
افغانستان میں ایک عہدیدار نے طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول کھلنے کے چند گھنٹے بعد ہی دوبارہ بند کرنے کا حکم جاری ہونے کی تصدیق کی ہے جس سے طالبان حکومت کی پالیسیوں سے متعلق ابہام پیدا ہوگیا ہے۔
لڑکیوں کو واپس گھر بھیجے جانے کی تصدیق کے سوال پر طالبان ترجمان انعام اللہ سمنگانی نے تصدیق کرتے ہوئے جواب دیا کہ ’ہاں یہ سچ ہے‘۔
انہوں نے اس حکم کی فوری طور پر وضاحت نہیں کی جبکہ وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد ریان نے کہا کہ ہمیں اس پر تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
میڈیا کی ایک ٹیم دارالحکومت کابل کے زرغونا ہائی سکول میں فلم بندی کر رہی تھی جب ایک ٹیچر کلاس میں داخل ہوئیں اور کلاس ختم ہونے کا اعلان کیا۔
گزشتہ سال اگست میں طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار اسکول آنے والی طالبات نے آنسوؤں کے ساتھ اپنے بستے سمیٹے اور واپس لوٹ گئیں۔
کابل میں موجود اومرا خان گرلز اسکول کی ٹیچر پلوشہ نے کہا کہ ’میں نے اپنی طالبات کو روتے ہوئے اور کلاس چھوڑنے سے گریزاں دیکھا، اپنے شاگردوں کو روتے ہوئے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہے‘۔
لڑکیوں کے ہائی اسکولز پر مہینوں سے عائد پابندیوں کے بعد وزارت تعلیم نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ملک بھر میں لڑکیوں سمیت تمام طلبہ کے لیے اسکول کھل جائیں گے۔
گزشتہ روز شام کو وزارت تعلیم کے ترجمان نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں تمام طلبہ کو کلاس میں واپس آنے پر مبارکباد دی گئی تھی۔