوظ زون” میں ڈرون حملے میں 12 افراد شہید ہوئے۔جون 2025، رفح: اقوام متحدہ کے امدادی مرکز کے قریب بمباری سے 40 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔یہ حملے جنیوا کنونشنز کے آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی ہیں، جو شہریوں اور امدادی کارکنوں کی حفاظت کو لازم قرار دیتے ہیں۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بناتے ہیں، لیکن ہیومن رائٹس واچ کی آزاد تحقیقات نے اسے مسترد کیا، کیونکہ شہری ہلاکتوں کا تناسب غیر معمولی ہے۔خوراک کی ناکہ بندی کے باعث حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کی حالت بھی تشویشناک ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے 251 افراد کو یرغمال بنایا، جن میں سے کچھ یرغمالی نومبر 2023 کی عارضی جنگ بندی میں رہا ہوئے۔ رہائی پانے والوں (جیسے اور لیوی) نے بتایا کہ انہیں انتہائی محدود خوراک دی جاتی تھی، ایک دن میں ایک پیٹا روٹی۔ اسرائیلی ناکہ بندی نے مجموعی خوراک کی دستیابی کو محدود کیا، جس کا اثر یرغمالیوں اور شہریوں دونوں پر پڑا۔ حماس کا اصرار ہے کہ وہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے یرغمالیوں کو رہا کرے گا، لیکن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ان حالات میں گلوبل صمود فلٹیلا،امید کی ایک کرن بن کر سامنے آیا ہے ۔
گلوبل صمود فلٹیلا غزہ کی ناکہ بندی توڑنے اور انسانی امداد پہنچانے کی سب سے بڑی انسانی سمندری کوشش ہے۔ یہ فریڈم فلٹیلا کولیشن، گلوبل موومنٹ ٹو غزہ، مغرب صمود فلٹیلا، اور صمود نوسانتارا کے اتحاد سے تشکیل پایا ہے۔ تقریباً 50-70 جہازوں کا یہ بیڑہ 15-20 ستمبر 2025 تک غزہ کے ساحلوں تک پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہے۔موجودہ صورتحال (9 ستمبر 2025)روانگی۔ قافلہ 31 اگست کو بارسلونا اور 4 ستمبر کو مینورکا سے روانہ ہوا لیکن طوفان کی وجہ سے تیونس میں لنگر انداز ہے۔ نئی روانگی 10 ستمبر کو طے ہے، جس میں سسلی اور تیونس سے اضافی جہاز شامل ہوں گے۔ اسرائیلی پابندیاں
اسرائیلی ڈرونز قافلے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے اسے "پروپیگنڈا” قرار دے کر روکنے کی دھمکی دی ہے، جیسے کہ 2010 کے ماوی مرمرہ واقعے میں ہوا، جہاں 10 ترک کارکن ہلاک کئے گئے تھے۔ *امدادی سامان* اطالوی بندرگاہوں سے 300 ٹن امداد روانہ ہوئی، اور یونان، ملائیشیا سے اضافی قافلے اس کاروان میثشامل ہو رہے ہیں۔ ڈرون حملہ "فیملی” جہاز پر تیونس کی سمندری سرحد میں مبینہ اسرائیلی ڈرون حملے کی رپورٹس ہیں، یہ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
صمود فلوٹیلا میں شامل اہم شخصیات قافلے میں شامل کچھ معروف شخصیات درج ذیل ہیں۔ گریٹا تھنبرگ۔ گریٹا سویڈش ماحولیاتی کارکن، جو غزہ کے انسانی بحران پر عالمی توجہ دلاتی ہیں۔سابقہ واقعہ: جون 2025 میں، گریٹا کو فریڈم فلٹیلا کے جہاز "مادلین” کے قبضے کے بعد اسرائیل نے حراست میں لیا اور ملک بدر کر دیا۔ اب وہ صمود فلٹیلا میں دوبارہ شامل ہیں، جو ان کی فلسطین کے ساتھ یکجہتی کو ظاہر کرتا ہے۔ان کی شہرت قافلے کو عالمی میڈیا میں توجہ دلاتی ہے۔ منڈلا منڈیلا نیلسن منڈیلا کے پوتے اور فلسطینی حق خود ارادیت کے حامی ہیں۔فلسطین کی جدوجہد کو جنوبی افریقہ کی آزادی کی تحریک سے جوڑتے ہیں۔ اڈیل ہینیل فرانسیسی اداکارہ اور انسانی حقوق کی کارکن۔ یورپی ممالک میں قافلے کی حمایت کو مضبوط کرتی ہیں۔
ڈاکٹر حسین درماز ترک ڈاکٹر اور ترکیہ ڈیلیگیشن کے صدر۔ ترکیہ کی تنظیم سازی اور امدادی سرگرمیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ سینیٹر مشتاق احمد پاکستانی سابق سینیٹر اور انسانی حقوق کے کارکن، جو تیونس میں قافلے کی روانگی کے اعلانات میں شامل تھے۔ پاکستان سے عالمی یکجہتی کو مضبوط کرتے ہیں۔
ترکیہ کا کلیدی کردار ترکیہ صمود فلٹیلا میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے، جو اس کی تاریخی، سیاسی، اور جغرافیائی اہمیت سے عیاں ہے۔ڈاکٹر حسین درماز کی قیادت میں ترکیہ ڈیلیگیشن قافلے کی تنظیم سازی کر رہا ہے۔ استنبول اور ازمیر سے جہازوں کی تیاری اور روانگی کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ترکیہ نے 300 ٹن سے زائد امدادی سامان فراہم کیا ہے۔ترک صدر رجب طیب ایردوان نے فلسطین کے حق میں مسلسل بیانات دیے ہیں اور ناکہ بندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ ترکیہ نے اسرائیل کے ساتھ تجارت محدود کی، جو قافلے کی حمایت کو مضبوط کرتا ہے۔2010
کے ماوی مرمرہ واقعے میں اسرائیلی بحریہ کے حملے میں 10 ترک کارکن ہلاک ہوئے تھے، جس نے ترکیہ کے عوام میں فلسطین کے لیے ہمدردی کو بڑھایا تھا ۔اسی طرح ترکیہ نے تیونس اور سسلی میں قافلے کی تیاریوں میں حصہ لیا اور فنڈ ریزنگ مہمات چلائیں۔ ترک کارکن و عوام "فیملی” جہاز پر حالیہ مبینہ حملے کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔
جنگ بندی کے مذاکرات کی پیچیدگیاں* جنگ بندی کے مذاکرات تنازع کے حل کی اہم کوشش ہیں۔ نومبر 2023 کی عارضی جنگ بندی کے دوران 100 سے زائد یرغمالی اور فلسطینی قیدی رہا ہوئے، لیکن مارچ 2025 میں حملوں کی بحالی سے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
قاہرہ میں جاری بات چیت رمضان سے قبل جنگ بندی کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اسرائیل کی حماس کو ختم کرنے کی شرط اور حماس کی فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی مانگ نے پیش رفت روک دی ہے۔
امریکہ کی اسرائیل کے لیے فوجی اور سیاسی حمایت تنازع کا اہم جزو ہے۔ سالانہ اربوں ڈالر کی امداد ہتھیاروں اور میزائل کے لیے دی جاتی ہے۔ اگرچہ "امریکہ نے قبضہ کے احکامات دیے” کا دعویٰ غیر مصدقہ ہے، لیکن امریکی بیانات اسرائیل کی پوزیشن کی تائید کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اس حمایت کو تنقید کا نشانہ بنایا، کیونکہ یہ ناکہ بندی اور شہریوں پر بمباری کو جاری رکھنے میں سہولت دیتی ہے۔ *انسانی بحران کا حل غزہ کے انسانی بحران کے حل کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
فوری جنگ بندی۔ اسرائیل اور حماس کو جنگ بندی پر اتفاق کرنا چاہیے تاکہ امدادی رسائی ممکن ہو۔ *ناکہ بندی کا خاتمہ* ۔اسرائیل کو ناکہ بندی ختم کرنی چاہیے تاکہ خوراک اور ادویات پہنچ سکیں۔ *امدادی مقامات کی حفاظت۔ امدادی مراکز پر حملے روکے جائیں۔ یرغمالیوں کی رہائی۔
حماس کو یرغمالی اور اسرائیل کو فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر مذاکرات کرنا چاہیے۔ *صمود فلٹیلا کی حمایت۔* عالمی برادری کو قافلے کی حفاظت کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ *_امریکی امداد پر نظرثانی_* اقوام متحدہ کو امریکی فوجی امداد پر سوال اٹھانا چاہیے۔
قارئین کرام غزہ میں بھوک کا جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال، امدادی مقامات پر حملے، اور صمود فلٹیلا پر پابندیاں انسانی زندگی کی اہمیت کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ گریٹا تھنبرگ، منڈلا منڈیلا، اڈیل ہینیل، ڈاکٹر حسین درماز، اور سینیٹر مشتاق احمد جیسے افراد کی شمولیت اس قافلے کو عالمی توجہ دلاتی ہے۔ ترکیہ کا کردار تنظیم سازی، امدادی سامان، اور سیاسی حمایت کے حوالے سے بے حد اہم ہے۔ "فیملی” جہاز پر مبینہ ڈرون حملے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ جنگ بندی کے مذاکرات اور ناکہ بندی کا خاتمہ ہی اس بحران کا واحد حل ہیں۔ عالمی برادری کو صمود فلٹیلا کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ غزہ میں انسانی زندگی کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔