turky-urdu-logo

افغانستان سے ترک فوج کے انخلا کا عمل شروع، پہلی پرواز ترکی پہنچ گئی

ترک حکومت کے افغانستان  سے  فوجیں  واپس بلانے کے   اعلان کے بعد ٹرکش ایئر لائز  کی خصوصی پرواز کے ذریعے ترک فوج کا   پہلا دستہ ترکی پہنچ گیا ۔

ایئر لائن کی پریس ریلیز کے مطابق ٹرکش ایئر لائنز کا  خصوصی طیارہ افغانستان  سے ترک فوج  کا دستہ لے کر دارالحکومت انقرہ  پہنچا۔

کابل  میں حامد کرزئی ایئرپورٹ سے 345 ترک فوج  کے اہلکار پہلے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پہنچے وہاں سے انہیں ٹرکش ائیر لائز کے  طیارے میں ترکی لایا گیا۔

فوج کے مکمل انخلا کے لیے  استنبول سے دو مزید فلائٹس  جائیں گی البتہ ضرورت کے حساب سے پروازوں میں کمی اور زیادتی ہو سکتی ہے۔

اس سے قبل ترک صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کئی ماہ سے یہ کہہ رہی تھی کہ اگر درخواست کی گئی تو ایئرپورٹ پر موجودگی برقرار رکھ سکتی ہے۔

چنانچہ جب طالبان نے کنٹرول سنبھالا اس کے بعد بھی ترکی نے ایئرپورٹ پر تکنیکی اور سیکیورٹی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔

منگل کے روز امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد انقرہ، کابل میں قدم جمانے کی امید کر رہا تھا لیکن طالبان کے تیزی سے کابل پر قبضے کے بعد وہ منصوبے انتشار کا شکار ہوگئے اور امریکا کے ساتھ اس کے ہنگامہ خیز تعلقات میں فائدہ اٹھانے کا ایک ایم موقع ختم ہوگیا۔

ایک بیان میں ترک وزارت دفاع نے کہا کہ ’ترک مسلح افواج اس فخر کے ساتھ اپنی سرزمین پر واپس آرہی ہیں کہ جس ذمہ داری کے لیے ان پر بھروسہ کیا گیا وہ انہوں نے کامیابی سے نبھائی‘۔

ترکی کے 500 سے زائد غیر جنگی فوجی افغانستان میں تعینات تھے جو کہ جنگ زدہ ملک میں نیٹو کے مشن کا حصہ تھے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ انقرہ، طالبان رہنماؤں کے ساتھ رابطے کے راستے کھلے رکھ کر اب بھی افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کا استحکام اہم ہے‘۔

ترک وزارت دفاع نے بھی کابل میں سیکیورٹی میں کردار ادا کرنے کا آپشن رکھ کر کہا کہ ’ترکی اس مقصد کے لیے افغانستان میں تمام فریقین کے ساتھ قریبی بات چیت جاری رکھے گا‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ترکی اس وقت تک افغان عوام کے ساتھ رہے گا جب تک وہ چاہیں گے، ساتھ ہی ذکر کیا گیا کہ اس کے فوجی گزشتہ 6 برسوں سے ایئرپورٹ پر تعینات تھے۔

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے مشروط درخواست نے انقرہ کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا تھا کہ کیا یہ خطرناک ذمہ داری قبول کی جائے یا نہیں۔

ایک سینیئر ترک عہدیدار نے کہا کہ ’طالبان نے کابل ایئرپورٹ چلانے کے لیے تکینیکی معاونت فراہم کرنے کی درخواست کی تھی تاہم طالبان کی جانب سے تمام ترک فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کسی ممکنہ مشن کو پیچیدہ بنا دے گا۔

شناخت پوشیدہ رکھنے کی درخواست پر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’ ترک مسلح افواج کی موجودگی کے بغیر ورکرز کی سیکیورٹی یقینی بنانا ایک خطرناک کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر طالبان کے ساتھ بات چیت جاری تھی کہ اس دوران فوجوں کی واپسی کی تیاریاں مکمل ہوگئیں۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ اگر فوجی سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے موجود نہ ہوں تو کیا ترکی تکنیکی معاونت فراہم کرنے پر رضامند ہوگا۔

Read Previous

لوٹی گئی 33 لاکھ ڈالر مالیت کی نوادرات امریکہ نے پاکستان کو واپس کردی

Read Next

افغانستان سے انخلا میں تعاون پر پاکستان کے شکر گزار ہیں، یورپی یونین

Leave a Reply