امریکی خفیہ ایجنسی کے دو عہدیداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ آئندہ ایک دو برس میں خود کو مضبوط کرے گی اور پھر امریکا میں حملوں کی سازش کرنے کی صلاحیت پیدا کرلے گی۔
ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل اسکاٹ بیریئر نے ایک انٹیلی جنس پر مبنی کانفرنس میں کہا کہ محتاط اندازے اور صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ القاعدہ آئندہ ایک دو برس میں جڑیں مضبوط کرلے گی اور کم از کم امریکا کو دھمکانے کی محدود صلاحیت حاصل کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ہر طرح کے وسائل اور ذرائع کے ساتھ افغانستان میں واپس رسائی حاصل کرنے کے طریقوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ہم اس کوشش کو ترجیحی بنیادوں پر سر انجام دیں گے جبکہ ہمیں انتہائی کم وسائل میں متوازن پیدا کرتے ہوئے کام کرنا ہے۔
سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیوڈ کوہن نے ایک سے دو سال کی ٹائم لائن سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں پہلے ہی اسامہ بن لادن کی قیادت میں دہشت گرد گروپ کی سرگرمیاں دیکھ رہی ہیں۔
دونوں انٹیلی جنس رہنماؤں نے واشنگٹن کے مضافاتی علاقوں میں انٹیلی جنس اور نیشنل سیکیورٹی الائنس اور غیر منافع بخش گروپ اے ایف سی ای اےکی میزبانی کے دوران القاعدہ کو خطرہ قرار دیا۔
افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے اعلیٰ دفاعی عہدیداروں نے زور دیا کہ امریکا کے پاس افغانستان کے اندر کیا ہو رہا ہے اُس کو جاننے اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے محض فضائی صلاحیتیں ہوں گی جس میں ڈرون حملے بھی شامل ہوں گے۔
ایک روز قبل نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ایورل ہینس نے کہا تھا کہ امریکا کو طالبان سے نہیں بلکہ بین الاقوامی دہشت گردوں سے سب سے بڑا خطرہ یمن، صومالیہ، شام اور عراق سے ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیوڈ کوہن نے مزید کہا کہ سی آئی اے کو انٹیلی جنس پر مبنی معلومات جمع کرنے کے لیے اپنا دائرہ کار بڑھانا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایجنسی کو امید ہے کہ وہ اپنا کام کرے گی جس میں مخبروں پر مشتمل نیٹ ورک کی تعمیر نو بھی شامل ہے۔
ڈیوڈ کوہن نے کہا کہ جہاں تک ممکن ہوسکا ہم فضا سے کام کرنے کے طریقے بھی تلاش کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں انٹیلی جنس کے ذخیرے کو بڑھانا ہوگا، اسی وقت جب ایجنسیاں چین اور روس پر نظر رکھنے کی اپنی صلاحیت کو بہتر بنا رہی ہے۔
