ڈھاکہ یونیورسٹی میں طویل عرصے کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی سینٹرل اسٹوڈنٹس یونین (ڈکسو/DUCSU) کے انتخابات منعقد ہوئے، جن میں اسلامی چھاترا شیبر کے حمایت یافتہ اتحاد نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے کلین سویپ کر لیا۔
اس جیت نے پورے ملک میں نئی بحث چھیڑ دی ہے، جبکہ بھارتی میڈیا نے اس پیش رفت کو بھارت کے لیے تشویشناک قرار دیا ہے۔ان انتخابات میں ڈکسو کی کل 28 نشستوں پر مقابلہ ہوا، جن میں نائب صدر، جنرل سیکرٹری، اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری، بارہ سیکرٹریز اور دیگر اہم عہدے شامل تھے۔ نتیجے میں اسلامی چھاترا شیبر کے امیدواروں نے 23 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جبکہ دیگر طلبہ تنظیمیں خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکیں۔
کامیاب ہونے والوں میں نائب صدر کے طور پر محمد ابو شادک (شادک قائم)، جنرل سیکرٹری کے طور پر ایس۔ ایم۔ فرہاد، اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری کے طور پر محمد محی الدین خان، جنگِ آزادی و جمہوری تحریک امور کے سیکرٹری کے طور پر فاطمہ تسنیم جھوما، سائنس و ٹیکنالوجی سیکرٹری کے طور پر اقبال حیدر، کامن روم، ریڈنگ روم و کیفے ٹیریا سیکرٹری کے طور پر ام سلمیٰ اور بین الاقوامی امور کے سیکرٹری کے طور پر جاسم الدین خان شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی زیادہ تر سیکرٹریز کی نشستیں اسی اتحاد نے اپنے نام کیں۔اس تاریخی کامیابی پر مختلف حلقوں سے ردعمل سامنے آیا ہے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کو ہمیشہ سیاسی بیداری اور سیکولر سوچ کا مرکز سمجھا جاتا رہا ہے، مگر اس بار اسلامی رجحان رکھنے والے گروپ (جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم )کی غیر معمولی جیت نے ملکی سیاست پر بھی اثر ڈال دیا ہے۔
بھارتی میڈیا نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں مذہبی رجحان رکھنے والی طلبہ تنظیم کی اس کامیابی کے خطے پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

