turky-urdu-logo

لاپتہ افراد کے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا: چیف جسٹس آف پاکستان

چیف جسٹس آف  پاکستان، جسٹس  یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کے صحافیوں سے ملاقات کے دوران مختلف عدالتی امور پر گفتگو کی اور کئی اہم مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ،  مسنگ پرسنز کا مسئلہ ایک سنگین معاملہ ہے اور کوئٹہ کے دورے کے دوران بارہا اس مسئلے کی شکایات سننے کو ملیں، جس نے انہیں بے حد متاثر کیا۔ چیف جسٹس نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ،  لاپتہ افراد کے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا اور اس مسئلے پر توجہ دی جائے گی۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ،  سپریم کورٹ میں اصلاحات کے حوالے سے اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ عدالت میں مقدمہ دائر کرنے والے سائلین کا ای میل ایڈریس اور واٹس ایپ نمبر لیا جائے گا ،تاکہ انہیں ہر مرحلے پر عدالتی کارروائی اور احکامات سے باخبر رکھا جا سکے۔ مزید برآں، ارجنٹ درخواستوں کی سماعت کے لیے ایک مؤثر مکینزم بھی بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے  مزید بتایا کہ،  انتخابی عذر داریوں، فوجداری مقدمات، اور ٹیکس کیسز کے لیے خصوصی بینچز قائم کیے جا چکے ہیں۔ سپریم کورٹ میں روزانہ دو سے تین پرانے مقدمات کو بھی خصوصی بینچز کے ذریعے نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاکہ کیس مینجمنٹ کو بہتر بنایا جا سکے۔

چیف جسٹس نے اعلان کیا کہ ، مستحق سائلین کو ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں مفت وکیل فراہم کیا جائے گا۔ انہوں نے جیلوں کے دورے کے دوران قیدیوں کی جانب سے مقدمات کے فیصلے نہ ہونے کی شکایات پر افسوس کا اظہار کیا اور اس مسئلے کے حل کے لیے جلد اقدامات کرنے کا عندیہ دیا۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے تنازعے کے متبادل حل (ADR) کے نظام پر جسٹس منصور علی شاہ کے کام کو سراہا اور کہا کہ،  اے ڈی آر کا آغاز اسلام آباد سے کیا جائے گا اور بعد میں اسے دیگر اضلاع تک توسیع دی جائے گی،  اے ڈی آر کے ذریعے عدالتی بوجھ کم کرنے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔

چیف جسٹس نے اعتراف کیا کہ، گزشتہ تین سے چار سال عدلیہ کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوئے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ،  اب حالات بہتر ہو رہے ہیں اور عدلیہ ایک مشترکہ دانش کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ،  وہ اپنے ساتھی ججز کے ساتھ بھائیوں جیسا تعلق رکھتے ہیں اور تمام معاملات میں مشاورت کو فوقیت دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ،  سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کر دیا گیا ہے اور ججز کے خلاف شکایات پر کارروائی جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ، عدلیہ میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانا ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ،  ججز پر تنقید ہونی چاہیے لیکن یہ تعمیری ہونی چاہیے۔  سپریم کورٹ کا ہر جج آزاد ہے اور انہیں بریکٹ نہیں کیا جانا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ، عدلیہ کی سمت درست کرنے اور انصاف کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں ، تاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کیا جا سکے۔

Read Previous

کیا غیر آئینی اقدامات میں شامل ججز بھی آرٹیکل 6 کے دائرے میں آتے ہیں؟ سپریم کورٹ آف پاکستان

Read Next

لاس اینجلس آتشزدگی: 6 روز بعد صرف 11 فیصد قابو پایا جا سکا

Leave a Reply