turky-urdu-logo

مولانا جلال الدین رومی کا تصور یزداں( تصورِ خدا)

قدیم تاریخِ انسانی سے لے کر دورِ جدید  کے انسان تک  ذاتِ الہی کی کھوج لگانے  اور اُس   کو ایک  مجسم انداز میں دیکھنے کی انسانی خؤاہش نے اس موضوع کو بہت گنجلک  اور پچیدہ بنا رکھا ہے جس سے ذاتِ الہی کا نظارہ کرنا  تو درکنار اس    کے وجود  ی نشان  تک رسائی بھی مشکل  ہو جاتی ہے۔ذات حقیقی کی ٹوہ  لگانے   میں انسان  قدیم جدید نے  بہت پاپڑ بیلے لیکن صحیح راستے  اور درست رہنمائی کے فقدان نے   انسان کو اپنے  مرکز  کے قریب  ہونے بجائے اُسے اور دور کردیا۔ مولانا  رومی یہ چند اشعار پڑھ کر ایک  ذاتِ الہی کا  سیاح  نہ صرف اپنی سمت درست کر سکتا ہے بلکہ اپنی منزل پر پہنچنے  کا تعین بھی کر سکتا ہے۔

دست پنہاں و قلم بیں خط گذار

قلم لکھ رہا ہے ، لیکن ہاتھ چھپا ہو ا ہے

اسپ در جولان و ناپیدا سوار

سوار کا پتہ نہیں ، لیکن گھوڑا دوڑ رہا ہے

پس یقین در عقل ہر دانندہ ست

ہر سمجھ دار یہ یقین رکھتا ہے کہ

اینکہ یا  جنبیدہ  جینا نندہ است

جو چیز حرکت کرتی ہے اس کا کوئی حرکت دینے ولا ضرور ہوتا ہے

گر توآں رامے نہ بینی در نظر

اگر تم اس کو آنکھوں سے نہیں  دیکھتے

فہم کن اما بہ اظہار اثر

اس کے اثر  کو دیکھ کر سمجھو

تن بہ جاں جنبد نہ می بینی تو جاں

بدن جو حرکت  کرتا ہے  جان  کی وجہ سے کرتا ہے

لیک از جنبیدن تن جاں بداں

تم جان کو نہیں جان سکتے،تو بدن کی حرکت   سے تو جان کو جانو

مولانا  رومی نے خدائے ذوالجلال کی ذات کے اثبات  کے لیے کتتا خوبصورت تصور دیا ہے کہ ایک انسان  کتنی آسانی سے  خدائے واحد  کو  پہچان سکتا ہے۔مولانا  رومی نے خدائے  واحد کے اثبات کے مختلف طریقے بتائے ہیں ۔ جن میں سے پہلا  طریقہ یہ  ہے کہ آثار سے موثر پر استدلال کیا  جائے۔ یہ طریقہ خطابی ہے اور عوام کے یہی طریقہ سب سے بہتر ہے۔ یہ صاف نظر آتا ہے کہ  یہ  کائنات ایک عظیم الشان کل ہے جس کے پُرزے رات دن حرکت میں ہیں، زمین نباتات  اُگا رہی ہے، درخت جھوم رہے ہیں، دریا بہ رہے ہیں، پہاڑ آتش فشاں ہیں، ہوا جنبش میں ہے۔ یہ دیکھ کر انسان کو خؤد بخود خیال آتا ہے کہ کوئی پُر زور ہاتھ ہے جو ان تمام پُرزوں کو چلا رہا ہے۔

دوسرا طریقہ جو  مولانا  رومی کا خاص طریقہ ہے  یہ  سلسلہ کائنات کی ترتیب  اور  خواص کے سمجھنے  پر موقوف ہے۔ جیسے 

کائنات میں دو قسم کی چیزیں پائی جاتی ہیں، مادی  مثلا   پتھر۔ درخت وغیرہ ۔ غیر مادی  چیزیں مثلا تصور ، خیال  اور وہم وغیرہ۔ مادیات کے   مدارج ہوتے ہیں ،بعض  مادیت کی کثافت زیادہ ہوتی ہے، بعض کی کم، بوض میں اس سے بھی کم، یہاں تک کہ  رفتہ  رفتہ غیر مادی کی حد سے مل جاتا ہے۔ مثلا بعض  حکما کے نذدیک خؤد خیال اور وہم بھی مادی ہیں ، کیونکہ وہ مادہ یعنی دماغ سے پیدا ہوئے ہیں، لیکن مادہ کے خواس ان میں با لکل نہیں پائے جاتے ۔  جیسے مولانا رومی کہتےہیں۔

صورت دیوار و سقفِ ہر مکاں

دیوار اور چھت کی صورت

  سایہ اندیشہ معمار داں

معمار کے خیال کا سایہ ہے

صورت از بے صورت آید در وجود

ہمچناں کز آتشے زاداست دود

صورت جس چیز سے پیدا  ہوتی ہے اس کی خاص صورت نہیں  ہوتی،

جس  طرح آگ سے دھواں

اسی طرح  آگے چل کر مولانا  رومی ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں کہ اشیا میں ترتیب مدارج اس طرح ہے کہ جو چیز جس قدر زیادہ اشرف اور برتر  ہے ، وہ اسی قدر زیادہ  مخفی  اور غیر محسوس ہے ۔ مثلا   انسان میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں جسم ، جان، عقل۔  جسم جو ان سب میں کم رتبہ ہے علانیہ محسوس ہوتا ہے، جان اس سے افضل ہے ، اس لیے مخفی ہے لیکن بہ آسانی اس کا علم ہو سکتا ہے، مثلا جب ہم جسم کو متحرک  ( بہ ارادہ ) دیکھتے ہیں ،تو فورا یقین ہو جاتا ہے کہ  اس میں جان ہے ، لیکن عقل کے ثبوت کے لیے صعف اسی قدر کافی نہیں بلکہ جب جسم میں موزوں اور منظم حرکت پائی  جائے، تب یقیں  ہو گا کہ اس میں عقل بھی ہے۔ مجنوں آدمی کی حرکات  سے  اس قدر ضرور ثابت  ہوتا ہے  کہ وہ زندہ ہے اور اس میں جان ہے لیکن چونکہ یہ حرکتیں  موزوں اور باقاعدہ نہیں ہوتیں، اس لیے اس سے         عقل کا اثبات نہیں ہوتا ۔ غرض جاں جس طرح جسم  کے اعتبار  سے مخفی ہے ،اسی طرح عقل اس سے بھی مخفی ہے۔

جسم ظاہر روح مخفی آمدہ است

جسم ظاہر اور روح پوشیدہ ہے

جسم ہمچوں آستیں جاں ہمچو دست

جسم گویا آستیں ہے اور جان گویا ہاتھ ہے

اسلام میں اختلاف ِ مذہبی کی جو بنیاد پڑی ، جس نے بڑھتے بڑھتے  اسلام کا تمام شیرازہ منتشر کر دیا وہ  اسہ مسئلہ کی بدولت تھا۔ اس مسئلہ  پر لوگوں قلم کی بجائے  تلوار سے کام لیا ۔ ہزاروں آدمی اس جرم میں قتل ہوئے کہ وہ کلام الہی کو قدیم کہتے تھے۔ ان لوگوں کا استیصال بھی ہوا جو جہ کہتے تھے کہ خدا عرش پر جاگزیں ہے۔ یہ اختلافات ایک مدت تک قائم رہے اور آج بھی ہیں ، گو عملی  صورت میں اس کا  ظہور نہیں۔ مولانا  نے ان نزاعوں کا فیصلہ کیا کہ بحث سرے سے فضول ہے ۔ خدا کی نسبت  صرف  اس قدر معلوم ہو سکتا ہے کہ ہے، باقی یہ کہ کیسا ہے، کہاں ہے، اس کے کیا اوصاف ہیں؟ یہ ادراک ِ انسانی سے با لکل باہر ہے۔مولانا اس سلسلے میں لکھتے ہیں  ۔ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک چرواہے کو دیکھا کہ وہ خدا  سے مخاطب ہو کر کہ رہا   ہے کہ اے خدا تو کہاں ہے؟ تو مجھ کو ملتا  تو میں تیرے بالوں میں کنگھی کرتا ، تیرے کپڑوں سے جوئیں نکالتا، تجھ کو مزے مزے کے کھانے کھلاتا ۔ حضرت موسی ٰ  علیہ السلام نے اس کو سزا  دینی چاہی، وہ بے چارہ بھاگ گیا ۔ حضرت موسیٰ پر وحی  آئی۔

وحی آمد سوئے موسیٰ از خدا

بندہ  مارا چرا کردی جدا

تو برائے وصل کردن آمدی

یو ب رائے فصل کردن آمدی

اس سلسلے میں مولانا نے ایک اور حکایے لکھی ہے  کہ چار شخص ہم صحبت تھے۔ ان میں سے ایک رومی تھا، ایک عرب تھا، ایک تُرک تھا اور ایک ایرانی تھا۔ ان لوگوں کو کسی نے ایک روپیہ دیا ۔ ایرانی نے کہا  کہ اس سے انگور خریدنا چاہیے۔ عرب نے کہا  نہیں اس سے عنب ،  ترک نے کہا  نہیں اس سے اُوزم  خریدنا چاہیے جبکہ  رومی نے کہا نہیں بلکہ اس سے استا قیل  خریدنے چاہیں۔ اس اختلاف پر آپس میں تُو تُو میں میں  شروع ہو کر زدو کوب کی نوبت پہنچی۔ مولنا یہ حکایت لکھ کر کہتے ہیں  کہ اگر اس موقع پر چاروں کا زبان دان ماجود ہوتا تو وہ اس جھگڑے کو فورا رفع کر دیتا  کہ انگور لاکر ان کے سامنے رکھ دیتا ، سب راضی ہو جاتے، کیونکہ سب کے سب اپنی  زبانوں میں انگور کے لیے ہی تقاضا کر رہے تھے۔ خدا کے متعلق تمام فرقوں میں جو اختلاف ہے اس کی بھی یہی کیفیت ہے، گو الفاظ ، لغات ، طریقہ ادا  اور طرز تعبیر مختلف ہے لیکن سب کی مراد خدا ہی ہے اور سب اس کو مختلف ناموں  سے یاد کرتے ہیں۔ مولان کی اصل تعلیم یہ ہے کہ خدا کی ذات و صفات کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہیے اور جو کچھ کہا جائے گا وہ خدا کے اوصاف نہ ہوں گے کیونکہ انسان جو کچھ تصور کر سکتا ہے ، محسوسات کے ذریعے کر سکتا ہے ، اور خدا اس با لکل بری ہے۔

ہر چہ اندیشی  پزیر اے فنا است

وانکہ در اندیشہ ناید آں خداست

Read Previous

دوسری ترکیہ ٹیکسٹائل بینالے کا انعقاد: فن، ورثہ اور پائیداری کا خوبصورت شاہکار

Read Next

امریكہ كا اسرائیل كو 3 ارب ڈالر كا اسلحہ دینے كی منظوری

Leave a Reply