
11دن کے حملوں اور خون ریزی کے بعد اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی ہو گئی۔
پا کستانی وقت کے مطابق جنگ بندی پر عملدرآمد کا آغا زآج صبح 4 بجے سے ہوگیا اور اب تک کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔
مصری وفود جنگ بندی پرعملدرآمد کی نگرانی کریں گے اور مصر کے دو وفود کو تل ابیب اورفلسطینی علاقوں میں روانہ کیاجائےگا۔
اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی کابینہ نے امریکا کی طرف سے شدید دباؤ کے بعد جنگ بندی کا فیصلہ کیا جب کہ اسرئیل کی سکیورٹی کابینہ نے غیرمشروط جنگ بندی کی منظوری دی تھی۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ 11 روز کے دوران اسے غزہ میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں ۔
اسرائیل کی جانب سے تین روز پہلے ہی جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کر دی گئی تھی۔ لیکن حماس کا اصرار تھا کہ اسرائیل اعلانیہ جنگ بندی کرے۔ تین روز بعد بلآخر ’اسرائیلی کابینہ نے جنگ بندی متفقہ طور پر منظور کر لیا۔‘ ’بی بی سی نے حماس کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ‘شیخ جراح اور مسجد الاقصیٰ سے متعلق شرائط مان لینے کے بعد ہی سیز فائر کو تسلیم کیا گیا ہے۔
ادھر حماس نے جنگ بندی کے بعد جیت کا اعلان کیا ہے جب کہ غزہ میں ہزاروں افراد نے جیت کا جشن بھی منایا۔
حماس کے ترجمان نے اعلان کیا ھے کہ جنگ بندی اس شرط پر ھوئ ھے کہ شیخ جراح کے علاقے سے فلسطینیوں کو نہیں نکالا جائے گا اور اسرائیلی افواج آئندہ مسجد اقصی میں داخل نہیں ھوں گی۔
فلسطینی وزارت صحت کےمطابق اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری جنگ میں اب تک 232 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں 65 بچے بھی شامل ہیں جب کہ 1900 افراد زخمی ہیں اور 10 ہزار سے زائد بے گھر ہوچکے ہیں۔
فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہےکہ غزہ میں انسانی اورصحت کی صورتحال پریشان کن ہے، پناہ گاہیں لوگوں سےبھری ہوئی ہیں جس سےکورونا کے پھیلاو کا خطرہ ہے، انسانی بحران پرقابو پانےکے لیے فوری امداد کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے صحت کے شعبے کی بحالی کیلئے 46.6 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔