
تحریر: شبانہ ایاز
غزہ،فلسطین ایک چھوٹا سا علاقہ جہاں دو سال سے جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں، وہاں زندگی نے اپنی جگہ بنائے رکھی۔۔ اسرائیلی فوج کے حملوں نے 67,000 سے زیادہ فلسطینیوں کی جان لی، جن میں 19,500 سے زیادہ معصوم بچے شامل ہیں۔ یعنی ہر روز اوسطاً 92 لوگ شہید ہوئے۔ لیکن اس تاریک ماحول میں ایک امید کی کرن بھی چمکتی رہی ۔ ان دو سالوں میں غزہ میں ایک لاکھ سے زیادہ بچوں نے جنم لیا۔ یعنی ہر روز اوسطاً 180 ننھے فرشتوں نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ یہ کہانی موت کے مقابلے میں زندگی کی فتح کی داستان ہے۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، جنوری سے جون 2025 تک تقریباً 17,000 بچوں کی پیدائش ہوئی۔ یہ تعداد 2022 کے مقابلے میں کم ہے، جب اسی عرصے میں 29,000 بچے پیدا ہوئے تھے۔
جنگ، اسرائیل کی ناکہ بندی، ہسپتالوں کی تباہی، اور غذائی قلت نے حالات کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ بہت سے بچے کم وزن یا وقت سے پہلے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں ایندھن کی کمی اور بمباری کی وجہ سے ڈاکٹروں کو سرجری تک ٹارچ کی روشنی میں کرنی پڑتی ہے۔ لیکن فلسطینی ماں اپنے بچوں کو جنم دے کر زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔یہ بات حیران کن ہے کہ جہاں ہر روز 92 لوگ شہید ہو رہے ہیں، وہیں 180 بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ گویا موت کے مقابلے میں زندگی کی فتح ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر اداروں (جیسے UNICEF اور Save the Children) کے مطابق، جنگ نے غزہ کی آبادی کو شدید نقصان پہنچایا۔ 22 لاکھ کی آبادی میں سے 6 فیصد ابادی کم ہو چکی ہے۔ لیکن بچوں کی پیدائش کی یہ تعداد فلسطینیوں کے حوصلے اور امید کی علامت ہے۔جنگ کے باعث اس وقت غزہ میں حالات انتہائی سنگین ہیں۔ 36 ہسپتالوں میں سے صرف 14 کسی حد تک کام کر رہے ہیں۔ حاملہ خواتین کو مناسب خوراک، ادویات، یا طبی دیکھ بھال نہیں ملتی۔
غذائی قلت کی وجہ سے 75 فیصد بچے کم وزن کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں، اور بہت سے حمل ضائع ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ تناؤ اور خوف کی وجہ سے قبل از وقت پیدائش کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ پھر بھی، فلسطینی ماں اپنے بچوں کو جنم دے کر ایک نئی نسل کو پروان چڑھا رہی ہے۔ایک ماں کی کہانی۔۔۔سماح، ایک 28 سالہ فلسطینی ماں، نے بمباری کے دوران اپنے بیٹے کو ایک تباہ شدہ ہسپتال میں جنم دیا۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ٹارچ کی روشنی میں ڈلیوری کی۔ سماح کہتی ہے، "میرا بیٹا میری امید ہے کہ ایک دن ہم آزاد ہوں گے۔” سماح جیسی مائیں غزہ کی ہر گلی میں ہیں، جو اپنے بچوں کے لیے خواب دیکھتی ہیں، چاہے حالات کتنے ہی کٹھن ہوں۔ایسی صورتحال میں ترکیہ نے ہمیشہ فلسطین کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ ترکیہ کی امدادی تنظیمیں جیسے AFAD اور ترکش ریڈ کریسنٹ غزہ کے لیے خوراک، ادویات، اور خیمے بھیج رہی ہیں۔
ترک عوام نے فلسطینی بچوں کے لیے اپنے دل کھول دیے ہیں۔ صدر ایردوان نے عالمی فورمز پر فلسطین کی حمایت میں آواز بلند کی، جو غزہ کے لوگوں کے لیے امید کی کرن ہے۔ ترکیہ کی یہ امداد فلسطینیوں کو بتاتی ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔اقوام متحدہ کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت ایک سنگین بحران بن چکی ہے۔ اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے امدادی سامان کی ترسیل میں شدید مشکلات ہیں۔ مسلم ممالک اور عالمی برادری کو مزید آگے آنے کی ضرورت ہے تاکہ غزہ کے بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔ ہر عطیہ، ہر آواز، اور ہر دعا اس بحران کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔غزہ کے لاکھوں بچوں کا تعلیمی مستقبل خطرے میں ہے۔
جنگ نے 80 فیصد اسکول تباہ کر دیے ہیں، اور بچوں کو تعلیم کے بجائے بموں کا خوف سہنا پڑتا ہے۔ پھر بھی، فلسطینی والدین اپنے بچوں کو خواب دینے سے باز نہیں آتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ڈاکٹر، انجینئر، اور شاعر بنیں، جو ایک دن آزاد فلسطین کی تعمیر کریں گے۔ایسی صورتحال میں پاکستان نے فلسطین کو تنہا نہیں چھوڑا۔پاکستان نے غزہ کے لیے ہمیشہ اپنے دل کھولے رکھے ہیں۔ 2025 میں، پاکستان نے 28 سے زائد امدادی کنسائنمنٹس بھیجے، جن میں 1,800 ٹن سے زیادہ خوراک، ادویات، اور بچوں کا دودھ شامل ہے۔ نیشنل اسمبلی نے متفقہ قرارداد منظور کی، جس میں اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے عالمی فورمز پر فلسطین کی حمایت کی، اور اقوام متحدہ میں پاکستان نے فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کا مطالبہ کیا۔ پاکستانی عوام نے فنڈ ریزنگ مہمات چلائیں، اور فوج نے امدادی طیاروں کی مدد کی۔ یہ سب غزہ کے بچوں کو بتاتا ہے کہ پاکستان ان کا سچا ساتھی ہے۔
فلسطینیوں کی استقامت* غزہ کے لوگ صرف زندہ نہیں رہ رہے، وہ زندگی کو گلے لگا رہے ہیں۔ ہر نومولود بچہ گویا ایک پیغام ہے کہ فلسطینی اپنی سرزمین پر ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ یہ بچے مستقبل کی امید ہیں، جو ایک دن انصاف اور آزادی کی روشنی دیکھیں گے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟
غزہ کے اس انسانی بحران کو دیکھتے ہوئے ہم سب کو آگے آنا چاہیے۔ جنگ بندی، انسانی امداد، اور ہسپتالوں کی بحالی کی ضرورت ہے۔ ترکیہ اور پاکستان کے لوگ فلسطینی بچوں کے لیے عطیات دے سکتے ہیں، سوشل میڈیا پر آگاہی پھیلا سکتے ہیں، یا اپنی دعاؤں میں انہیں یاد رکھ سکتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا عمل بھی بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔ آئیے، ہم مل کر غزہ کے بچوں کی آواز بنیں۔یہ کہانی غزہ کے لوگوں کی ہمت اور زندگی سے محبت کی داستان ہے۔ جنگ کے سائے میں بھی، وہ نئی نسلوں کو جنم دے رہے ہیں، جو ایک دن ان شاءاللہ آزاد فلسطین کی بنیاد رکھیں گے۔