
رپورٹ: شبیر احمد
اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے فوری بعد، ستمبر میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اچانک کابل کے دورے پر روانہ ہوئے۔ اس دورے کی ویڈیوز اور تصاویر میڈیا پر وائرل ہوئیں، جن میں انہیں ہوٹل میں چائے کا کپ تھامے دیکھا جا سکتا ہے۔ عین اسی لمحے وہ صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ’Don’t Worry, Everything will be ok’
یعنی پریشان نہ ہوں، سب ٹھیک ہوجائے گا’۔امید یہی تھی کہ بدلتے حالات میں افغان عبوری حکومت کے ہوتے ہوئے مغربی سرحد پاکستان کے لیے درد سر نہیں ہوگی، مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔تو کیا اس باب میں اب مولانا فضل الرحمان کوئی مثبت کردار ادا کر پائیں گے؟یہ سوال اس وقت سامنے آیا جب اسلام آباد میں افغان سفیر نے مولانا فضل الرحمان کو دورہ افغانستان کی دعوت دی۔
افغان اور پاکستانی طالبان، مستقبل کا غلط ادراک
امارت اسلامیہ کے قیام کے وقت پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجنے کی وجہ یہ توقع تھی کہ مغربی حصے میں دوستوں کی حکومت کے قیام سے دہشت گردی میں کمی واقع ہوجائے گی، اور تحریک طالبان پاکستان کا خطرہ بھی ٹل جائے گا۔سالوں سے پاکستان کی مشرقی سرحد پر بھارت کی جانب سے مخاصمت کے بعد ناگزیر تھا کہ مغربی سرحد محفوظ ہو اور اس کے لیے کابل میں ایک ایسی حکومت کا قیام ضروری تھا جو نظریاتی طور پر نا سہی ، سیاسی سطح پر خطے کی پالیسی میں معاون و مددگار ثابت ہو۔
لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ سوچ جہاں ایک طرف غلط ثابت ہوئی وہیں افغانستان ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا۔ یہ مستقبل کا غلط ادراک تھا اور پاکستان نے یہ نہیں سمجھا کہ جن لوگوں نے افغان طالبان کی مشکل وقت میں مدد کی، انہیں پناہ دی، رہنے کے لیے جگہ دی، ان کے اس احسان کو اب کیسے فراموش کیا جائے گا؟ اس پر مستزاد نظریاتی موافقت بھی تھی جس کا ادراک کرنے میں بھی شاید پاکستان غلطی کر بیٹھا۔
سال 2022، حکومت اور ٹی ٹی پی میں مزاکرات کی کوششیں
افغان طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں زبردست تیزی واقع ہوئی۔ سال 2022 اس لیے اہم تھا کہ پاکستان نے افغان طالبان کی ثالثی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مزاکرات شروع کیے۔ مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں علماء کا ایک وفد اسی سال جولائی کے مہینے میں افغانستان پہنچا۔ اسی طرح اکتوبر میں بیرسٹر سیف نے مزاکرات کی قیادت کی۔ تاہم، ان مزاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ رواں سال جنوری میں پشاور پولیس لائن پر بڑا حملہ ہوا تو وقت کی پی ڈی ایم حکومت نے بھی اس معاملے کو سنجیدہ لینے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے فروری میں اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف اور موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفیننٹ جنرل ندیم انجم نے کابل کا دورہ کیا اور افغان حکام سے ملاقاتیں کیں۔
مزاکرات کی ناکامی کی وجوہات
دونوں جانب سے ان ناکام مزاکرات کی ذمہ داری ایک دوسرے کے سر تھوپی گئی۔ افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے کہا کہ یہ مزاکرات 90 فیصد کامیاب ہوچکے تھے، پاکستان میں قیادت کی تبدیلی نے اس کو بریک لگا دیا او ر نئی قیادت نے اسے فار گرانٹِڈ لیا ہی نہیں ۔ دوسری جانب افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان اس وقت ان تمام مزاکرات کا ایک اہم حصہ تھے۔انہوں نے بتایا ہے کہ اس کی ناکامی کی وجہ ٹی ٹی پی کے ناقابل قبول مطالبات تھے، جس میں فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ سر فہرست تھا۔
پچھلے سال نومبر میں یہ مزاکرات ناکام ہوئے اور جنگ بندی کا خاتمہ ہوگیا۔ جنگ بندی کے خاتمے سے لے کر اب تک ٹی ٹی پی نے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے خلاف 890 حملوں کا دعوٰی کیا ہے ۔ان حملوں میں جنوری 2023 میں پولیس لائن پشاور اوردسمبر میں ڈی آئی خان جیسے بڑے حملے بھی شامل ہیں۔ پچھلے سال ان ٹی ٹی پی حملوں کی تعداد 245 تھی۔
مولانا فضل الرحمان کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟
حملوں میں اس شدت اور افغان حکومت کی جانب سے عدم تعاون کے بعد ایک امید کی فضاء اس وقت پیدا ہوئی جب اسلام آباد میں افغان سفیر سردار احمد شکیب نے مولانا فضل الرحمان کو افغانستان سرکاری دورے کی دعوت دی۔مولانا فضل الرحمان اگر چہ، ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں، اور وہ افغان طالبان کے ساتھ مذہبی استاد شاگرد کا رشتہ بھی رکھتے ہیں۔ شاید وہی اس معاملے میں کوئی کردار ادا کر سکیں۔ لیکن، یہاں پر یہ بات جاننا بے حد ضروری ہے کہ مولانا نے 2013 میں حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مزاکرات میں کردار سے معذرت کی تھی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر مولانا نے خود کو اس کے لیے تیار کیا ہے تو تب بھی ان کا کردار محدود رہے گا، کیونکہ طالبان اپنے نظریے کے مخالف کسی کی بات فی الحال ماننے کو تیار نہیں۔
افغان طالبان کو مولانا فضل الرحمان سے کیا توقعات ہیں؟
ترجمان دفتر خارجہ پاکستان ممتاز زہرا بلوچ نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مزاکرات پر کوئی غور نہیں ہو رہا ۔مذاکرات فی الحال کوئی آپشن نہیں۔ پاکستان کا اس وقت اصولی موقف ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات کریں۔
اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا فض الرحمان کا دورہ ذاتی ہوگا، وہ اپنے تئیں معاملات کو نپٹائیں گے۔ تاہم، دورے کی دعوت کا مقصد جاننے کے لیے جب ہم نے ترجمان امارت اسلامیہ ذبیح اللہ مجاہد سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم مولانا فضل الرحمان کے ساتھ عوامی اور سرکاری سطح پر فکری اور مذہبی مطابقت کرتے ہیں۔ہماری مشترکہ زبان اس تعلق کو مزید گہرا بناتی ہے۔ اس کا استفادہ نہ صرف عوام بلکہ علماء کو بھی ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان عوام کے درمیان ایک اسلامی رشتہ ہے۔ مولانا فضل الرحمان اسلامی تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے اس تعلق کو مزید مضبوط کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد میں مولانا فضل الرحمان کو سننے والے سرحد کی دونوں جانب موجود ہیں۔ لہذا، حکومتی سطح تو نہیں لیکن عوامی سطح پر وہ اس کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی کے دورۂ افغانستان کو ذبیح اللہ مجاہد ناکام نہیں سمجھتے ، ان کے مطابق اس دورے نے عوام اور علماء کے درمیان کافی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا تھا۔ دونوں حکومتوں کے درمیان جاری تنازعے اور کشیدگی سے عوام کے درمیان تعلق اور محبت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اسی تعلق کے استحکام کے لیے مولانا فضل الرحمان کو دورے کی دعوت دی گئی۔