
تحریر : زاہد علی خان
ایمی نونو استنبول کے مرکزی مقام پر اے کے پارٹی کے ورکرز عوام کو چائے پیش کر رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ طیب ایردوان نے اپنے اکیس سالہ دور اقتدار میں ترکش عوام کا معیار زندگی بلند کرنے اور انہیں آرام و آسائش پہنچانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور کوئی وجہ نہیں کہ وہ آج کا الیکشن نا جیتیں۔
گزشتہ مہینے ایردوان نے پورے ترکیہ کے ایک سال کے گیس بلز فری کر دیئےہیں۔ ابھی دو روز پہلے ہی پینتالیس فی صد تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے جس سے کم از کم تنخواہ 15 ہزار لیرا ہو جائے گی جو پاکستانی سوا 2 لاکھ روپے بنتی ہے۔ زلزلہ زدہ علاقوں میں انسانی زندگی کی بحالی کا کام جس قدر تیز رفتاری سے کیا گیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔
ظاہر ہے اس کی یہ مقبولیت عالمی اسٹیبلشمنٹ کو کسی طور قبول نہیں وہ اسے ہرانے کے ہر حربے کو استعمال کر رہے ہیں میرے مشاہدے کے مطابق طیب ایردوان واضح اکثریت سے جیت رہے ہیں لیکن انٹر نیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا نے یہ تاثر پیدا کر دیا ہے کہ مقابلہ بہت سخت ہو گا اور یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ الیکشن نتائج کے بعد انہیں تسلیم نا کرتے ہوئے ملک گیر احتجاج شروع کیا جائے اور پاکستان جیسی صورت حال پیدا کی جائے۔
ملک کے تین شہروں ، ازمیر، انقرہ اور استنبول میں تو کہہ سکتے ہیں کہ مقابلہ بہت سخت ہو گا لیکن ملک کے باقی تمام حصوں میں اے کے پارٹی بہت مقبول ہے۔
مہنگائی اور مسلم ممالک سے مہاجرین کی ترکیہ آمد اور انہیں ترکش شہریت دینے کی پالیسی نے ایردوان کے خلاف ایک فضا بنائی ہے لیکن اس کی اکثریت اب بھی قائم ہے۔
بلاشبہ ترکیہ ایک بڑا معاشی ملک بننے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن اس وقت اس کی معیشت آتش فشان کے دھانے پر کھڑی ہے ان الیکشنز کے نتائج نا صرف ملک کی معیشت کا رخ متعین کریں گے بلکہ خطے کی سیاسی صورت حال بھی ایک نیا رخ اختیار کر لے گی۔ یا تو یہ خطہ امریکی تسلط میں چلا جائے گا یا پھر ترکی روس ، چین اور ایران کا ایک مضبوط بلاک طاقت کا توازن درست کر دے گا۔ امریکی تسلط کے نتیجے میں پورا عالم اسلام ایک نئے خطرے کی زد میں ہو گا اور اس کا پہلا نشانہ ایران بنے گا۔ پاکستان پہلے ہی امریکہ تسلط میں ہے آپ تصور کر سکتے ہیں کہ صورت حال کیا ہو گی۔