turky-urdu-logo

اسلاموفوبیا اور یہود دشمنی؛ بونڈائی بیچ حملہ کس ایجنڈے کا حصہ؟؟؟

سڈنی کے معروف ساحلی علاقے بونڈائی بیچ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد دنیا بھر میں جو غیر معمولی کیفیت پیدا ہوئی ہے، وہ محض ایک واقعے تک محدود نہیں۔ یہ حملہ ایک ایسے عالمی ماحول میں ہوا ہے جہاں غزہ پر اسرائیلی جارحیت، فلسطینی عوام کی نسل کُشی، اور عالمی طاقتوں کی خاموشی نے انسانی ضمیر کو شدید آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اس فضا میں یہود دشمنی اور اسلاموفوبیا دونوں نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے، اور یوں نفرت کا ایک ایسا دائرہ قائم ہو گیا ہے جو نہ یہودیوں کو تحفظ دیتا ہے اور نہ مسلمانوں کو انصاف۔

14 دسمبر کو سڈنی کے بونڈائی بیچ کے قریب یہودی مذہبی تقریب کے دوران ہونے والے حملے میں 15 افراد جان سے گئے۔ یہ سانحہ فوری طور پر عالمی توجہ کا مرکز بنا، مگر افسوسناک پہلو یہ رہا کہ واقعے کے فوراً بعد بعض حلقوں نے اس حملے کو فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کی عالمی تحریک سے جوڑنے کی کوشش کی۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے آسٹریلوی حکومت پر الزام عائد کیا کہ فلسطینی ریاست کی حمایت نے “یہود دشمنی کو ہوا دی”۔ یہی وہ بیانیہ ہے جو دنیا بھر میں اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کو دانستہ طور پر یہود دشمنی میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔

یہ مؤقف نہ صرف فکری طور پر کمزور ہے بلکہ زمینی حقائق سے بھی متصادم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا کے سابق وزیراعظم میلکم ٹرنبل نے اسرائیلی حکومت کو دو ٹوک پیغام دیا کہ وہ آسٹریلیا کے داخلی سیاسی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات سڈنی کے ممتاز یہودی ربی بنجمن ایلٹن کا وہ جرات مندانہ بیان ہے جو انہوں نے اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ کی خصوصی کمیٹی سے خطاب میں دیا۔ ربی ایلٹن نے واضح کہا کہ “دور بیٹھے لوگ یہ طے نہیں کر سکتے کہ ہمارے مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہونا چاہیے۔”

ربی ایلٹن کا یہ بیان محض ایک سفارتی جملہ نہیں بلکہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ہر دہشت گرد حملے کو عالمی سیاسی ایجنڈے سے جوڑنا مسئلے کو حل نہیں بلکہ مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ وہ آسٹریلیا میں موجود یہودی اداروں، مقامی ربیوں اور کمیونٹی رہنماؤں پر اعتماد کرے، کیونکہ اصل مسئلے کی جڑ مقامی معاشرتی تناؤ اور نفرت انگیز زبان میں پوشیدہ ہے، نہ کہ کسی اور ملک کی خارجہ پالیسی میں۔

یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے:

کیا غزہ میں ہونے والی نسل کُشی پر آواز اٹھانا یہود دشمنی ہے؟

اسلامی اور انسانی نقطۂ نظر سے اس کا جواب واضح طور پر “نہیں” ہے۔

اسلام کسی ایک قوم یا مذہب کے خلاف نفرت کی اجازت نہیں دیتا۔ قرآن واضح طور پر حکم دیتا ہے کہ “کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف سے نہ روکے۔” غزہ میں بچوں، عورتوں اور بزرگوں پر بمباری کی مذمت کرنا ایک انسانی فریضہ ہے، نہ کہ یہود دشمنی۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں ریاستِ اسرائیل اپنی جارحانہ پالیسیوں کو مذہبی شناخت کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتی ہے، اور ہر تنقید کو یہودیوں کے خلاف نفرت قرار دے دیتی ہے۔

دوسری طرف، اسلاموفوبیا بھی اسی نفرت انگیز سیاست کا ایک نتیجہ ہے۔ بونڈائی بیچ حملے کے بعد سوشل میڈیا پر بغیر تحقیق کے مسلمانوں اور پاکستانیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک بے گناہ شخص کی تصویر وائرل ہوئی، جسے شدید دھمکیوں اور نفسیاتی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں یہ الزامات غلط ثابت ہوئے، مگر اسلاموفوبیا کا زہر اپنا اثر دکھا چکا تھا۔

تحقیقی رپورٹس کے مطابق، اکتوبر 2023 کے بعد یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح یہودی عبادت گاہوں اور اسکولوں کو بھی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ غزہ کی جنگ نے نفرت کے دونوں رخوں کو تقویت دی ہے، اور اصل فائدہ انتہا پسند نظریات کو پہنچا ہے۔

کنیسٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن رکن گیلاد کاریو کا بیان اس بحث میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے واضح کہا کہ اسرائیلی حکومت کو اپنی پالیسیوں پر ہونے والی ہر تنقید کو خودکار طور پر یہود دشمنی سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ ان کے مطابق، انتہا پسند اسرائیل مخالف زبان اور حقیقی یہود دشمنی کے درمیان فرق کرنا اب پہلے سے زیادہ ضروری ہو چکا ہے۔

یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسانی اور اسلامی موقف ایک دوسرے سے ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ اسلام نفرت کو نفرت سے جواب دینے کے بجائے عدل، صبر اور مکالمے کا درس دیتا ہے۔ نہ یہود دشمنی کسی مسئلے کا حل ہے، نہ اسلاموفوبیا۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں، اور کسی ایک کمیونٹی کو اجتماعی طور پر مجرم ٹھہرانا خود ایک اخلاقی جرم ہے۔

بونڈائی بیچ حملے میں جان گنوانے والے افراد کے اہلِ خانہ کا درد حقیقی ہے اور اس کا احترام لازم ہے۔ اسی طرح غزہ میں شہید ہونے والے ہزاروں بچوں کی چیخیں بھی حقیقی ہیں اور انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی ضمیر کا تقاضا ہے کہ ہم دونوں سانحات کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے، نفرت کے اس پورے نظام کو چیلنج کریں جو ان سانحات کو جنم دیتا ہے۔

آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر دنیا نے غزہ میں ہونے والی جارحیت، عالمی طاقتوں کی دوہری پالیسی، اور مذہبی نفرت کے بیانیے پر سنجیدگی سے غور نہ کیا تو بونڈائی بیچ جیسے واقعات رکیں گے نہیں۔ امن کا راستہ الزام تراشی سے نہیں، بلکہ انصاف، سچائی اور انسانیت کی مشترکہ اقدار سے ہو کر گزرتا ہے — اور یہی اسلام کا بنیادی پیغام بھی ہے۔

Read Previous

پاکستان، ترکیہ اور آذر بائیجان !

Read Next

صدر ایردوان نے میلگیم کارویٹ پی این ایس خیبر پاکستان نیوی کے حوالے کر دیا

Leave a Reply