
وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ ترکیہ کے جنوبی علاقے میں 6 فروری کو آنے والے زلزلے کے بعد سے ترکیہ میں تقریباً 60 ہزار شامی باشندے سرحد پار اپنے آبائی ملک واپس جا چکے ہیں۔
زلزلے سے متاثرہ صوبہ حطائے میں خطاب کرتے ہوئے حولوصی آقار نے ترکیہ کی سرحد پر غیر قانونی کراسنگ کے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے۔
یہ کہتے ہوئے کہ ترکیہ کی سرحدوں کی 24/7 بنیادوں پر "جدید ترین ٹیکنالوجی کی گاڑیوں اور آلات سے” شدت سے حفاظت اور نگرانی کی جا رہی ہے، آقار نے تصدیق کی کہ وہ فول پروف اقدامات کر رہے ہیں۔
ترکیہ کے دفاعی سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ترکیہ کی جنوبی سرحد سے شامی پناہ گزینوں کی آمد کے دعوے واضح طور پر غلط ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ "ترکیہ میں رہنے والے تقریباً 60 ہزار شامی باشندے اپنے گھروں اور رشتہ داروں کے جاں بحق ہونے کی وجہ سے اپنی سرزمین پر واپس جا رہے ہیں۔”
6 فروری کو، 7.7 اور 7.6 شدت کے زلزلوں نے ترکیہ کے 11 صوبوں – ادانا، آدیامان، دیارباقر، ایلازیگ، حطائے، غازیانتپ، قہر مانماراش، کلیس، ملاطیا، عثمانیہ، اور سانلیورفا – کو متاثر کیا، جس میں 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں۔
ترکیہ میں 1 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ افراد زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں اور ساتھ ہی شمالی شام میں بھی بہت سے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
آقار نے ڈنمارک میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید اور ترکیہ کے جھنڈے پر حالیہ حملے کی بھی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پرچم اور مقدس کتاب پر حملہ بربریت، حقیر اور نفرت انگیز رویے کی ایک بڑی مثال ہے۔ یہ سراسر انسانیت خلاف جرم ہے۔ ہم اسے کبھی قبول نہیں کر سکتے۔
حالیہ مہینوں میں شمالی یورپ اور نورڈک ممالک میں اسلامو فوبک شخصیات یا گروہوں کی طرف سے قرآن کو جلانے یا ایسا کرنے کی کوششیں دیکھنے میں آئی ہیں۔