
تصور کریں، ایک ماں اپنے بچوں کو بھوک سے نڈھال دیکھتی ہے، پانی چڑھا کر کہتی ہے، "کھانا تیار ہو رہا ہے”، مگر اس کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں مایوسی کی لہریں اٹھتی ہیں۔ یہ غزہ کی حقیقت ہے—ایک ایسی اذیت جو نہ صرف جسم بلکہ روح کو بھی کھوکھلا کر رہی ہے۔
7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت نے 65,000 سے زائد فلسطینیوں کی جانیں لی ہیں، لیکن اب بھوک کو جنگی ہتھیار بنا کر لاکھوں انسانوں کو نفسیاتی طور پر توڑا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، غزہ کی 2.5 ملین آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے، اور فیمن (IPC Phase 5) کی تصدیق ہو چکی ہے—ایک ایسی تباہی جو بچوں کے چہروں پر موت کی چھاپ چھوڑ رہی ہے۔
رفح کراسنگ پر 44 کلومیٹر لمبی امدادی ٹرکوں کی قطار کھڑی ہے، مگر اسرائیلی ناکہ بندی نے انہیں روک رکھا ہے۔
اسی تناظر میں، 15 ستمبر 2025 کو دوحہ میں ہونے والا عرب-اسلامی سربراہی اجلاس امید کی کرن لایا تھا، مگر یہ صرف خالی تقریروں کا پلندہ ثابت ہوا۔ دوسری طرف، گلوبل صمود فلوٹیلا نے سمندری ناکہ بندی توڑنے کی اجازت حاصل کر لی، جو انسانی ہمدردی کی جیت اور فلسطینی استقامت کی علامت ہے۔
غزہ کی بھوک صرف پیٹ کی آگ نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی جنگ ہے جو لاکھوں خاندانوں کے دل و دماغ کو توڑ رہی ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، 425 سے زائد افراد بھوک اور غذائی قلت سے ہلاک ہو چکے، جن میں 130 بچے شامل ہیں۔ ایک ماں، ام وسام، کی آواز دل ہلا دیتی ہے "میرا بیٹا رات کو بھوک سے چیختا ہے، اور میں اسے جھوٹ بولتی ہوں کہ صبح کھانا ملے گا۔ مگر میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔” یہ جھوٹ، یہ بے بسی، فلسطینی ماؤں کی نفسیاتی اذیت ہے جو پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کو جنم دے رہی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کہتی ہے کہ غزہ کے 90% بچوں میں خوف، اضطراب، اور مایوسی کے آثار ہیں—نیند نہ آنا، بھوک سے چڑچڑاپن، اور مستقبل کی بے یقینی۔
رفح کراسنگ پر امدادی ٹرکوں کی قطار ایک خاموش چیخ ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق، غزہ کو روزانہ 800 ٹرکوں کی ضرورت ہے، مگر صرف 50-150 ٹرک داخل ہوتے ہیں، وہ بھی اسرائیلی فوج کی مرضی پر منحصر ہے۔ 14,000 بچوں میں شدید غذائی قلت (SAM) اور 70,000 میں ایکیوٹ ملی نیوٹریشن کے کیسز ہیں۔ یہ منظم قحط جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے، جسے استنبول یونیورسٹی کے وکیل دنیز باران "جنگی جرم” قرار دیتے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف (ICJ) کے تین احکامات اسرائیل نظر انداز کرچکا ہے ۔۔
یہ بھوک صرف جسم نہیں، بلکہ فلسطینیوں کی امید، حوصلہ، اور نفسیاتی طاقت کو کھا رہی ہے۔
15 ستمبر 2025 کو دوحہ میں 50 سے زائد عرب اور اسلامی رہنماؤں نے شرکت کی، جن میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، ایرانی صدر مسعود پزشکیان، ترک صدر رجب طیب اردوان، پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف، اور ملائیشین وزیراعظم انور ابراہیم شامل تھے۔ یہ اجلاس اسرائیل کے 9 ستمبر کو دوحہ پر حملے کے جواب میں بلایا گیا، جس میں حماس کی مذاکراتی ٹیم کو نشانہ بنایا گیا اور ایک قطری شہری شہید ہوا۔ اس اجلاس میں اسرائیلی جارحیت کی "مضبوط مذمت” کی گئی، فلسطین کی تسلیم شدہ ریاست اور دو سٹیٹ سلوشن کا مطالبہ کیا گیا، مگر غزہ کی بھوک پر کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی ۔
نیویارک ٹائمز اور تہران ٹائمز نے لکھا کہ سمٹ نے "خالی وعدوں” کی فہرست پیش کی۔ کوئی بائیکاٹ، فوجی مدد، یا "مسلم نیٹو” منظور نہ ہوا۔
سوشل میڈیا سائٹX پر عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا، ــسمٹ ختم، اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا، 48 شہری ہلاک—یہ ہے ہمارے رہنماؤں کی طاقت؟
یہ ناکامی مسلم دنیا کی نفسیاتی کمزوری ہے—امید جگانے والے وعدے، مگر مایوسی کی چادر اوڑھنے والے رہنما۔
ـامریکی دباؤ اور GCC کی نارملائزیشن نے اتحاد کو توڑ دیا۔
یہ وہ نفسیاتی بے بسی ہے جو عوام کے دل توڑ رہی ہے۔
جب رہنما ناکام ہوئے، تو عوام نے امید کی مشعل تھامی ۔ گلوبل صمود فلوٹیلا— 50 سے زائد جہازوں اور 44 ممالک کے 1,000 سے زائد کارکنوں کا کارواں—غزہ کی سمندری ناکہ بندی توڑنے اور امداد پہنچانے کا مشن ہے۔ گریٹا تھنبرگ، ایڈا کولاؤ، اور لیام کننگھم جیسے افراد جبکہ پاکستان سے پانچ رکنی وفد جس کی قیادت سینیٹر مشتاق احمد خان کررہے ہیں اس فلوٹیلا میں موجود ہیں۔
"صمود” (استقامت) کا نام فلسطینی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے—ایک ایسی طاقت جو خوف کو شکست دیتی ہے۔
اگست 2025 میں برسلونا سے روانہ ہونے والے جہازوں نے 3,000 کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ تیونس میں ڈرون حملوں سے آگ لگی، مگر کارکنوں نے کہا "ہمارا عزم نہیں جلے گا۔” 10 ستمبر کو اسرائیل نے اسے "حماس کی آڑ” قرار دیا، مگر اقوام متحدہ نے تحفظ کی اپیل کی۔ 16 ستمبر کو فریڈم فلوٹیلا اور ہزاروں میڈلینز نے اتحاد کیا، اور 24 ستمبر کو کٹانا سے اگلی لہر روانہ ہو رہی ہے۔ یہ فلوٹیلا صرف امداد نہیں، بلکہ فلسطینیوں کے لیے نفسیاتی پیغام ہے۔
"تم تنہا نہیں، دنیا تمہارے ساتھ ہے۔” یہ ہمدردی اور انسانی مدد کی لہر ہے جو مایوسی کو امید میں بدل رہی ہے، جیسے ایک فلسطینی بچے نے کہا: "سمندر سے جہاز آ رہے ہیں، شاید اب کھانا ملے۔”
دوحہ سمٹ کی ناکامی مسلم دنیا کی نفسیاتی تقسیم کو عیاں کرتی ہے—GCC کی نارملائزیشن، امریکی دباؤ، اور مصر کے تحفظات نے اسلامی اتحاد کو کمزور کیا ہے۔ یہ مایوسی عوام میں غصہ بھڑکا رہی ہے،
جیسا کہ X پر ایک صارف نے لکھا "ہمارے رہنما تقریریں کرتے ہیں، جبکہ بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔” مگر فلوٹیلا کی کامیابی—جسے اسرائیلی "شو آف فورس” کے باوجود اجازت ملی—عوامی ہمدردی کی نفسیاتی فتح ہے۔ BDS تحریک اور عالمی احتجاج (جیسے 22 ستمبر کو نیویارک کی Two-State Solution Conference) اسے تقویت دے رہے ہیں۔ یہ فلسطینیوں کے لیے نفسیاتی دوا ہے—خوف کی جگہ حوصلہ، اور تنہائی کی جگہ اتحاد۔
غزہ کے بھوکے بچوں کی چیخیں انسانی ضمیر کو للکار رہی ہیں۔ دوحہ سمٹ نے امید جگائی، مگر مذمتی بیانات نے دل توڑ دیے۔
مگر گلوبل صمود فلوٹیلا نے ثابت کیا کہ جب رہنما ناکام ہوتے ہیں، تو عوام کی ہمدردی سمندر پار کرتی ہے۔ فلسطین کی جدوجہد صرف سیاسی نہیں، بلکہ نفسیاتی ہے—جہاں صمود ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
تحریر: شبانہ ایاز