
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان اس وقت تاریخ کے مشکل دوراہے پر ہے، موجودہ افغان حکومت عالمی برادری سے تعاون و مدد اور قبولیت کی خواہاں ہے، افغان عوام کی تاریخ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کٹھ پتلی حکومت کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی افغانستان کو باہر بیٹھ کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے، میں دوسروں کی جنگ لڑ کر اپنے ملک کو تباہ نہیں کر سکتا، غیر مستحکم افغانستان دہشت گردوں کیلئے دوبارہ محفوظ ٹھکانا بن سکتا ہے، افغانستان میں افراتفری سے پاکستان کو مزید پناہ گزینوں اور افغان سرزمین اس کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے کا خدشہ ہے، ہمارے چین کے ساتھ تعلقات امریکہ کے ساتھ تعلقات کے مرہون منت نہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے ”سی این این” کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خان نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان ایک تاریخ کے مشکل دوراہے پر ہے، ہماری دعا ہے کہ یہ 40 سال بعد امن کی راہ پر چل پڑے، اگر طالبان تمام دھڑوں کو ساتھ لے کر حکومت بنائیں تو یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس اگر ناکامی ہوئی تو ایک بہت بڑا انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس مقصد کیلئے امریکہ افغانستان آیا تھا وہ عالمی دہشت گردوں کا خاتمہ تھا، افغانستان غیر مستحکم ہونے کی صورت میں امکان ہے کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کے لئے محفوظ ٹھکانہ بن سکتا ہے، ہم یہ توقع اور دعا کرتے ہیں کہ 40 سال بعد یہاں امن قائم ہو تاہم اس وقت افغانستان کے حوالے سے کوئی بھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری جماعت 22 سال اپوزیشن میں رہنے کے بعد جب اقتدار میں آئی تو ہم پر بہت زیادہ دبائو تھا کہ ہم ان لوگوں کو شامل کریں جنہوں نے 22 سال جدوجہد کی اور حکومت میں شامل ہونا ان کا حق ہے لہٰذا میں ان کے مسائل سمجھ سکتا ہوں جن کا طالبان کو سامنا ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ افغانستان میں واقعی امن ہو گا جب تک کہ وہاں کوئی مخلوط حکومت نہ ہو کیونکہ افغانستان مختلف نسلی گروہوں پر مشتمل معاشرہ ہے جہاں پشتون 44 سے 50 فیصد تک ہیں، وہاں تاجک، ہزارہ اور ازبک بھی ہیں لہٰذا جب تک کوئی مخلوط حکومت نہ ہو وہاں صورتحال قابو میں نہیں آ سکتی۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہاں ایک اور غلط فہمی ہے کہ افغانستان کو باہر سے ہو کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے، یہ ایک تاریخ ہے کہ افغانستان کے عوام نے کسی کٹھ پتلی حکومت کی حمایت نہیں کی، اسے عوام میں اچھا تصور نہیں کیا جاتا، اس لئے یہاں بیٹھ کر یہ سوچنا کہ ہم نے کیسے کنٹرول کرنا ہے اس کی بجائے ہمیں ان کی مدد کرنی چاہئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس صورتحال میں دنیا کو طالبان کو وقت دینا چاہئے، یہ سوچنا غلطی ہے کہ باہر سے کوئی آ کر افغان خواتین کو حقوق د لوائے گا، افغان خواتین مضبوط ہیں، انہیں وقت دیں وہ خود اپنے حقوق حاصل کر لیں گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کو افغانستان میں ہماری ضرورت تھی اس نے ہمیں اپنا ساتھ دینے کا کہا اس وقت بہت سے لوگ کہہ رہے تھے کہ 1989ء میں جنگ ختم ہونے کے بعد ہمیں چھوڑ دیا گیا تھا، اس جنگ کے بعد امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ 2001ء میں جارج بش نے پاکستان سے مدد مانگی اور واضح کہا کہ ہم اب کی بار پاکستان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، پاکستان افغانستان میں امریکی جنگ میں شامل ہوا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا اس وقت وہ وزیراعظم تھے پہلے جنہیں مجاہدین کہا جا رہا تھا اب انہیں دہشت گرد قرار دیا جا رہا تھا، اس کی وجہ افغانستان پر امریکی حملہ تھا اس لئے اب انہیں دہشت گرد قرار دیا جا رہا تھا اس وجہ سے مجاہدین ہمارے خلاف ہو گئے اور پھر ہماری سرحد کی طرف پشتونوں کی تمام قبائلی پٹی میں قوم پرستی نے جنم لیا، ان کی طالبان سے ہمدردیاں مذہبی نظریات نہیں بلکہ پشتون قومیت کی وجہ سے تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ماضی کی افغان حکومت چاہتی تھی کہ پاکستان ان کیلئے افغانستان میں جنگ جیتے، امریکہ کا اتحادی ہونے کی وجہ سے ریاست پاکستان پر حملہ کیا گیا، یہ فرض کر لیا گیا کہ اب ہم افغان طالبان کے ساتھ لڑیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت بھی مہاجر کیمپوں میں 30 لاکھ افغانی موجود ہیں، ہم پر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا الزام لگایا جاتا ہے، ہمیں بتایا جائے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد پر امریکہ کے ڈرون کے ذریعے نگرانی کی جاتی تھی اگر امریکہ کے ڈرون اس کے اتحادی پر 480 ڈرون حملے کر سکتے ہیں تو انہیں کوئی محفوظ ٹھکانا ہوتا تو اس کا بھی علم ہوتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ کاش اگر میں حکومت میں ہوتا تو میں امریکہ کو بتاتا کہ ہم ان کیخلاف عسکری کارروائی نہیں کرینگے، کیونکہ ہمیں اپنے لوگوں کو بچانا ہے میرے ملک کے لوگ میری ذمہ داری ہیں، میں کسی اور کی جنگ لڑنے کیلئے اپنے ملک کو تباہ نہیں کر سکتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغان حکومت نے ماضی میں جو الزامات پاکستان پر لگائے یہ الزام افغان حکومت پر لگنے چاہئیں تھے، اگر افغان حکومت اچھا انتظام و انصرام کرتی اور ان کے افسران میں کرپشن نہ ہوتی تو ہو سکتا ہے کہ ان کی افغانستان میں قبولیت زیادہ بہتر ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ 3 لاکھ افغان فوجیوں نے بغیر لڑے ہتھیار کیوں ڈال دیئے۔ اگر اس ساری صورتحال کا تجزیہ کئے جائے تو امریکہ کی ناکامی اور طالبان کی کامیابی کے حوالے سے بات واضح ہو جائے گی۔