turky-urdu-logo

صدر ایردوان نے 2023 کے انتخابی منشور کا اعلان کر دیا، سرمایہ کار ترکی پر اعتماد کریں

صدر رجب طیب ایردوان نے 2023 کے عام انتخابات کے لئے اپنی سیاسی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) کے انتخابی منشور کا اعلان کر دیا ہے۔

وہ اے کے پارٹی کی ساتویں کانگریس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر صدر ایردوان کو پارٹی کا دوبارہ چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔ سابق وزیراعظم بینالی یلدرم کو پارٹی کا وائس چیئرمین بنا دیا گیا ہے۔

صدر ایردوان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے دور حکومت میں ترکی نے ہر شعبے میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ ترکی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں جمہوریت مضبوط ہے۔ تعلیم، صحت، معاشیات، دفاع اور توانائی کے شعبے میں ترکوں نے حیران کن ترقی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ہدف 2023 کا انتخاب جیتنا نہیں ہے بلکہ ترکی کو 2053 کے اہداف تک لے جانا ہے۔ حکومت نے حال ہی میں عدالتی اور معاشی اصلاحات کا اعلان کیا ہے۔ اب ترکی کے آئین کو ازسر نو ترتیب دیا جائے گا کیونکہ 1982 کا آئین اب ترکی کی جدید ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

صدر ایردوان نے غیر ملکی سرمایہ کاروں سے کہا کہ وہ ترکی میں اعتماد اور بھروسے کے ساتھ اپنا پیسہ لگائیں کیونکہ یہاں منافع کے مواقع بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے ترک عوام سے کہا کہ وہ اپنے سونے اور غیر ملکی کرنسی کے اثاثوں کو مقامی معیشت میں حصے دار بنائیں تاکہ معاشی سرگرمیاں زور پکڑیں۔

انہوں نے کہا کہ ترکی اب سرمایہ کاری، صنعتی پیداوار، برآمدات اور روزگار کا ایک بہت بڑا مرکز بننے جا رہا ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا نے ہمیں بہت کچھ سیکھا دیا ہے۔ اب یورپ چین کے بجائے ترکی کے ساتھ تجارت بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔ ترکی یورپ کی بڑی صنعتوں کو پرزہ جات اور خام مال کی فراہمی کی ایک Supply Chain کا انفرااسٹرکچر بنا رہا ہے جس کے بعد امریکہ بھی ترکی کے ساتھ کاروبار کو ترجیح دے گا۔

صدر ایردوان نے کہا کہ مشرق اور مغرب دونوں ترکی کے لئے یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم کسی کو بھی نطرانداز نہیں کرنا چاہتے۔ ترکی دنیا بھر کے مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی دنیا کے مختلف جغرافیاؤں میں کامیابی سے چل رہی ہے۔ ترکی ہر صورت ہر شعبے اور ہر خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ ترکی افریقہ، یورپ اور ایشیا کے درمیان واقع ہے۔ ہم کسی بھی خطے یا ملک کو نظرانداز نہیں کرنا چاہتے۔

انہوں نے کہا یہ ترکی ہی ہے جس کی مدد سے آج لیبیا میں خانہ جنگی ختم ہو گئی ہے اور وہاں جمہوری نظام واپس آ رہا ہے۔ لیبیا کی عوام اس سال انتخابات کے ذریعے اپنی نئی جمہوری حکومت کو منتخب کریں گے۔

شام میں خانہ جنگی سے سب سے زیادہ ترکی متاثر ہوا ہے۔ اس وقت ترکی میں 36 لاکھ شامی مہاجر آباد ہیں۔ ترکی اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک شام کی عوام کو اپنی مرضی سے حکومت منتخب کرنے کی آزادی نہیں مل جاتی۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے ممبرز کی تعداد ایک کروڑ 35 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جس میں 10 لاکھ نوجوان ہیں۔

Read Previous

فٹ بال:ترک کلب فینز باحس کے 3 کھلاڑیوں میں کورونا وائرس کی تصدیق

Read Next

ترکی میں طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے، اقوام متحدہ

Leave a Reply