turky-urdu-logo

متقی کی دہلی میں پریس کانفرنس — بامیان کے بدھا، افغان قوم پرستی کی نئی سمت

افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کی نئی دہلی میں پریس کانفرنس محض ایک سفارتی اظہار نہیں تھی بلکہ اس نے افغانستان کی خارجہ پالیسی، ثقافتی شناخت، اور تاریخی بیانیے میں ایک نئی سمت کی نشاندہی کی ہے۔ اس موقع پر پس منظر میں بامیان کے بدھا مجسموں کی تصویر اور افغانستان کی "پانچ ہزار سالہ تاریخ” کا حوالہ ایک سوچے سمجھے سیاسی پیغام کا حصہ تھا — جو افغان قوم پرستی کے احیاء اور بھارت کے ساتھ قربت بڑھانے کی واضح علامت ہے۔

یہ عمل دراصل طالبان کی اس نئی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے، جو مذہبی بنیادوں کے بجائے افغانستان کو تاریخی و ثقافتی شناخت کے ذریعے عالمی سطح پر پیش کرنا چاہتی ہے۔2001ء میں طالبان کے ہاتھوں تباہ کیے گئے بامیان کے بدھا مجسموں کی تصویر کو پریس کانفرنس کے پس منظر میں رکھ کر ایک دوہرا پیغام دیا گیا۔ ایک جانب عالمی برادری کو بتایا گیا کہ افغانستان اپنی تاریخی جڑوں اور قبل از اسلام ورثے سے تعلق کو ازسرِنو استوار کرنا چاہتا ہے، جبکہ دوسری جانب ہندوستان کے ساتھ افغانستان کے اس مشترکہ بدھ مت ورثے کو نمایاں کیا گیا، جو دونوں ممالک کے درمیان ایک تاریخی ربط کا اظہار ہے۔

اسی طرح متقی کی گفتگو میں "پانچ ہزار سالہ تاریخ” کا ذکر محض لفاظی نہیں، بلکہ ایک نئے قومی بیانیے کی بنیاد ہے۔ طالبان کی موجودہ حکومت اب اپنی شناخت کو محض چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ تک محدود رکھنے کے بجائے افغان قوم پرستی کے ایک وسیع تر دائرے میں پیش کر رہی ہے، جس میں اسے آریائی، بدھ مت، اور بت پرستی جیسے تاریخی ادوار کو بھی شامل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔یہ پورا بیانیہ دراصل افغان قوم پرستی کو مذہبی وابستگی سے ہٹا کر ایک "تہذیبی و قومی وحدت” کے تصور میں ڈھالنے کی کوشش ہے۔اسی تناظر میں، دہلی میں پریس کانفرنس میں بدھا مجسموں کی علامت کا استعمال اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ طالبان حکومت بھارت کو ایک تاریخی پارٹنر کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔

یہ سفارتی اشارہ نہ صرف نئی دہلی کے لیے خوش آئند ہے بلکہ پاکستان کے لیے ایک نئے چیلنج کی صورت میں دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ ماضی میں اسلام اور برادرانہ تعلقات کی بنیاد پر قائم پاک–افغان رشتے اب "قوم پرستی اور تہذیبی خودمختاری” کے زاویے سے ازسرِنو ترتیب پاتے دکھائی دے رہے ہیں۔امیر خان متقی کی تقریر کا سب سے نمایاں پہلو اسلامی تاریخ کے ذکر سے گریز تھا۔ یہ خاموشی اتفاقی نہیں تھی — بلکہ ایک سوچا سمجھا سیاسی رویّہ تھا، جس کے ذریعے افغان حکومت نے اسلام کی بنیاد پر استوار ماضی کے علاقائی تعلقات سے خود کو الگ ظاہر کرنے کی کوشش کی۔یہ پریس کانفرنس صرف ایک سفارتی تقریب نہیں بلکہ ایک بیانیاتی موڑ تھی، جس کے ذریعے کابل نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنی شناخت، تاریخ اور تعلقات کو ازسرِنو متعین کر رہا ہے — اور اب اسے ایک اسلامی حکومت کے بجائے ایک افغان قوم پرست حکومت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

تحریر: مہتاب_عزیز

Read Previous

صدر ایردوان: "ترکیہ اب خود پر اعتماد رکھنے والا، اپنی بات کی اہمیت رکھنے والا اور دنیا کی رہنمائی کرنے والا ملک بن چکا ہے”

Read Next

ٹکا کی کنٹری ڈائریکٹر صالحہ تُونا کی یونیسکو پاکستان کے نئے نمائندے فواد پاشایف سے ملاقات — تعلیم، ثقافت اور پائیدار ترقی کے فروغ پر اتفاق

Leave a Reply