
فرانس میں اسلام دشمنی اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے خلاف احتجاجی مظاہرے شدت اختیار کر گئے۔
دارالحکومت پیرس، مرسیلے، لیلی، سٹراسبورگ، بوراڈیش اور لیون کی سڑکیں اور گلیاں احتجاجی مظاہرین سے بھر گئیں۔ پیرس میں "فرنٹ اکینسٹ اسلاموفوبیا اینڈ ایکول رائٹس فار آل” نامی تنظیم کے زیر اہتمام ری پبلک اسکوائر میں ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا۔
تنظیم کے سربراہ عمر سلوتی نے کہا کہ فرانسیسی حکومت مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے اور انہیں مذہبی رسومات ادا کرنے سے روک رہی ہے۔ پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے اور فرانسیسی حکومت کے اقدامات اب قابل برداشت نہیں رہے۔ مسلمان فرانس کی حکومت کے نو آبادیاتی نظریئے کے خلاف مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فرانسیسی حکومت نے مسلمانوں کو معاشرے سے الگ تھلگ کرنے کا جو قانون پاس کیا ہے جب تک وہ قانون ختم نہیں کیا جاتا احتجاج جاری رہے گا۔
عمر سلوتی نے کہا کہ فرانسیسی حکومت کے اسلام اور مسلمان مخالف قانون کی کئی جہتیں ہیں۔ فرانسیسی مسلمانوں کو معاشی، سماجی، صحت اور ماحولیاتی بحران کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کو اس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا ہے۔ فرانس کی حکومت سماجی ناانصافیوں کو بڑھا رہی ہے جس کا نشانہ محض مسلمان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک فرانسیسی صدر معاشرے کے ایک گروپ کو بند گلی میں دھکیل رہے ہیں اور دوسری طرف امیروں کو مزید امیر بنایا جا رہا ہے۔ صدر ایمانویل میکرون فرانسیسی معاشرے میں ناانصافیوں کا ایک نیا نظام لا رہے ہیں۔ مسلمان ان کی لبرل اور نسل پرست پالیسیوں کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے کیونکہ اس سے فرانسیسی معاشرے میں مساویانہ حقوق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب مسلمانوں کی کوشش ہے کہ اگلے سال کے صدارتی انتخاب میں فیصلہ کن کردار ادا کریں اور ایمانویل میکرون سے نہ صرف فرانس کے مسلمانوں بلکہ دیگر قومیتوں کے لوگوں کی جان بھی چھڑوائیں۔
احتجاجی مظاہرے میں شامل اسماعیل حیدری نے کہا کہ مسلمان گذشتہ دس سال سے حکومت کی اسلام اور مسلمان دشمنی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسلام مخالف قانون مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھیننے کے مترادف ہے۔ جو مسلمان خواتین اسکارف پہنتی ہیں ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔