
ماہرین کا کہنا ہے کہ ، موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ترکیہ کے روایتی کپاس پیدا کرنے والے علاقوں کو خطرات لاحق ہیں، جبکہ نئے علاقے کاشتکاری کے لیے موزوں بن سکتے ہیں۔ ازمیر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IYTE) کے پروفیسر سمی ڈوگانلر کے مطابق 2050 کی دہائی تک مارمارا اور بحیرہ اسود کے ساحلی علاقے کپاس کی پیداوار کے لیے زیادہ سازگار ہو سکتے ہیں۔
ترکیہ عالمی سطح پر ساتویں نمبر پر ہے، جبکہ ملک کے جنوبی مشرقی علاقے شانلی عرفہ 42 فیصد پیداوار کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ دیگر اہم علاقے دیار باکر 14.4 فیصد ، آئیڈن11.6 فیصد، ہاتائے8.8 فیصد ، ازمیر 5.5 فیصداور ادانہ 4.1 فیصد ہیں۔
پروفیسر ڈوگانلر کے مطابق بڑھتے درجہ حرارت، پانی کی کمی اور غیر متوقع موسم، جیسے شدید بارش یا خشک سالی، کپاس کی کاشت کے لیے سنگین خطرات ہیں، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے پیداوار میں کمی ہوتی ہے اور پانی کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے، بے قاعدہ بارشوں کے باعث بوائی متاثر ہوتی ہے، جس سے دوبارہ کاشت کی ضرورت پڑتی ہے اور پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ مزید بر آں، کپاس ایک پانی طلب فصل ہے اور خشک علاقوں میں اس کی کاشت سے پانی کے وسائل پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ ترکیہ میں سالانہ 3.68 بلین کیوبک میٹر پانی کپاس کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے۔
ڈوگانلر کا کہنا ہے کہ، مستقبل میں ایجیئن اور بحیرہ روم کے علاقوں میں پیداوار متاثر ہونے کے باعث مارمارا اور بحیرہ اسود کے ساحلی علاقے نئے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔ تاہم ان علاقوں میں بھی زیادہ بارشوں اور سیلاب کے خطرات موجود ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ، اگر موسمیاتی تبدیلی کی شدت میں اضافہ ہوتا رہا تو بعض موجودہ پیداوار کے علاقے مکمل طور پر ناقابل کاشت ہو سکتے ہیں۔
ڈوگانلر نے تجویز دی کہ، کپاس کی کاشت میں پائیدار زراعت کو فروغ دیا جائے، تجدید پذیر توانائی کا استعمال بڑھایا جائے اور فوسل فیول کے استعمال میں کمی لائی جائے ،تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔