مارے پڑوس میں ایک اور "آپریشن سیندور” لانچ ہو چکا ہے. پاکستان کے لیے یہ اہم ڈویلپمنٹ ہے کیونکہ ابھی پہلا آپریشن سیندور بھی ختم نہیں ہوا۔ بلکہ بقول وزیراعظم نرمی صرف ایک وقفہ ہے جبکہ جاری ہے۔ یاد رہے اُس آپریشن میں بھارت کو اسرائیل کی مکمل اور عملی حمایت حاصل تھی۔ اب کہ اسرائیل نے بھی یہ کہا ہے کہ ان کا ایران کے خلاف آپریشن اہداف کے مکمل حصول تک جاری رہے گا۔
آئیے دیکھتے ہیں اس صورتحال میں کیا منظر نامہ بن رہا ہے ۔۔۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے اپنے تمام تنصیباتی اور افرادی اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا ہے اور ایران کے لیے خاصی پریشان کن صورتحال پیدا کی ہے۔ انگریزی اصطلاح کے مطابق They have drawn the first blood.
ایران نے اپنے رہبر آیت اللہ خمینائی صاحب کے بیان کے مطابق سخت جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔ ابھی تک جو اطلاعات سامنے ائی ہیں ان میں ایران نے اسرائیل پر ایک بڑا ڈرون حملہ کیا ہے، لیکن یہ بظاہر کافی نہیں۔ بلکہ اسرائیل کے تابڑ توڑ اور تباہ کن حملوں کے مقابلے میں بہت ہی کم تر جواب ہے، تاہم ابھی یہ اغاز ہے اس پر ابھی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ اس وقت ایران کے لیے ایک Tactical Constraint یہ ہے کہ امریکہ نے خود کو بظاہر اس حملہ سے الگ رکھا یے۔ اسرائیل ایران سے دور ہے اور ایرانی فضائیہ وہاں تک براہ راست نہیں پہنچ سکتی جبکہ ایرانی میزائل بھی ماضی میں اسرائیل کا بہت زیادہ نقصان نہیں کر پائے۔ لیکن امریکہ کے اڈے اور بحری جہاز اس کی پہنچ میں ہیں البتہ ایران اگر ریاست متحدہ امریکہ کے کی تنصیبات پر "unprovoked” حملہ کرتا ہے تو پھر امریکہ کے لیے بھی اس جنگ میں آنا اور ایران پر براہ راست حملے کرنا آسان ہو جائے گا۔ نیز خطے کے جن ممالک میں امریکی مفادات ہیں وہ بھی اس سے بہت متاثر ہوں گے۔
اس حملے کے تناظر میں پاکستان کی مشکلات اور چیلنجز بھی بڑھ سکتے ہیں۔ اول، پاکستان اس وقت دو Imran Khan Moment کا بیک وقت شکار ہے۔ 2019 میں وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران صدر ٹرمپ نے کشمیر کے حوالے سے ثالثی کی ات کی ۔۔۔ وہ اب بھی یہی کر رہے ہیں۔ پھر 2022 کے اوائل جب یوکرین پر حملے سے فوراً پہلے، بلکہ اسی رات، وزیراعظم عمران خان ماسکو کے دورے پر تھے اور صدر ولادیمیر پوٹن سے مل رہے تھے۔ جس سے پاکستان کے لیے ایک پریشان کن صورتحال پیدا ہو گئی۔ جبکہ اس وقت پاکستان کے ارمی چیف امریکہ کے دورے پر ہیں اور امریکہ و اسرائیل درحقیقت یک جان دو قالب کا مظہر ہیں۔ یہ بھی ایک embarrassing صورتحال بن سکتی یے۔ تاہم آرمی چیف کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ وقت خطے کی تیزی سے بدلتی صورتحال کا کہہ کر واپس آ سکتے ہیں۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان کے لیے سفارتی مجبوریوں کی وجہ سے شاید اُس وقت ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔
بہرحال ۔۔۔
پاکستان کے لیے دوسرا بڑا مسئلہ مغربی سرحد پر ممکنہ طور پر پیدا ہونے والا عدم استحکام ہے۔ ایران کے ساتھ مل کر مشترکہ سرحد پر حالیہ دنوں میں سختی کی گئی تھی جس سے بی ایل اے کی لاجسٹک سپورٹ کو مفقود کرنا مقصود تھا۔ ایرانی ریاست کی کمزوری یا فوکس بدلنے سے شاید اسے برقرار رکھنا مشکل ہو اور اس سے بلوچستان میں سیکیورٹی صورتحال بگڑ سکتی ہے یا پھر آپریشن سیندور اول والے اسے بگاڑ سکتے ہیں۔
جہاں تک عرب و دیگر مسلم ممالک کا تعلق ہے انہیں ایران پر حملے کی مذمت کرنا چاہیے اور اس کے طے شدہ بین القوامی اصول اور قوانین و اقوام متحدہ کے چارٹر کو بنیاد بنانا چاہیے۔ ان کے بس میں جو بھی ممکن ہو وہ سفارتی اقدامات انہیں لینا چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب خود ان کے اپنے مفاد میں ہے۔ ایران سے ان کے جو بھی اختلافات ہوں، یہ بھی ایک تزویراتی سچائی ہے ایران نے اسرائیل کی توجہ خود پر مرکوز کر رکھی ہے، اسی لیے باقی عرب ممالک نسبتا سکون میں ہیں۔ ایران نہ رہا یا نیوٹرلائز ہو گیا تو پھر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم ہوں گے اور یہ ممالک ہوں گے۔ ان ممالک کی فوجی صلاحیت ایسی نہیں کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کر سکیں۔ ان حالات میں یہ بہت جلد پہلے مغربی کنارہ اور پھر غزہ بن کر رہ جائیں گے۔
چین اور روس اس سب کے ہنگام کیا مؤقف لیتے ہیں اور اس میں کچھ عملاً بھی ہو گا یا نہیں، یہ بھی نتائج پر گہرا اثر ڈالے گا۔ پہلے سے جاری ایک بہت بڑی گریٹ گیم کا نیا باب شروع ہو چکا ۔۔۔
