تحریر : ڈاکٹر شبیر احمد خاں
رنگ لاۓ گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سُرخی ہے آزادی کے افسانے کی
رات کٹ جاۓ گی گل رنگ سویرا ہوگا
رنگ لاۓ گا شہیدوں کا لہو
ایک دو گام پہ اب منزل آزادی ہے
آگ اور خوں کے ادھر امن کی آبادی ہے
خود بہ خود ٹوٹ کےگرتی نہیں زنجیرکبھی
بدلی جاتی ہے بدلتی نہیں تقدیر کبھی
رنگ لاۓ گا شہیدوں کا لہو
امریکی صدر جو بائیڈن ، سابق نائب صدر مائیک پینس، امریکی وزیر خارجہ انٹونی ِبلنکن اور دیگر امریکی سیاست دان جو امریکہ کے اعلی ترین تعلیمی اداروں سے پڑھے ہیں, لیکن تعصب اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں اور اس ڈھٹائی اور بے شرمی سے جھوٹ بول رہے ہیں کہ کسی اور تہذیب سے اس کی مثال ڈھونڈنا مُشکل ہے۔ کتنی نفرت، کتنا انتقامی جذبہ ، کتنی خون آشام طبیعت چاہیۓ یہ جُملہ بولنے کے لۓ کہ "اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔” یا ہم "اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔” اور اسرائیل کے اُن مظالم پہ آنکھیں بند کر لینا جن سے معصوم بچے، بے گُناہ عورتیں، بوڑھے جوان آناً فاناً لقمہ اجل بن جاتے ہیں، فلک بوس عمارتیں چند لمحوں میں کھنڈر بن جاتی ہیں، میزائلوں اور بموں کی وہ آگ برسائی جاتی ہے کہ جس کے تصور سے ہی روح کانپ اُٹھتی ہے۔ چینگیز خان اور ہلاکو خان کے مظالم ہیچ لگتے ہیں۔ کوئی بتاۓ انسانی ترقی اور معراج کی یہ صدی، جسے ‘کمپیوٹر کا دور’ کہا جاتا ہے ، امریکی اپنے معاشرے کو ‘بعد از جدیدیت دور’ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس اکیسویں صدی میں غزہ اور فلسطینیوں کا خون اتنا ارزاں اور سستا ہوگیا ہے کہ پانی کا طرح بہایا جاۓ۔ کیا دُنیا اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہی کہ اسرائیل ایک کے بدلے سو جانیں لیتا ہے۔ اپنی بے پناہ فوجی طاقت کے غرور میں جدید دُنیا اور عالمی قانون کی دھجیاں بکھیرتا ہے۔ اُنگلی کے بدلےسر، سر کے بدلے سو سر، آنکھ کے بدلے ہزار آنکھیں کس جنگی تناسب کے اصول کے تحت لے سکتا ہے؟
یہ ہے مغرب کی تہذیب جو مظلوم نہیں ظالم کے ساتھ کھڑی ہے؟ ہر قسم کا ظُلم اور ستم اپنے سامنے ہوتا دیکھ کر بھی ان کا ضمیر انہیں ملامت نہیں کرتا۔ عالمی انصاف کے دعوے دار اور چمپئین کہاں ہیں؟ اُن کے دعووں کی قلعی معصوم فلسطینی بچوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر کھول دی ہے۔ ان معصوم بچوں کے لاشے تمہاری ہارورڈ اور آکسفورڈ کی برابری، مساوی حقوق، انسانی جان کی ُحرمت ، آزادی اور قانون کی حکمرانی کے درس و اسباق کا مُنہ چڑارہے ہیں۔ ان معصوم بچوں اور بے گُناہ عورتوں کے ماتھے پہ شہادت کا تمغہ مغرب کے انسانیت کے کھوکھلے نعروں کے مُنہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ ایک دن آۓ گا اس طمانچہ کی گونج پوری دُنیا سنے گی، آج کہاں ہیں اپنے دور کے فرعون ؟ آج کونسی جاگیر ، کونسا مُلک اور سلطنت ہے جو چینگیز خان اور ہلاکو خان کے نام پہ بنی ہے ؟ وہ ظالم مٹ گۓ تو یہ بھی ِمٹ جائیں گے۔
اے خاک نشینوں اُٹھ بیٹھو ، وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گراۓ جائیں گے، جب تاج اُچھالے جائیں گے
لیکن آج میں آپ کو انسانی تاریخ کی ایسی تہذیب اور ترقی سے روشناس کراتا ہوں جس کا آغاز جزیرہ نما عرب کے تپتے صحراؤں سے ہوا، جو سلطنتِ روم کے مقابلے میں ابھی نئی تھی ، یا یوں کہہ لیں کہ ابھی آغاز تھا اور اس سلطنت کا آگے چل کر غلبہ اتنا بڑھا کہ کئی براعظم اس کے آگے سرنگوں ہوۓ ، اور اس کے قدم مغرب کے دل ہسپانیہ یعنی آج کے سپین تک جا پہنچے تھے ۔ اس عظیم سلطنت کے پہلے امیر اور حکمران کے پہلے خطاب کا ایک حصہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
جب سقیفہ بنی ساعدہ کے مقام پر اُن امیر کو باہمی اتفاق راۓ سے مُنتخب کرلیا گیا تو انہوں نے اپنے پہلے ہی خطاب میں اپنی امارت اور حکومت کے مقصد یا جواز کی اتنی کڑی شرط رکھی جو اس سے پہلے کسی اور حکمران یا بادشاہ نے نہیں رکھی تھی ۔ جن سے مُخاطب ہیں انُ میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں ، تین افراد تو وہ ہیں جو اُن کے بعد ُاسی رُتبے پر فائز ہوۓ، امیر بھی ہیں اور غریب بھی، امیر اتنے کہ اگر اُن کی اُس وقت کی دولت کا موازنہ اگر فیس بُک کے بانی مارک ذکر برگ کی دولت سے بھی کریں تو اُن صحابی کی دولت کہیں زیادہ تھی، میں حضرت عبدالرحمن بن عوف کی بات کررہا ہوں۔ بعض غریب اتنے ہیں کہ شاید کھانے کو سواۓ کھجور کے گھر اور کُچھ نہ ہو، ایسے نامور اور طاقتور جنگی سپہ سالار بھی موجود ہیں جن کی ہیبت سے پہاڑ بھی ِسمٹ کر رائی ہوجائیں، اہل قریش قبیلہ اور دیگر قبائل کے سردار اور حاکم بھی موجود ہیں۔ ان سے مُخاطب ہوتے ہوۓ یہ پہلے امیر کیا فرماتے ہیں۔
کہتے ہیں آپ سب پر میری اطاعت اُس وقت تک لازم نہیں جب تک آپ میں سے جو سب سے طاقتور ہے وہ میرے لۓ سب سے کمزور نہ ہوجاۓ اور جو آپ میں سب سے کمزور ہے وہ میرے نزدیک آپ میں سب سے طاقتور نہ ہوجاۓ۔ وضاحت کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر میں ایک طاقتور سے ایک کمزور کا حق چھین کر اُسے نہ دلا سکا تو نہ میں تمہارا امیر اور نہ تم پر میری اطاعت لازم۔
انصاف کا ایسا اعلی معیار نہ اس سے پہلے کسی تہذیب نے دیا اور نہ آج تک کوئی اور تہذیب اس کی مثال پیش کرسکی ہے۔ آج کون ہے جو طاقتوروں کے سامنے اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہے کہ تم میرے لۓ کمزور ہو اور کمزور سے کہے کہ وہ طاقت ور ہے؟ اس لۓ کے طاقتور اور غاصب سے کمزور کو اُس کا حق چھین کر واپس دلانا آسان نہیں مگر یہ ہی عین انصاف ہے اور سب سے اعلی مقصد بھی۔ ‘امریکی نظام انصاف’ کے بارے ایک سٹڈی نے ثابت کیا کہ عدالتوں میں کیس جیتنے والے لوگوں میں صرف ایک قدر مُشترک تھی کہ وہ سب زیادہ پیسہ خرچ کرنے والے تھے۔
اپنا ذکر کرنا مُناسب نہیں لگتا، مگر صرف مقصود یہ ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ لکھاری مُریدکے کے مدرسہ کا پڑھا ہوا جذباتی مُلّا ہے۔ امریکہ کی چار سے زیادہ جامعات میں پڑھنے اور پڑھانے کا موقع ملا، امریکیوں کو امریکہ کے ‘ نظام انصاف ‘ کے بارے میں پڑھانا کبھی معمولی خیال نہیں کیا، امریکہ سے ہی پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کا تھیسز لکھتے ہوۓ موضوع بھی قانون، سیاست، اور عدلیہ کی آزادی سے متعلق لیا۔ نظام انصاف کے جائزہ کے لۓ کوئی لٹریچر جو دُنیا کےتقریباً سو سے زائد ممالک کے بارے میں تھا، پڑھنے کا موقع ملا۔ اس بنا پر یہ بات انتہائی وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ‘پوری دُنیا اسلام سے بہتر اور اعلی ‘نظام انصاف’ پیش کرنے سے قاصر ہے۔’ ضرورت صرف اسے دُرست سمجھنے اور عمل کرنے کی ہے۔ امریکہ اور مغربی دُنیا خود کو ‘مہذب دُنیا ‘ گردانتی ہے اور باقی اقوام کو ‘غیر مہذب’ کہہ کر استہزا کرتے ہیں۔ اسرائیل کے معاملے میں اُن کا ‘مہذب’ ہونا کہاں دفن ہوجاتا ہے؟ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف کہاں پناہ لے لیتے ہیں؟ امریکہ نے اس ڈر سے کہ کہیں سلامتی کونسل سیز فائر کا نہ کہہ دے، اس کا اجلاس ہی ملتوی کروادیا ہے تاکہ غزہ کا محاصرہ کۓ ہوۓ اسرائیلی فوجی کُچھ دن اور فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیل لیں۔
یہ ہے انصاف کے عالمی چُغادروں کا انصاف، آج سب طاقتور کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسرائیل طاقتور ہے اور عالمی انصاف کے دعوے دار اور دُنیا کی امامت اور امارت کے چیمپئن کمزور اور مظلوم کو اُس کا حق دلانے سے قاصر ہیں، اور حق بھی وہ جو ہر انسان کا پہلا اور بُنیادی حق ہے،یعنی "عزت اور آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق”۔ اس میں نہ کہیں روپیہ ہے اور نہ کہیں پیسہ۔
اب میں آپ کو ہمارے بعض دانشوروں اور مغرب کے کثیر مُفکرین معہ حکومتوں کے اس سوال کا جواب دیتا ہوں کہ حماس یا حزب اللہ یہ جانتے بوجھتے کہ اسرائیل اُن سے کئی گُنا زیادہ طاقتور مُلک ہے، اور کسی بھی قسم کی جارحیت سے باز نہیں رہتا اور دُنیا اسرائیل کو طاقت کے بے تحاشہ استعمال سے روک نہیں سکتی، تو پھر فلسطینی یہ ‘حماقت’ کیوں کرتے ہیں کہ جنگ میں پہل کرتے ہیں ؟ ایک ایسی جنگ جس میں اُن کی شکست یقینی ہے، اُن کا نقصان اسرائیل کے نُقصان سے ہزار گنا زیادہ ہونا ہے۔ جنگ کی ہر تھیوری یہ کہتی ہے کہ جنگ صرف جیتنے کے لۓ لڑی جاتی ہے، ہارنے کے لۓ نہیں، یہ فلسطینی ہر قسم کی جنگی تھیوریوں کے خلاف کیوں جاتے ہیں؟ آپ یقین کریں نہ کریں لیکن اس کا حیران کن جواب پیش کرتا ہوں۔
اسرائیل کے پاس دو سو سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، سارے عرب مل کر اسرائیل کو شکست نہیں دے سکے، اسرائیل کے مُربی اور آقا امریکہ کے پاس اس قدر ایٹمی ہتھیار ہیں کہ وہ اس پورے کُرہ ارض کو اکیلا ایک سے زیادہ مرتبہ نیست و نابود کرسکتا ہے۔ دُنیا کا کوئی مُلک امریکہ کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور طاقت نہیں رکھتا، یہ زمینی حقائق ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ حزب اللہ اور حماس اور دیگر فلسطینی اسرائیل سے کسی جیت اور فتح کی خوش فہمی میں جنگ مول لے لیتے ہیں ؟ ہرگز نہیں، ہم دور بیٹھے ہیں، وہ اسرائیل اور اُس کی طاقت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، اُن کا صرف ایک مقصد ہے کہ ‘ ظُلم اور طاقت کے آگے جھکنا نہیں ہے’۔ آپ یقین کریں نہ کریں ، فلسطینی باشندے اسرائیلی جارحیت کو خود ‘ دعوت’ دیتے ہیں، کہ دیکھو اب تو ہم نے راکٹ برسادۓ ہیں، تمہارے گھروں پر گرے ہیں ، تمہاری سڑکوں پر گڑھے ڈال دیۓ ہیں، اب تو آؤ، آؤ اپنے جنگی جہازوں ، توپوں ، اور بھاری ٹینکوں کے ساتھ آؤ، ہمارے سینے حاضر ہیں ، ہم بھاگیں گے نہیں، ہم اپنا وطن نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارے بچے ابدی نیند سو جائیں گے، لیکن ایک رات تو تمھارے بچے بھی نہیں سو سکیں گے۔ آؤ سودا کرتے ہیں تمھارے بچوں کی ایک رات کی نیند ہمارے بچوں کی آبدی نیند کے برابر، آؤ لو ہماری وہ جان ، جو ہماری ہے ہی نہیں۔
آپ مُجھ پر یقین نہ کریں ، علامہ اقبال نے یہ صرف عشق و مستی میں آکر نہیں کہا تھا، سوچ سمجھ کر کہا تھا، مذاق نہ اُڑائیں ، اسے مان لیں کہ ،
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ ِکشور کُشائی
اس انسانی کیفیت کو دو مثالیں دے کر پیش کرتا ہوں، حال ہی میں ہوۓ تحریک لبیک کے مظاہروں کی ایک وڈیو دیکھی ، جس میں پولیس کے درجن بھر لوگ ایک عالمِ دین کو لاٹھیوں سے مار رہے ہیں، اور وہ بجاۓ خود کو بچانے کے، کہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے مُنہ، سر، یا نازک حصوں پر رکھے، وہ دونوں ہاتھوں سے پولیس کو دعوت کے انداز میں بلاتا ہے کہ آؤ اور مارو، اور مارو، یہ نہ تو انسانی نفسیات ہے اور نہ ہی انسانی جبلت۔
دوسری مثال میرے گاؤں سے ہے، جہاں ایک امیر اور طاقتور ہمساۓ کا جھگڑا نہایت کمزور اور غریب ہمساۓ سے تھا۔ غریب نے پتھر پھینکے ، جواب میں چوہدریوں نے گن کے فائر کھول دیے، جن کو فائر لگے تھے اُن زخمیوں کو کہتے سُنا کہ آخر دُشمنوں کو گولی چلانی پڑی، اُن کے پاس گولی تھی جو اُنھیں نے پیش کردی، ہمارے پاس سینے تھے سو حاضر کردیۓ ۔
آپ میں سے جو لوگ ابھی بھی ِاسے حماس یا فلسطینیوں کی غلطی سے تعبیر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ کسی ایسے وقت کا انتظار کریں جب اُن کے پاس اتنی طاقت آجاۓ کہ وہ اسرائیلی ایٹم بموں، ایف سولہ طیاروں اور ٹینکوں کا مقابلہ کرنےکے قابل ہوجائیں تو پھر اُٹھ کھڑے ہوں، وہ لوگ غلطی پہ ہیں، شہادت کا جو مزا شہید چکھتا ہے، اور جو آنے والی نسلیں چکھتی ہیں وہ کوئی جان نہیں سکتا۔ وہ جان دے کر بھی کہتے ہیں،
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یوں ہے، کہ حق ادا نہ ہوا
فیض احمد فیض یوں گویا ہوۓ۔
گر بازی عشق کی بازی ہے، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گۓ تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
آخر میں صرف یہ عرض کروں گا کہ میرے استدلال پہ اگر شک ہے تو پھر کیا دریاۓ فرات کے کنارے ہوۓ معرکہ حق و باطل پہ بھی شک ہے؟
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حُسین، ابتدا ہے اسماعیل
