افغانستان میں ایک بار پھر بچوں کے لیے موبائل لائبریری کی سہولت بحال کر دی گئی۔
افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد پہلی بار موبائل لائبریری بس یتیم خانے میں پہنچی اس کے دروازے کھلتے ہی بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئیں۔
11 سالہ آریزو عزیزی کا کہنا تھا کہ ‘میں واقعی بہت خوش ہوں میں ان کتابوں کا دوبارہ مطالعہ کر رہی ہوں جو مجھے پسند ہیں، اس کتاب میں اس کے پسندیدہ ٹوم بلی کے ذریعے گنتی کرنے میں مدد دی گئی ہے جسے پنیر کے اتنے زیادہ ٹکڑے ملے ہیں جنہیں گننا مشکل ہے۔
ساتھیوں کی پُرجوش چہچہاہٹ کے ساتھ ایک تبدیل شدہ بپلک بس میں بیٹھی آریزونے کہاکہ لائبریری تین ماہ تک نہیں آئی تھی۔
موبائل لائبریری ان 5 بسوں میں سے ایک ہے جس کی منظوری چارمغز نامی مقامی تنظیم نے دی تھی اور اس کا قیام آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ افغان خاتون فرشتہ کریم نے کیا تھا۔
کابل میں حالیہ برسوں میں سیکڑوں بچے روزانہ موبائل لائبریریوں کا استعمال کرتے رہے ہیں، کیونکہ بہت سے اسکولوں میں اپنی لائبریریوں کی کمی ہے۔
غیر منافع بخش اقدام کے نائب سربراہ احمد فہیم برکاتی کہتے ہیں کہ اگست کے وسط میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد تقریباً تمام اسپانسرزختم ہوچکے ہیں۔
طالبان کی وزارت تعلیم نے کئی ہفتے قبل موبائل لائبریریوں کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی تھی، اس حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے احمد فہیم برکاتی نے کہا کہ چند روز قبل ہی بسوں کے مالک وزارت ٹرانسپورٹ کے ساتھ معاہدہ طے پایا ہے۔
بچوں کی طرح 22 سالہ لائبریرین رمزیہ عبدی خیل دوبارہ سڑکوں پر یہ مناظر دیکھنے پر خوش نظر آئیں انہوں نے کہا کہ یہ ایک خوبصورت احساس ہے اور ابھی اسکولز بھی بند ہیں۔
