turky-urdu-logo

مولانا فضل الرحمان کا دورہ افغانستان اپنی نوعیت میں مختلف کیوں؟

رپورٹ: شبیراحمد

دسمبر 2023 کو پاکستان میں افغان سفیر سردار احمد شکیب نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو دورہ افغانستان کی دعوت دی تھی۔اس وقت مولانا فضل الرحمان نے دعوت قبول کرتے ہوئے جلد ہی کابل پہنچنے کی حامی بھرلی تھی۔ توقع کی جارہی تھی کہ الیکشن کے پیش نظر مولانا فضل الرحمان اس دورے کو ملتوی کرسکتے ہیں۔ تاہم، غیر متوقع طور پر انہوں نے اتوار کے روز وفد کے ہمراہ افغانستان جانے کا اعلان کیا۔

ذاتی طور پر پہنچنے سے پہلے مولانا فضل الرحمان نے وفد کے کچھ افراد کو پہلے کابل بھیجا جہاں انہوں نے ملاقاتوں کے حوالے سے تیاریاں مکمل کیں۔ 6 جنوری کو اتوار کے روز مولانا فضل الرحمان افغان سفیر، کابل میں پاکستانی ناظم الامور عبیدالرحمان نظامانی اور دیگر علماء سمیت اسلام آباد ایئرپورٹ سے خصوصی پرواز میں شام کے وقت کابل پہنچے۔ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ دوسری اہم شخصیت چارسدہ سے شیخ محمد ادریس کی تھی جو بیشتر افغان طالبان کے لیے استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔

کابل پہنچنے پر مولانا فضل الرحمان کا شاندار استقبال کیا گیا۔خصوصی پروٹوکول کے ساتھ وہ دارالحکومت کابل میں قائم افغان صدارتی محل ارگ پہنچے۔ وہاں انہوں نےکابینہ ارکان اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی موجودگی میں نائب وزیر اعظم برائے سیاسی امور مولوی عبدالکبیر سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات کے بعد امیر خان متقی نےکہا کہ وفد کے حجم کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان پاکستان کی طرف سے امارت اسلامیہ کے قائدین کے لیے اہم پیغام لے کر آئے ہوں گے ۔ عین اسی لمحے پاکستان میں خبریں موصول ہونا شروع ہوئی کہ ماموند ضلع باجوڑ میں پولیس گاڑی پر حملے کے نتیجے میں 7 اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ بعدازاں ، اس حملے کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کرلی۔

8 جنوری کو مولانا فضل الرحمان نے وفد کے ہمراہ وزیر اعظم افغانستان ملا محمد حسن اخوند سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں کسی خاص موضوع پرانفرادی طور پر بات چیت نہیں کی گئی۔البتہ، اجتماعی مسائل کو تفصیل سے زیر بحث لایا گیا۔9 جنوری منگل کا روز قدرے خاموش گزرا۔اس خاموشی کی وجہ سے یہ تاثر پھیلنا شروع ہوگیا کہ امارت اسلامی کے سپریم لیڈر ہبت اللہ آخوندزادہ نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات سے معذرت کرلی ہے۔ اسی روز رات کے وقت کابل میں افغان سفارتخانے نے وفد کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا۔ یہ وفد کی دن بھر کی بظاہر واحد سرگرمی تھی۔ خاموش دن کو دیکھتے ہوئے ہم نے کابل میں موجود ذرائع سے پوچھا تو انہوں نے مولانا فضل الرحمان اور ہبت اللہ آخوندزادہ کے درمیان ملاقات کا امکان ظاہر کیا۔

10 جنوری کو بدھ کے روز شیخ ہبت اللہ آخوندزادہ سے ملاقات کے لیے مولانا فضل الرحمان کو قندہار جانا پڑا۔ قندہار میں انہوں نےسپریم لیڈر سے ملاقات کی۔اس ملاقات میں کیا بات چیت ہوئی، یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا۔ لیکن رات گئے ایک ایسی خبر بھی آئی جس کی توقع کوئی بھی نہیں کر رہا تھا۔ خبر یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے چند رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کی کوئی تفصیل یا وضاحت بھی منظر عام پر نہیں آئی۔

مولانا فضل الرحمان اور مفتی تقی عثمانی کے دورے میں کیا فرق ہے؟

مولانا فضل الرحمان سے پہلے پاکستان سے بہت سارے لوگوں نے گزشتہ دو سالوں میں افغانستان کے دورے کیے۔ افغان طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں زبردست تیزی واقع ہوئی۔ سال 2022 اس لیے اہم تھا کہ پاکستان نے افغان طالبان کی ثالثی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مزاکرات شروع کیے۔ مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں علماء کا ایک وفد اسی سال جولائی کے مہینے میں افغانستان پہنچا۔ اسی طرح اکتوبر میں بیرسٹر سیف نے مذاکرات کی قیادت کی۔ تاہم، ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ رواں سال جنوری میں پشاور پولیس لائن پر بڑا حملہ ہوا تو وقت کی پی ڈی ایم حکومت نے بھی اس معاملے کو سنجیدہ لینے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے فروری میں اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف اور موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفیننٹ جنرل ندیم انجم نے کابل کا دورہ کیا اور افغان حکام سے ملاقاتیں کیں۔

یہ تمام دورے سرکاری طور پر کیے گئے جبکہ مولانا فضل الرحمان کا دورمکمل طور پر نجی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو جب دورے کی دعوت دی گئی تو اس وقت ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا تھاکہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر کوئی غور نہیں ہو رہا ۔مذاکرات فی الحال کوئی آپشن نہیں۔ پاکستان کا اس وقت اصولی موقف ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات کرے۔اس بیان سے ظاہرہوا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کا دورہ ذاتی ہوگا۔ تاہم، جمعرات کے روز ترجمان دفتر خارجہ نے ایک پھر واضح کیا کہ مولانا فضل الرحمان کو بحیثیتِ شہری، دفتر خارجہ میں بریفنگ دی گئی۔ پاکستان نے اس دورے کو اسپانسر کیا اور نہ کوئی مشورہ ہی دیا۔ مولانا فضل الرحمان اس دورے میں پاکستان کی نمائندگی نہیں کر رہے۔

تعلقات کی بہتری یا سیاسی مفاد؟

پاکستان میں اس وقت انتخابات سر پر ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کو الیکشن کمپین میں شدید خطرے کا سامناہے۔ گزشتہ سال کے آخر میں مولانا فضل الرحمان پر حملہ ہوا۔ یہ حملہ ڈیرہ اسماعیل خان میں انٹرچینج پر فائرنگ کے ذریعے ہوا، جس میں وہ محفوظ رہے۔ اس کے علاوہ جے یو آئی کے مقامی رہنماؤں پر قاتلانہ حملے جاری ہے۔اس سے پہلے حافظ حمد اللہ حملے کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے۔ انہی حالات نے مولانا فضل الرحمان کو الیکشن کمپین چھوڑ کر افغان طالبان کے ساتھ اپنے لیےبات چیت پر مجبور کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے جب سپریم لیڈر سے ملاقات کی تو صحافی سمیع یوسفزئی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اب اپنی بلٹ پروف گاڑی پر امیر المومنین کی تصویر لگاکر کم از کم خود کو ٹی ٹی پی کے حملوں سے بچا سکتے ہیں۔

دوسری جانب افغان میڈیا کے مطابق ترجمان امارت اسلامیہ ذبیح اللہ مجاہد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے، پاکستان اپنی سیکورٹی پر توجہ دے کر خود اسے حل کرے۔جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے اور امارت اسلامیہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔ترجمان دفتر خارجہ اور ترجمان امارت اسلامیہ کے بیانات اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ دونوں ممالک اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور کسی لچک کا امکان نظر نہیں آرہا۔

مولانا فضل الرحمان کے دورے کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

مولانا فضل الرحمان کے دورے سے متعلق جب ہم نے ترجمان امارت اسلامیہ ذبیح اللہ مجاہد سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان عوام کے درمیان ایک اسلامی رشتہ ہے۔ مولانا فضل الرحمان اسلامی تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے اس تعلق کو مزید مضبوط کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد میں مولانا فضل الرحمان کو سننے والے سرحد کی دونوں جانب موجود ہیں۔ لہذا، حکومتی سطح تو نہیں لیکن عوامی سطح پر وہ اس کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ مولانا نے 2013 میں حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں کردار سے معذرت کی تھی۔ مولانا فضل الرحمان نے خود کو اس کے لیے تیار کیا ہےلیکن اب بھی ان کا کردار محدود نظر آرہا ہے، کیونکہ طالبان اپنے نظریے کے مخالف کسی کی بات فی الحال ماننے کو تیار نہیں۔اس بات کا اندازہ ترجمان امارت اسلامیہ کے بیان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمان جمعہ کے روز اپنا دورہ ختم کریں گے، جس کے بعد یہ چھ روزہ طویل دورہ بن جائے گا ۔دورے کے بعد وہ انتخابی مہم کو بغیر کسی خطرے کےچلانے کے قابل ہوں گے یا نہیں؟ یہ عمل دورے کی کامیابی یا ناکامی کا اعلان کرے گا۔

Read Previous

غزہ:اسرائیلی فوج کا ایمبولینس پر حملہ،4 افراد شہید

Read Next

غزہ میں صحت کا نظام تباہ ہو چکا ہے،وزیر صحت

Leave a Reply