
تحریر: ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ
پرانے برصہ شہر میں عثمان غازی کے مزار اور برصہ قلعہ کی باقی ماندہ فصیل سے چند سو میڑ دور نیچے وادی میں ایک بہت بڑی مسجد ہے جو دور سے دیکھنے پر ایک بڑے پرانے ہال کی مانند لگتی ہے
ایک ایسا ہال جس کی چھت پر بہت سارے گنبد ہوں اور ایک طرف دو مینار بنے ہوں
لیکن جیسے ہی آپ مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں تو آنکھیں چند یا جاتی ہیں انسان مسحور سا ہو کر رہ جاتا ہے
اپنی خوبصورتی ، اپنی منفرد طرز تعمیر، اپنی تاریخ، رنگوں کی آمیزش ، انتہائی خوبصورت نقاشی اور کیلیگرافی کی بدولت بلا شبہ یہ ترکی کی سب سے بہترین اور خوبصورت مسجد ہے
اسے چھ سو سال بعد بھی برصہ کی سب بڑی اور شاندار مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے یہ برصہ شہر کے ماتھے کا جھومر ہے
اس مسجد کے بیس گنبد اور دو مینار ہیں
دوسری ترک مسجدوں کی نسبت اس کا وضو خانہ مرکزی ہال کے عین وسط میں ایک تالاب کی صورت میں ہے جس کے درمیان ایک نہایت خوبصورت فوارہ نصب ہے
یہ مسجد یو نیسکو کی ورلڈ ہیرٹیج لسٹ world
Heritage میں شامل ہے
یہ دنیا کی پانچویں مقدس ترین مسجد شمار ہوتی ہے
چوتھے نمبر پر دمشق کی اموی مسجد ہے جس کے مشرقی مینار سے حضرت عیسی نیچے تشریف لائیں گے
تیسرے نمبر پر مسجد اقصی ہےجو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے
دوسرے نمبر پر مسجد نبوی صلعم ہے اور پہلے نمبر پر خانہ کعبہ ہے
اسے 1396ء میں چوتھے عثمانی سلطان بایزید یلدرم نے نکو پولس کی جنگ میں فتح کی نشانی کے طور پر بنوایا تھا سلطان ایسی بیس مسجدیں بنوانا چاہتا تھا لیکن اس کی جنگی مصروفیات نے اسے مہلت نہ دی
نکو پولس Nicopolis کی جنگ دراصل آخری صلیبی جنگ تصور ہوتی ہے اس لئے اس کو
Crusade of Nicopolis
بھی کہتے ہیں ۔
نکو پولس Nicopolis دریائے ڈینیوب River Danube کے کنارے ایک انتہائی مضبوط قلعہ اور سلطنت بلغاریہ کا صدر مقام تھا اس شہر کا موجودہ نام پری ویزا Preveza ہے اور یہ آجکل یونان میں شامل ہے
1393ء میں سلطان بایزید نے
نکو پولس فتح کیا جس کے بعد سلطنت بلغاریہ کا خاتمہ ہو گیاترک سارے مشرقی یورپ یا بلقان پر قابض ہو گئے اس پر پورے یورپ میں کہرام مچ گیا اور فرانس جرمنی ہنگری اور جنیوا کی عیسائی ریاستوں کو اپنی سلامتی خطرے میں نظر آنے لگی پوپ بونی فیس Boniface نے یورپ کا دورہ کیا اور عیسائی ریاستوں کو متحدہ طور پر ترکوں کا مقابلہ کرنے پر قائل کیا
چنانچہ سارے یورپ کی عیسائی ریاستیں ( جرمنی فرانس انگلینڈ ہنگری بلغاریہ ، جنیوا پولینڈ ، مالٹا ، سسلی ، کروشیا ویانا)
اکٹھی ہوکر عثمانی ترکوں پر چڑھ
دوڑ ھیں ان کا پروگرام یہ تھا کہ پہلے یورپ سے مسلمانوں کو نکال باہر کیا جائے پھر اہل قسطنطنیہ کو ترکوں سے نجات دلائی جائے اور آخر میں مشرق کی طرف یلغار کر کے فلسطین اور یروشلم کو آزاد کرایا جائے
اسی منصوبہ کے تحت ایک بہت بڑی متحدہ عیسائی فوج ( 130,000) نے 1396ء میں نکوپولس کا محاصرہ کر لیا
ان کا خیال تھا کہ اتنی بڑی فوج کا سن کر سلطان یورپ کی طرف آنے کی جرآت نہیں کرے گا اور اگر آ بھی گیا تو اسے آنے میں بہت وقت لگے گااور اس دوران وہ اہم یورپی مقبوضات پر قبضہ کرچکے ہوں گے
سلطان اس وقت قسطنطنیہ کا محاصرہ کئے بیٹھا تھا
وہ محاصرہ چھوڑ کر بجلی کی طرح مہینوں کا فاصلہ دنوں میں طے کرتا نکو پولس پہنچ گیا جس نے یورپی افواج کو حیران و پریشان کردیا
اس جنگ میں اتحادی افواج کو عبرتناک شکست ہوئی اور ان کے بیشتر کمانڈر یا تو پکڑے گئے میدان جنگ میں مارے گئے یا فرار ہوتے وقت دریا میں ڈوب گئے اور اس جنگ کے بعد اہل یورپ کی مزاحمت دم توڑ گئی کیو نکہ وہ دوبارہ کبھی اتنی بڑی تعداد میں اکٹھے نہ ہوسکے
بلقان ( مشرقی یورپ) پر ترکوں کے قبضے کی مہر ثبت ہوگئی پھر یہ قبضہ 1922ء تک جاری رہا
اس جنگ میں فتح کے بعد سلطان بایزید کو بایزید یلدرم (بجلی)Bayezid the
Thunderbolt کہا جانے لگا
جرمنی کا شہنشاہ سیگیسموند جو اس جنگ میں صلیبیوں کی سپہ سالاری کر رہا تھا اس نے ہوسپٹلرز کے ماسٹر کو لکھا تھا کہ Sigismund would later state to the Hospitaller Master, "We lost the day by the pride and vanity of these French. If they believed my advice, we had enough men to fight our enemies.”
بایذید یلدرم 1354ء میں تیسرے عثمانی سلطان مراد اوّل کے ہاں ادرنہ Edirne میں پیدا ہوا 1389 ء میں کسووو Kosovo کی جنگ کے دوران سلطان مراد زخمی ہوا اور بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فتح کے چند روز بعد شہید ہوگیا
اسے برصہ میں لا کر دفنایا گیا اور اس کا بیٹا بایزید اوّل یا بایزید یلدرم چوتھا عثمانی سلطان بنا اس نے تیرہ سال حکومت کی ان تیرہ سالوں میں اس نے آٹھ ملک اوردو سو سے زیادہ شہر فتح کئے
بایزید انتہائی دلیر اور قابل جرنیل اور بہت پڑھا لکھا عالم فاضل سلطان تھا
اس نے اپنے دور کی سب سے بڑی جدید اور پروفیشنل فوج تیار کی
اس کے دور میں عثمانی سلطنت کی حدیں مشرق اور مغرب دونوں جانب بڑی تیزی سے بڑھیں مغربی تاریخ نگار اسے عثمانی سلاطین میں سب سے زیادہ قابل جرنیل مانتے ہیں اور اسے
Bayezid the Thunderbolt کا نام اصل میں مغربی تاریخ نگاروں نے ہی دیا
سلطان بایزید کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش قسطنطنیہ پر قبضہ تھی
اس نے چار بار قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا اور ہر بار قیصر روم ایمانوئل دوئم نے سلطان کے کسی نہ کسی مخالف سے ساز باز کرکے اسے محاصرہ ختم کرنے پر مجبور کر دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ میدان جنگ میں وہ ترکوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن سلطان بھی اپنی دھن کا پکا تھا وہ جب بھی ان بغاوتوں اور سورشوں سے فارغ ہوتا آ کر قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیتا
1401 ء میں سلطان نے چوتھی بار قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا جس کے دوران ایک مرتبہ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ بازنطینی حکمران شہر چھوڑ کر فرار ہو گیا اور قریب تھا کہ شہر مسلمان افواج کے ہاتھ آجاتا کہ بایزید کو مشرقی سرحدوں پر تیمور لنگ کے حملے کی خبر ملی جس پر اسے چاروناچار محاصرہ اٹھانا پڑا۔ اس بار تیمور لنگ اہل قسطنطنیہ کی مدد کو آیا اور عثمانی سلطنت کو تہہ و تیغ کرتا انقرہ (انگورہ )تک آ ن پہنچا اس نے سلطان کے بیٹے ارطغرل سمیت چار ہزار ترکوں کو مشکیں باندھ ایک بڑے گڑھے میں زندہ در گور کر دیا سلطان برافروختہ ہو کر قسطنطیہ کا محاصرہ چھوڑ کر بغیر تیاری کے تمام احتیاطی تدابیر نظر انداز کرتا انقرہ کی جانب بڑھا اور تیمور جیسے گرگ باراں دیدہ کے جال میں پھنس گیا بیس جولائی 1402ء میں انقرہ(انگورہ) کی اس مشہور جنگ میں سلطان کو شکست ہوئی اور وہ اپنے بیٹے مصطفی اور بیوی سمیت قیدی بن گیا
اور یوں وہ بہادر اور عظیم جرنیل جو زندگی میں ہمیشہ جیتا تھا ہر جنگ میں فاتح رہا تھا
پہلی مرتبہ ہار گیااور وہی ایک ہار اس کی تباہی کا سبب بن گئی ۔
تیمور سلطنت عثمانیہ کی اینٹ سے اینٹ بجاتا ہوا برصہ پہنچ گیا اس نے سارے شہر کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا ترکوں کو بے دریغ قتل کر کے ان کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کئے برصہ کو تہ و تیغ کرنے کے بعد وہ ازمیر تک گیا جہاں بحیرہ ایجئین Aegean Sea نے اس کا راستہ روک لیا ۔جس پر تیمور اپنے قیدی کے ساتھ سمرقند واپس لوٹ گیا
سطان اپنی اس ذلت آ میز شکست اور گرفتاری کو برداشت نہ کرسکا اور چند مہینوں کے بعد ہی مارچ 1403ء میں اسیری کی حالت میں انچاس سال کی عمر میں اپنے خدا سے جا ملا اسے برصہ لا کر دفنایا گیا
اور یوں تیمور لنگ کی اس بے وقت مہم جوئی نے قسطنطنیہ کی فتح کو اگلے پچاس سال کے لئے ٹال دیا کیونکہ سلطان یلدرم کی شکست اور موت کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ انتشار، خانہ جنگی اور افراتفری کا شکار ہوگئی سلطان کے چار بیٹوں کے درمیان اقتدار کی ایسی جنگ چھڑی جو گیارہ سال تک جاری رہی اور آخر کار سلطان کے تیسرے بیٹے محمد اوّل کی فتح پر ختم ہوئی
اس دور انتشار کا فائدہ صرف اور صرف اہل یورپ اور اہل قسطنطنیہ کو ہوااور انہیں اپنی صفیں ایک بار پھر استوار کرنے کا موقعہ مل گیا
دولت عثمانیہ کی چھ سوسالہ تاریخ میں وہ واحد سلطان تھا جو گرفتار ہونے کے بعد اتنی کسمپرسی کی حالت میں مرا
لیکن یہ بھی حقیقت ہےکہ اتنے مختصر دور حکومت میں کسی اور سلطان نے اتنی زیادہ فتوحات بھی حاصل نہیں کیں
یہاں یہ بات بڑی دلچسپ اور قابل غور ہے کہ انقرہ کی جنگ کے تین سال بعد جب تیمور لنگ کا انتقال ہوا تو صرف دو ہی سالوں میں اس کی قائم کردہ عظیم الشان تیموری سلطنت (جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی )کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا جبکہ عثمانی سلطنت گیارہ سال تک خانہ جنگی اور افراتفری کا شکار رہنے کے بعد نہ صرف مشکل سے نکل آئی بلکہ اس کا عروج کی طرف سفر بھی جاری رہا اور آئندہ پانچ سو سال تک قائم رہی
سلطان یلدرم اپنی بنائی ہوئی مسجد میں دفن نہیں ہے جب اس کی لاش کو سمرقند سے لایا گیا تو اسے مسجد اولیٰ میں دفن نہیں کیا گیا تھا ۔ اس کا مقبرہ کسی اور جگہ تھا۔
میں برصہ میں سلطان بایزید یلدرم کا مزار ڈھونڈتا رہا لیکن نہ ملا
اپنے برصہ میں قیام کے دوران آخری دن جب کرائے کی کار واپس کرنے نیلوفر ٹرانسپورٹ کے دفتر گیا اور کار واپس کر کے جیسے ہی باہر نکلا مجھے دفتر کی پشت پر ایک مقبرہ اور اس سے ملحقہ مسجد نظر آئی چند میٹر کا فاصلہ تھا
سوچا لگے ہاتھوں اس کا بھی دیدار کر لیا جائے جب وہاں پہنچا تو خوشی کی انتہا نہ رہی وہ سلطان بایزید یلدرم کا مقبرہ تھا جسے میں کئی دنوں سے ڈھونڈ رہا تھا منفرد طرز تعمیر کا مقبرہ اور اس سے ملحقہ مسجد اپنی
خو بصورتی میں اپنی مثال آپ ہے
میں سلطان بایزید یلدرم کے سرہانے کھڑا فاتحہ پڑھتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ اتنا شاندار انسان اور قابل جرنیل کسمپرسی کی حالت میں جس ذلت آمیز انجام سے دو چار ہوا ہرگز اس کا مستحق نہ تھا کاش اسے چند سال اور مل گئے ہوتے تو شائد آج یورپ کا نقشہ مختلف ہوتا
لیکن اللّٰہ کی مصلحتیں اللّہ ہی بہتر جانتا ہے اور بیشک وہی سب سے بڑا منصوبہ ساز
خیر الماکرین (master planer )ہے