turky-urdu-logo

یونانی دیوتاؤں کا مسکن -ادِرنہ (ڈاکٹر عامر علی)

جب میں 2019 کے ابتدائی مہنیوں میں سلطان علاء الدین خلجی کے حوالہ سے پی-ایچ-ڈی کا سیمنار لکھ رہا تھا انہی دنوں ابن بطوطہ کا سفر نامہ میری نظروں سے گزرا۔ ترکی میں پی-ایچ-ڈی کی مکمل ڈگری چار مرحلوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ سب سے پہلے 2 سمیسٹر (یعنی ایک تعلیمی سال۔اور اگر اساتذہ ضروری سمجھیں تو پی-ایچ-ڈی کے ان اسباق سے قبل ایک سمیسٹر یا پھر ایک مکمل سال تعارفی اسباق بھی لازم قرار دے سکتے ہیں) اس کے بعد سیمینار لکھنا ہوتا ہے۔ جو عموماً موضوع کے مطابق کم از کم30-40 صفحات اور زیادہ سے زیادہ 80-90 صفحات کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ میں نے یہ سیمینار’’سلطان علاء الدین خلجی کا عہد (1296-1316)‘‘ کے موضوع پر تقریباً 70 صفحات پرترکی زبان میں لکھا تھا۔ جوکہ 2021 میں کتابی شکل میں انقرہ سے چھپا چکا ہے۔  اس کے بعد پی-ایچ-ڈی کا تیسرا مرحلہ یعنی امتحان ہوتا ہے ۔ اس امتحان کو ترکی زبان میں ییترلیلک کہتے ہیں۔ یہ امتحان تقریری اور تحریری ہوتا ہے ۔ اور خاصا مشکل بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں اساتذہ اپنی مرضی کا سوال پوچھتے ہیں اور کم وقت میں بہت سا لکھنا ہوتا ہے۔ میرا یہ امتحان پانچ اساتذہ نے لیا تھا۔ جن میں ، میرے نگران استاد پروفیسرڈاکٹر حاجی علی گوکمان  کے علاوہ، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حاقان قیومجو،، اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر سفر سولماز،  پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل حق اتچیقین، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر علی دادان شریک تھے۔ پہلے تین ذکرکردہ اساتذہ کا تعلق سلجوق یونیورسٹی جبکہ آخری ذکرکردہ دو محترم اساتذہ کا تعلق نجم الدین اربکان یونیورسٹی سے تھا۔ کیونکہ اس امتحان کے لیے شرط یہ ہوتی ہے کہ کم از کم دو اساتذہ کسی دوسرے یونیورسٹی سے ہوں۔ ان میں سے پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل حق اتچیقن میرے ماسٹر میں بھی نگران استاد تھے جبکہ ڈاکٹر علی دادان جو کہ ترکی میں میرے سب سے پسندیدہ استاد ہیں سے میں نے ماسٹر کے دوران ’’اسلام کے ابتدائی عہد میں ترکوں کی تاریخ ‘‘ کے عنوان سے سبق پڑھا تھا۔  ان تینوں مرحلوں کو پاس کرنے کے بعد سب سے مشکل اور پل صراط جتنا مشکل مرحلہ آتا ہے وہ ہے پی-ایچ-ڈی کا مقالہ لکھنا اور اسے پاس کروانا۔

سیمینار لکھنے کے دوران ابن بطوطہ کے سفرنامہ سے بعض مقامات پر مدد لی تھی۔ لیکن کیونکہ میرا موضوع تو محض سلطان علاء الدین خلجی کا ہی زمانہ تھا جبکہ ابن بطوطہ تو ہندوستان میں آیا ہی سلطان کی وفات کے بعد تھا۔ البتہ اس مراکشی سیاح نے  سلطان محمد شاہ تغلق کے زمانہ کے حوالہ سے انتہائی اہم اور آنکھوں دیکھے واقعات بیان کیے ہیں۔ مئی میں سیمینار مکمل کرنے کے بعد میں پاکستان چلاگیا جہاں ابن بطوطہ کی ایک جلد مکمل کی جبکہ دوسری جلد ساتھ لی لے آیا اور واپس ترکی آکر اس کو بھی مکمل پڑھا۔  سیمینار کی تکمیل کے بعد میں نے ’’ہندوستان جیسا کہ ابن بطوطہ نے دیکھا‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مختصرا مضمون تحریر کرنے کے بارے میں سوچا۔ انہی دنوں ادیف تنظیم نے ایک بین الاقوامی کانفرنس ادرنہ شہر میں منعقد کروانے کا اعلان کیا۔ آج کل ترکی میں یہ تنظیم بہت اہم اور فعال ہے لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے یہاں تھوڑا اس کا بھی تعارف کروادیا جائے۔

 

ادیف انمجن: (غیر ملکی طلبائ کی مشترکہ تنظیم)

2000ئ کے بعد جب ترکی کی اقتصادی حالت قدرے بہتر ہونا شروع ہوئی اور غیر ملکی طلبائ بھی ترکی وظیفہ کی یا اپنی مدد آپ کے تحت آنا شروع ہوئے تو ضرورت اس امر کی بھی تھی کہ ان نئے آنے والے طلبائ کے مسائل کو حکمائ بالاتک پہنچائے جائے اور ان کو حل بھی کیا جائے۔ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے 2004ئ میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔  اس وقت اس انمجن کے ماتحت ترکی کے 75 مختلف شہروں میں 65 ذیلی انجمین کام کر رہی ہیں۔ یوں ترکی میں تعلیم کی غرض سے آئے دوسرے ممالک کے طلبہ کے حوالہ سے تعلیمی و دوسرے امور کے حوالہ سے کام کرنے والی یہ ترکی کی سب سے بڑی غیر سرکاری انجمن ہے۔ اس انجمجن کے ماتحت مختلف تعلیمی کورسز کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کا تعارف، ان ممالک کے مشہور کھانوں کا ترکوں سے تعارف، مختلف قسم کے معاشرے و کھیلیوں کے پروگراموں اور مقابلوں کا انعقاد اور مختلف تاریخی اور ثقافتی جگہوں کی سیر طلبائ کو کروائی جاتی ہے۔ باہر سے آئے غیر ملکی طلبائ جن کو ترک مسافر طلبائ کا نام دیتے ہیں کیونکہ ترکوں کا کہنا ہے ان کو غیر ملکی یا غیر کہنا ہماری ثقافت کے خلاف ہے اس لیے ہم انہیں مسافر طلبائ کہتے ہیں اور ہم میزبان ہیں۔ (ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے کہ محمد شاہ تغلق کے زمانہ میں ہندوستان کے باہر سے آنے والوں کو غیریب یعنی غیر ملکی کہنے پر پابندی تھی بلکہ مقامی لوگ باہر سے آنے والوں کو عزیز یعنی پیارا کہہ کر پکارتے تھے۔)

ادیف ہر سال مسافر طلبائ کو ترکی تاریخ ، معاشرتی نظام بتانے کے ساتھ ساتھ ترکوں کو ان ممالک کے متعلق جاننے کے حوالہ سے ہر سال ترکی کے مختلف شہروں میں ’’ممالک کا تعارف‘‘ کے نام سے پروگرام کرواتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طلبائ کے لیے مختلف شہروں میں سردی اور گرمی دونوں موسموں میں کیمپ اور 3 ماہ کی چھٹیوں کے دوران مختلف پروگرام اور کورسز وغیرہ کرواتی رہتی ہے۔ اس انجمین یعنی ادیف کی ذیلی 65 انمجن میں رجسٹرڈ طلبائ کی تعداد 55 ہزار سے زائد ہو چکی ہے اور ترکی میں تعلیم کے سلسلہ میں مقیم کل طلبائ کی تعداد لگ بھگ 178 ہزار ہے۔  اس وقت ہر شہر میں جہاں پر غیر ملکی طلبائ ہیں ادیف کے ماتحت ایک ذیلی تنظیم ہے جس میں ہر ملک کا ایک نمائندہ ہوتا ہے جس کو اس ملک کا وزیر/نمائندہ کہا جاتا ہے۔ مثلاً قونیہ میں پاکستان کی وزارت گزشتہ 3 تین سے میرے پاس ہے۔ پھر اس خطہ کا ایک نمائندہ ہوتا ہے جسے اس خطہ کا وزیر کہا ہے۔  جیسے عرب ممالک کا ایک وزیر ہے، اسی طرح ترک ممالک کا ایک وزیر ہے اسی طرح بلقان کا ایک علیحدہ وزیر ہوتا ہے۔ اور کوئی مسئلہ یا ضرورت پڑنے پر ملکی نمائندہ اپنے خطہ کے نمائندہ سے بات کرتے ہیں یوں یہ مکمل ایک مربوط نظام کارفرما ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تنظیم غیر ممالک سے آئے طلبائ کی مختلف اوقات میں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے لیے بھی پروگرام کرواتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم کا نعرہ ’’ ہم سب ایک قوم ہیں‘‘ ہے۔ کسی حدتک حکومت اور پھر ترکی کا امیر طبقہ اس تنظیم کی مالی معاونت کرتے ہیں۔ یوں اگرچہ یہ تنظیم ان تمام پروگراموں، سیاحت وغیرہ کے لیے طلبائ سے پیسے تو نہیں لیتی البتہ حکومتی سطح اور ترکی تاجروں سے بھرپور مالی معاونت حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ پہلے جب میں سرکاری ہوسٹل میں رہتا تھا اور میرے لیے ترکی کے کیس بھی شہر کے سرکاری ہوسٹل میں دس دن تک قیام بالکل مفت کی اجازت تھی۔ لیکن جب سے ماسٹر کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد میں سرکاری ہوسٹل سے اپنی رہائش ایک تنظیم ’’اکی دو اکی باتی‘‘ (دو مشرقین دو مغربین) کے گھر میں رکھی ہے اس وقت تک اب کسی بھی شہر میں دو چار دن کے لیے جانا ہو تو اسی تنظیم ادیف کی اس شہر کی ذیلی تنظیم کے گھر میں مفت میں ہی قیام کرلیتا ہوں۔

ادیف نام کی یہ تنظیم ترکی کے مختلف شہروں میں سال میں ایک یا دو بار بین الاقوامی کانفرنسیس بھی کرواتی ہے۔ ترکی بھر سے شریک غیر ملکی طلبائ کو کانفرنس کے منعقدہ کردہ شہر کے آنے جانے کا ٹکٹ، وہاں رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست بھی کرتی ہے۔ چنانچہ اس سال یعنی 2019 میں اس تنظیم نے ’’ غیر ملکی طلبائ کا 5واں مجلسِ مباحثہ ‘‘ پروگرام 6-8 دسمبر 2019 ادرنہ شہر کی تراقیہ یونیورسٹی میں کروانے کا اعلان کیا۔ چنانچہ میں پہلے ہی ابن بطوطہ کے حوالہ سے کچھ لکھ رہا تھا اس کا خلاصہ پہلے کانفرنس کے لیا بھجیا۔ جو قبول ہونے کا بعد مکمل متن بھی ارسال کردیا۔ چنانچہ کانفرنس سے ایک ہفتہ قبل ہمیں آنے جانے کی بس کے ذریعے ٹکٹ بھیج دی گئیں۔ بس کے ذریعے قونیہ سے ادرنہ شہر تقریباً13-14 گھنٹہ کی مسافت پر ہے۔ جس پر طلبائ نے بہت احتجاج کیا اور کہا کہ ہرسال کی طرح انہیں اس سال بھی ہوائی جہاز کی ٹکٹ دی جائیں۔ میں نے بھی انتظامیہ سے فون پر بہت ادب اور تسلی سے بات کی لیکن ان کا مختصر جواب یہی دیا کہ ہم جہاز کے ذریعے آنے جانے کا کرایہ نہیں دے سکتے اگر آپ چاہیں تو خود ہی اپنی جیب سے جہاز کے زریعہ آجائیں۔ اس طرف سے مایوس ہونے کے بعد کوشش کی ہے بس کی ٹکٹ واپس کرکے کچھ پیسے جیب سے ڈال کر جہاز کے زریعے چلیں جائیں گے لیکن معلوم ہوا کہ یہ بھی ناممکن ہے۔ کیونکہ انتظامیہ نے 34 ٹکٹیں قونیہ سے ادرنہ کے لیے رعایتی قیمیت پر لی ہیں جو کہ ناقابلِ واپسی ہیں لہذا جب ہر طرف سے مایوسی ہوئی تو کوئی چارہ نہ پاکر اسی بس کے ذریعہ ہی جانا قبول کیا۔

ادرنہ روانگی:

چنانچہ 5 دسمبر 2019 رات 22:00 بجے والی بس کے ذریعے قونیہ لاری اڈہ سے ادرنہ کی جانب روانہ ہو نے کے لیے گاڑی کے چلنے کے مقررہ وقت سے 15 منٹ قبل ہی قونیہ کے لاری اڈا میں پہنچ گئے۔ لیکن یہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ بس اپنے مقرہ وقت سے 40 منٹ دیر سے چلے گئی اور ساتھ ہی معلوم ہوا کہ قونیہ سے 34 طلبائ کے لیے انتظامیہ نے ٹکٹ خریدی تھی جس میں تقریباً 10 کے قریب طلبائ و طالبات نہیں جارہے ۔ بہرحال 22:40 منٹ پر بس نے ادرنہ کی جانب حرکت کی۔ جو ٹکٹ مجھے بھیجی گئی تھی اس کے مطابق قونیہ سے ادرنہ ٹکٹ کی قیمیت 144 ترک لیرا لکھی ہوئی تھی۔ یہ رعایت کے ساتھ ملی تھی ورنہ مکمل ٹکٹ قونیہ سے ادرنہ کے لیے 160 ترک لیرا کی تھی۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر ایران سے تعلق رکھنے والے اور سلجوقی یونیورسٹی میں ہی سوشیالوجی میں پی-ایچ-ڈی کر رہے ہدایت ایدی تاراخامی بھی تھے۔  ان سی میری پہلے سی ہی سے دوستی تھی یوں راستے میں ہم باتیں کرتے گئے اور سفر قدر آسانی سے کٹتا رہا۔ ان کی ہی وساطت سے میں بہت سے ایرانی فلاسفہ و مصنیفین سے متعارف ہوا۔ جن میں ڈاکٹر علی دشتی، علی شریعتی، داریوش شایگان سمیت کئی دیگر شامل ہیں۔ کئی کتب پر ہم نے کئی کئی مجالس میں بحث و مباحثہ کیا۔ ان میں ڈاکٹر علی شریعتی کی کتاب ’’فاطمہ فاطمہ ہے‘‘ اسی طرح علی دشتی کی کتاب ’’ بیست و سه سال‘‘ یعنی 23 سال۔ جو کہ پیغمبر علیہ السلام کی زندگی کی 23 سالہ تاریخ کا ایک تنقیدی جائزہ ہے۔ یہ کتاب میں نے انگریزی جبکہ ہدایت بھائی نے فارسی زبان میں پڑھی جبکہ اس پر بحث ومباحثہ ہم نے ترکی زبان میں کیا۔ اسی طرح مشہور امریکی مصنف انتونی بلیک کی  زبردست کتاب ’’اسلام کی سیاسی سوچ کی تاریخ‘‘شامل ہیں۔ اسی طرح کئی ایک کتب ہم نے سبقاً سبقاً فارسی زبان میں بھی پڑھنے کی کوشش کی تھی اگرچہ وہ پوری نہیں ہوسکی۔ان میں سے ایک کتاب  حال ہی میں فوت ہونے والے مہشور ایرانی فلسفی و مورخ داریوش شایگان (1935-2018ئ) کی’’ ادیان و مکتبهای فلسفی هند‘‘  تھی۔  بہرحال باتیں کرتے ہوئے اور سوتے ہوئے ہم نے فجر کے لیے ایک جگہ پڑا کیا۔ جہاں پر ہمارے خطہ کے وزیر بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے دوست محمد جہانگیر نے گھر کی بنی ہوئی مٹھائی ہمیں پیش کی۔ وہیں سے ہم نے ترک چائے، ایک ترک سیمت (روٹی کی طرح کی ایک چیز ہوتی ہے) اور جہانگیرصاحب کی دی ہوئی مٹھائی کھائی۔ صبح کا سورج نکل رہا تھا جب ہم لوگ استنبول لاری اڈے پر پہنچے۔ وہاں تقریباً آدھا گھنٹہ رکنے کے بعد اب ہماری منزل ادرنہ شہر کا لاری اڈا تھا۔ جہاں ہم لوگ6 دسمبر 2019ئ دوپہر تقریباً 11 بجے کے لگ بھگ پہنچ گئے۔ وہاں پر تراقیا یونیورسٹی کی بس ہمیں لینے کے لیے پہلے ہی منتظر تھی چنانچہ اس میں بیٹھ کر انتظامیہ کی طرف سے رہائش کا بندوبست کردہ جگہوں پر پہنچا دیے گئے۔

ادرنہ کا مختصر تعارف:

یہاں مزید آگے بڑھنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ادرنہ شہر کا مختصر تعارف بھی قارئین کرام سے کروادیا جائے۔  ادرنہ ترکی کے مغربی حصے میں تراقیا (تھریس) کے علاقے میں واقع شہر ہے۔ اس شہر کی سرحدیں یونان اور بلغاریہ سے ملتی ہیں اور یہ ترکی کے یورپی حصے ميں واقع ہے۔ انگریزی زبان میں اس شہر کو پہلی جنگ عظیم تک ایڈریانوپل کہا جاتا تھا۔ 2018 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق ادرنہ کی کل آبادی 180،327 نفوس پر مشتمل تھی۔ادرنہ،  ترکی کو یورپ سے زمینی راستہ سے ملانے والا سرحدی شہر ہے۔ ادرنہ مغربی دنیا کے لیے "بابِ ترکی” کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ یورپ کی جانب سے ترکی آتے ہوئے پہلا شہر ہے۔ یہ یونان کی سرحد سے محض7  کلومیٹر اور بلغاریہ کی سرحد سے 17 کلومیٹر دور واقع ہے۔ موسم عموماً خشک ہی رہتا ہے۔ یہ جگہ 1400-1200 قبل مسیح مائسینی یونانیوں کے زیر انتظام تھی۔ 510 قبل مسیح اس علاقہ پر فارسی حکمران دارا اول(549-485 ق م) نے یونانیون کو شکست دیکر اس جگہ کو بھی فارسی سلطنت کے ماتحت کرلیا۔ 162 قبل مسیح میں رومیوں نے فارسیوں کو اس جگہ سے مکمل طور پر بے دخل کرکے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ 395 سن عیسوی میں رومی سلطنت کے مشرقی و مغربی حصہ پر تقسیم ہونے پر یہ جگہ مشرقی رومی سلطنت جس کو بازنطینی سلطنت بھی کہا جاتا ہے کے حصہ میں آئی۔ جو کم از کم اگلے پانچ سو سال تک بازنطینی سلطنت کے ماتحت ہی رہی۔ اس زمانہ میں اس شہر کو ’’ ہرڈیانہ پولیس ‘‘ کہا جاتا تھا۔ صلیبی جنگوں کے دوران 1205 میں لاطینی سلطنت کے ماتحت چلا گیا پھر 1261 میں بلغاروں نے اس کو اپنے قبضہ میں کرلیا۔ حتیٰ کہ 1361-1271 سالوں کے درمیان اس جگہ پر عثمانیوں کا قبضہ ہوگیا۔ اس شہر کو 1360ء میں عثمانی سلطان مراد اول نے فتح کیا اور بعد ازاں دارالحکومت قرار دیا۔ یہ 1365ء سے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ تک عثمانی سلطنت کا دار الخلافہ رہا۔فاتح استنبول سلطان محمد فاتح دوم کی پیدائش بھی بتاریخ 30 مارچ 1432ئ کو اسی شہر ادرنہ میں ہوئی تھی۔

اگرچہ 1453 میں فتح استنبول کے ساتھ ہی ادرنہ کی بجائے استنبول عثمانی سلطنت کا مرکز بن گیا اور ادرنہ کی وہ پہلے والی حیثیت نہ رہی لیکن اس کے باوجود ادرنہ اہم تجارتی مرکز ہونے کی وجہ عثمانی بادشاہوں کی نظر میں اس کی ہمیشہ سے ہی خاص اہمیت رہی تھی۔ کبھی بلقان کے لیے عثمانی سلطنت کے پیھلائو میں  دروازہ کا کردار ادا کرنے والا یہ شہر ادرنہ سلطنت کے کمزور ہونے پر سلطنت کے بکھرنے میں بھی اہم کردار ادا کرنے لگا۔ اس شہر پر 1829ء میں یونانی جنگ آزادی کے دوران روس نے، 1878ء میں بلغاریہ کی آزادی کی جنگ کے دوران بلغاریہ اور 1920ء کی دہائی کے ابتدائی عرصے میں یونان نے قبضہ کر لیا تھا۔ ترکوں کی جنگ آزادی کے دوران 25 نومبر 1922 میں یہ شہر مکمل طور پر ترکوں کے قبضہ میں آگیا۔ اور پھر لوزانہ معاہدہ کے تحت اس سارے علاقہ کو جمہوری ترکی کا حصہ بنادیاگیا۔ کیونکہ کبھی یہ شہر عثمانی سلطنت کا مرکز رہا تھا اس لیے یہاں پر جگہ جگہ عثمانیوں کی تعیمر کردہ مساجد، حمام، محلات اور بازار وغیرہ موجود ہیں۔

تھریس یا تراقیا رہائش گاہ کو روانگی:

پہلے تو لاری اڈے میں ہی ہمیں انتظار کرنا پڑا کیونکہ کسی دوسرے شہر سے بھی طلبائ کی ایک بس آرہی تھی یوں ہمیں اکٹھے ہی لے کر جانا تھا۔ خدا خدا کرکے وہاں سے نکلے۔ پہلے چند طلبائ کو ہوٹل میں ٹھہرایا۔ بعد میں ،میں نے ان طالبات سے ہوٹل بارے پوچھا تو انہوں نے کہا نہ ہی بہت اچھا اور نہ ہی بہت برا بس ٹھیک ہے کہہ کر ٹال دیا۔ کچھ طالبات کو لڑکیوں کے سرکاری ہوسٹل میں ٹھہرایا۔ جبکہ مجھے اور ہدایت ایرانی کو ادرنہ میں موجود انصار وقف کے لڑکوں کے ہوسٹل میں ٹھہرایا گیا جو کہ ادرنہ مرکز کے قریب ہی مراد اول محلہ میں ہاشم اشجان گلی میں واقع تھا۔ جب ہم ہوسٹل میں داخل ہوئے تو ظہر کی اذانیں ہو رہیں تھیں۔ مجھے اور ہدایت کو ایک کمرہ دیا گیا۔ ہم نے کمرے میں سامان رکھا ، تازہ دم ہو کر ہوسٹل کے باورچی خانے سے ہی معمولی سا کھانا کھایا اور تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد شہر دیکھنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔

سلیمیہ مسجد و سلیمیہ کلیہ:

جہاں ہمیں ٹھہرایا گیا تھا اس کے بالکل سامنے ہی مرکزی شاہراہ تھی جس سے بسیں شہر مرکز کی طرف جاتیں تھیں۔ میں اور ہدایت اپنے کمرے میں تھوڑی دیر سستانے کے بعد یہاں سے بس میں بیٹھ کر شہر مرکز کی جانب چل دیے۔ بس میں ایک عجیب بات جو ترکی میں میرے ساتھ پہلی مرتبہ ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ ادرنہ میں ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ یا پھر جہاں جانا ہو کرایہ سرکاری بسوں میں 3:50 ترک لیرا تھا۔ یوں دو آدمیوں کا کرایہ 7 ترک لیرا بن رہا تھا۔ چونکہ ہم اس شہر میں نہیں رہتے لہذا ہمارے پاس بس کارڈ تو تھے نہیں اسی لیے میں نے نقد 10 لیرا ڈرائیور کو دیے۔ اس نے کہا کہ کرایہ 7 ترک لیرا ہے اس لیے 7 لیرا ہی دیں۔ میں نے بتایا کہ میرے پاس تو کھلے نہیں ہیں اس نے کہا کہ سی مسافر سے پوچھ لیں جو آپ کو کھولے دیے سکے۔ کسی مسافر کے پاس بھی ایسی حالت میں کھولے نہیں تھے کہ جو ہمیں 7 لیرا علیدہ اور 3 لیرا علیحدہ دے۔ تو ڈرائیور نے بتایا کہ اضافی 3 لیرا بھی آپ لوگوں کو واپس نہیں ملے گا۔ کیونکہ اس شہر میں جو بھی سفر کرتا ہے یا تو اس کے پاس کارڈ ہوتا ہے یا پھر 3:50 لیرا جیب میں لے کر بس بیٹھتا ہے۔ بصورت دیگر 5 یا 10 لیرا دینے کی صورت میں اضافی رقم بقایا نہیں دی جاتی۔ ہم دونوں کو اس شہر کا یہ رواج بہت عجیب محسوس ہوا۔ بالخصوص ہم تو قونیہ شہر میں مفت میں سفر کرتے رہتے تھے اس لیے ہمیں زیادہ تکلیف دہ بھی محسوس ہوا۔ بہرحال ایسی باتیں کرتے کرتے ہم لوگ شہر مرکز میں پہنچ گئے۔

بس نے جہاں ہمیں اتاراتھا بالکل اسی ہاتھ ہم لوگ بلندی کی جانب چڑھنا شروع ہوگئے۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ہماری بائیں جانب ایک کھولا میدان تھا۔ جس میں سرسبز گھاس لگی ہوئی تھی ساتھ ہی رنگ برنگ لاطینی الفاظ کے ساتھ ادرنہ شہر لکھا ہوا تھا۔ اسی میدان میں سلطان سلیم گھوڑے پر سوار ایک ہاتھ سے تلوار بلند کیے ہوئے جبکہ ان کے بالکل سامنے شاہی توپ رکھی ہوئی ہے، معمار سنان پاشا کا مجسمہ بھی اسی میدان میں بنا ہوا تھا۔ لیکن ہم نے پہلے سلیمیہ مسجد دیکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد اس میدان کی طرف آنے کا ۔ چنانچہ وہاں سے تقریباً 5 منٹ بلندی کی جانب چڑھیں تو سامنے ہی محل کے دروزے کی ماند ایک دروازہ ہے جس سے سلیمیہ کلیہ میں داخل ہوا جاتا ہے۔ سورج کی شعاعیں اس دروازہ پر پڑی رہی تھی جو کہ بہت پیارا منظر پیش کررہا تھا۔ میں نے یہ منظر اپنے موبائل کے کیمرے میں محفوظ کرلیا۔ ہم اس دروازے اس اندر داخل ہوئے ۔ تو اندر ایک بڑا بازار تھا جوکہ بالکل استنبول کے گرینڈ بازار (بڑے بازار) کی ماند تھا۔ اس کے اوپر چھت بنی ہوئی تھی جبکہ اندر گلییاں اور دوکانیں تھیں۔ البتہ اس بازار میں نہ ہی تو استنبول کے گرینڈ بازار والی گیما گہمی تھی اور نہ ہی گاہوں کی بھیڑ۔ ہم آہستہ آہست تصویریں بناتے ہوئے چلتے گئے۔ سامنے سے ایک بند گلی سے گزرے اور مسجد کی جانب چلنا شروع کردیا کہ جس کا دروازہ اس بازار سے بلندی کی جانب تھا۔ سیڑھیوں پر کچھ بچے مختلف قسم کی گلی کی زنجیریں، گھڑیاں اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچ رہے تھے۔ ہم مسجد کے مرکزی دروازہ سے اندر داخل ہو گئے۔

جب اندر داخل ہوئے تو یہ مسجد اپنے دیکھنے والوں کو پہلی ہی نطر میں حیران کردیتی ہے۔ خوبصورت اور بلندوبالا مینار اور اس کا طرز تعمیر اس کے بنانے والے معمار سنان پاشا کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میں مرکزی دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کچھ دیر تک معمار سنان پاشا کی فن مہارت کے اس نمونہ کو دیکھتا رہا۔ جبکہ مسجد کے مرکزی داخلی دروازہ کے سامنے خالی صحن میں کہ جہاں سبز گھاس لگی ہوئی ہے چند غیر ترک نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تصاویر بنانے میں مصروف تھے۔ ہم مسجد کے اندر داخل ہوئے تو اندرونی طرف استنبول کی سلیمانیہ کی ماند ہے۔ تزین و آرائش اور پھر سرخ قالین نے اندرونی حصہ کو مزید خوبصورت بنا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ نمازیوں کی تعداد 20 سے زائد نہ تھی۔ اس کے بعد ہم اسی عمارت یعنی مسجد کے عقبی سمت میں گئے جہاں وضوکے لیے چشمہ بنایا گیا تھا اور اب اس میں پانی کے لیے ٹوٹیاں لگی ہوئی تھیں۔اس سمت مسجد کا ایک اور دروازہ بھی ہے جس سے ہم باہر نکلے ۔ سامنے انتہائی قدیم قبرستان ہے جس میں مختلف قبروں پر مرحومین کے نام و تاریخ وفات درج تھی۔ قبرستان کہ جس کے دروازے پر تالہ لگاہوا تھا ۔ ہم اس کی دیوار تک گئے اور وہاں سے مسجد کے ساتھ بالکل خالی گلی سے نیچے اترنے لگے۔ مسجد کی بائیں جانب میں بنائی گئی کشادہ یہ گلی ڈھلوان کی صورت میں نیچے اترتی ہے۔ ہم نیچے اتر کر مرکزی سڑک کے بالکل پاس والے خالی میدان میں آگئے۔ جہاں سے سلیمیہ مسجد اب ایک ہی منظر میں مکمل طور پر نظر آرہی تھی۔

مسجد کے دروازے پر لکھی ہوئی تحریر کے مطابق اس کی تعمیر 976 ھجری بمطابق 1568 میلادی میں شروع کی گئی۔ 24 نومبر 1574 بروز جمعہ اس کے افتتاح کا دن مقرر کیا گیا لیکن سلطان سلیم کی وفات کے بعد 14 مارچ 1575 میں عبادت کے لیے کھولی گئی۔  جہاں آج یہ مسجد ہے پہلے اسی مقام پر عثمانی شہزادہ سلیمان چلبی(وفات 1411ئ) کے زمانہ میں ایک محل تعمیر شروع کی گئی تھی جوکہ چوتھے عثمانی بادشاہ یلدرم بایزید  کے زمانہ اقتدار (1389-1402)میں تکمیل کی گئی۔یوں ادرنہ میں پہلا عثمانی محل ’’سرائے ایلک‘‘(یعنی پہلا محل) اسی جگہ تعمیر کیا گیاتھا۔ اس وقت اس جگہ کانام ’’ساری بیئر‘‘ یا پھر ’’قاواک میدان‘‘کہا جاتا تھا۔ قاواک میدان کے نام سے مشہور اس جگہ پر تعمیر کی گئی یہ عظیم الشان مسجد 11ویں عثمانی بادشاہ سلطان سلیم دوم کے حکم پر مشہور ماہر تعمیرات سنان پاشا نے مستطیل میدان میں تعمیر کی۔ اس میدان کے بالکل وسط میں مسجد، جنوب مشرق اور جنبوب مغرب ہر دوسمت میں ایک ایک مدرسہ جبکہ مغربی سمت میں ایک آراستہ (یعنی دوکانوں کی قطار) اور چھوٹے بچوں کے لیے مکتب بنایا گیا تھا۔  اس میں ایک تاریخی شفا خانہ بھی واقع ہے جسے اب عجائب گھر بنا دیا گیا ہے۔  سلیمیہ مسجد کے مینار عثمانی عہد میں تعمیر کیے گئے سب سے بلند مینار ہیں جن کی جن کی بلندی 70.9 میٹر ہیں۔ اسے سنان پاشا کے فن کا عظیم ترین شاہکار اور اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ جب معمار سنان پاشا نے اس مسجد کی تعمیر کی تھی اس وقت ان کی عمر 80 یا 90 سال کے لگ بھگ تھی اور ان کے اپنے الفاظ میں ’’یہ میرا فنی شاہکار‘‘ ہے۔ یہ مسجد عثمانی سلطنت اور معمار سنان کی تعمیر کردہ اہم ترین اور خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ سنان نے مسجد کا طرز تعمیر ایسا رکھا کہ مسجد کے ہر کونے سے محراب صاف دکھائی دے۔

اس مسجد میں روایتی عثمانی طرز تعمیر کے حامل چار خوبصورت مینار بھی شامل ہیں جبکہ ایک عظیم گنبد پر اس پر موجود ہے۔ مسجد کے گرد کتب خانے، مدرسہ، حمام، لنگر خانہ، بازار، شفا خانہ کے علاوہ ایک قبرستان بھی قائم کیا گیا تھا۔ اس مسجد کی اندرونی جانب استعمال کیا گیا مرمر ، چینی پتھر اور خط بھی انتہائی اہم اور خوبصورت ہے۔ بڑے گنبد کے بالکل نیچے محفل حنقار (یعنی مسجد میں ایسی  جگہ جہاں پرعثمانی بادشاہ بیٹھتے یا عبادت کرتے تھے۔ حفاظی نقطہ نظر سے یہ قدر خاص انداز سے تعمیر کی جاتی تھی۔) 12 ستون جو کہ سنگ مرمر سے تعمیر کردہ ہیں اور 2 میڑ بلند ہیں۔   سلطان سلیم نے یہ مسجد تعمیر کرنے کے لیے پایہ تخت استنبول کی بجائے ادرنہ شہر کا انتخاب کیا اس کی ایک وجہ تو اولیائ چلبی نے اپنے سیاحت نامہ میں تحریر کی ہے اگرچہ اس کے صحیح ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اولیائ چلبی کے مطابق بادشاہ نے خواب میں پیغمر اسلام حضرت محمدﷺ کو دیکھا اور انہوں نے قبرص کی فتح کی یادگار کے طور پر ایک مسجد تعمیر کروانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن مسجد کی تعمیر شروع ہونے کے تین سال بعد 1571 میں قبرص فتح ہوا۔ یوں یہ بات زیادہ دل کو نہیں لگتی۔  معقول وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان دونوں استنبول میں فاتح اور سلیمانیہ جیسی عظیم مساجد کے ہوتے ہوئے اتنی بڑی نئی مسجد کی ضرورت نہ تھی ساتھ ہی ساتھ سلطان سلیم نے اپنی جوانی اور شہزادگی کے دن اسی شہر میں گزارے تھے اسی واسطے اس شہر یعنی ادرنہ سے اسے خاص لگائو تھا جس کے اظہار کے لیے اس نے یہ مسجد تعمیر کروائی۔ 2011 میں علمی و ثقافتی تنظیم یونیسکو نے سلیمیہ مسجد اور کلیہ کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔ ہر عالمی ورثے کا حامل مقام اس ملک کی ملکیت ہے جہاں وہ واقع ہے لیکن مستقبل میں بنی نوع انسان کے لیے اسے محفوظ رکھنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔

اس میدان کے بالکل وسط میں فاتحِ استنبول سلطان محمد فاتح دوم کا مسجمہ نصب ہے جس میں وہ ایک ہاتھ ہوا میں بلند کیے گھوڑے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کےگھوڑے کے دائیں بائیں شاہی توپ کے نام سے دو توپیں رکھی ہوئی ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ یہ توپیں فتح استنبول کے وقت لڑائی میں استعمال کی گئی تھیں۔ ہدایت نے مجھے سے پوچھا کہ اس پر عربی میں کیا لکھا ہوا ہے تو میں نے توپ کو قریب سے جاکر دیکھا جس کے منہ پر دونوں سمت یعنی دائیں اور بائیں جانب عربی رسم الخط کے ساتھ ’’ اللھم انصر السطان محمد بن مراد خان‘‘۔  (اے اللہ سلطان محمد بن مرادخان کی مدد فرما)  اس کےساتھ ہی توپوں بارے معلومات دینے والا ایک چھوٹا سا تختہ بھی لگا تھا۔ جس پر ترکی اور انگریزی زبان میں ان شاہی توپوں کا تعارف لکھا ہوا تھا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ توپ سلطان محمد فاتح کے حکم پر ماجار اربان نامی ماہر نے تیار کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ توپیں 30 گاڑیوں پر رکھ کر ادرنہ سے استنبول دو ماہ کے عرصہ میں لائی گئیں۔ ان 30 گاڑیوں کو 140 بیل کھنچ رہے تھے جبکہ یہ توپیں گاڑیوں سے گرنے سے بچانے کے لیے 200 فوجیوں کو ذمہ داری دی گئی تھی۔ ہر ایک کی لمبائی 5،5 میٹر، چوڑائی 120 سینٹی گرام جبکہ وزن 18 ٹن ہے جبکہ 1200 میڑ کے فاصلہ تک کو نشانہ بناسکتی تھی۔

اسی میدان میں ان 2توپوں سے دو چار قدم اگلی جانب لاطینی رنگ برنگ الفاظ میں ادرنہ شہر کا نام لکھا ہوا بورڈ زیر پر خوبصورتی سے آویزاں کیا گیا تھا۔ جس بورڈ کے بالکل دائیں جانب مشہور معمار سنان کا مجسمہ نصب تھا۔ جس میں وہ ہاتھ میں قلم کاغذ لیے کسی عمارت کا نقشہ بنارہے تھے۔ مجسہ کے بالکل نیچے سنہری رنگ کے ساتھ ان کا نام اور عرصہ حیات لکھا لاطینی حروفِ تہجی کے ساتھ درج تھا۔  ’’معمار خواجہ سنان 1490-1588‘‘ اب اگر آپ ادرنہ لکھے ہوئے بورڈ کے ساتھ کھڑے ہوں تو آپ کی دائیں جانب معمار خواجہ سنان کا مجسمہ، بالکل عقبی سمت میں فاتح سلطان محمد کا مجسمہ جبکہ عقبی سمت میں آسمانی کی جانب سلیمیہ مسجد کے مینار اور گنبد نظر آئیں گے۔ اس جگہ کھڑے ہوکر تصاویر بنانے کے لیے ترک و غیرملکی سیاحوں کا اس قدر رش تھا کہ ہمیں باری میں لگ کر تصاویر بنوانی پڑیں۔ ترکی نے ہر شہر میں ایسی ہی چھوٹی چھوٹی چیز بناکر اور پہلے سے موجود تاریخی چیزوں کی بہتر دیکھ بھال کرکے سیاحتی شعبہ کو حیرت انگز طور پر بلندی کی طرف لے گیا ہے اور اسی سے معاشی فائدہ بھی حاصل ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2019ئ میں تقریباً ساڑھے چار کروڑ غیر ملکیوں نے ترکی کا سفر کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ایک بڑی رقم باہر سے ترکی میں آئی ہے۔ کیونکہ غیر ملکی سیاح جس ائیرلائن سے آتے ہیں اس سے حکومت ٹیکس لیتی ہے، پھر ہوٹلوں میں ٹھرتے ہیں یوں ایک طرح حکومت ان ہوٹل مالکان سے ٹیکس لیتی ہے تو دوسری طرف وہاں کام کرنے والے مزدورں، باورچیوں اور کئی لوگ کو روزگار مل جاتا ہے۔

ہم تصاویر بنانے کے بعد اس میدان سے نیچے کی جانب چل پڑے۔ بالکل مرکزی شاہرہ کے کنارے جہاں پر ہم لوگ بس سے اترتے تھے ایک دوکان سے ایک ایک دونر زہرکھایا۔ اس دوکان کے دونر بہت لذیز تھا یا پھر مجھے بہت زیادہ بھوک لگئی ہوئی تھی اس لیے مججے اور زیادہ لذیر محسوس ہوا۔  وہاں سے ہم نے سڑک پار کی تو ہماری دائیں جانب ایسکی جامع (یعنی قدیم مسجد) نام سے ایک خوبصورت مسجد تھی۔ اس مسجد پر لکھے ہوئے کتبہ کے مطابق قونیہ سے تعلق رکھنے والے حاجی علاء الدین نے یہ مسجد تعمیر کی تھی۔ اس مجسد کے شمالی اور شمال مشرقی جانب ایک ایک مینار بنا ہوا تھا۔  یہ مسجد عثمانی شہزادہ سلیمان چلبی کی جانب سے 1403 میں تعمیر شروع کروائی گئی اور 5ویں عثمانی بادشاہ سلطان محمد اول کے زمانہ میں 1414 میں مکمل ہوئی۔ عثمانی بادشاہ سلطان محمد دوم (1691-1695) اور سلطان مصطفی دوم (1665-1703) کی تلوار کشائی کی تقریب بھی اسی مسجد میں ہی منعقد کی گئی تھی۔ اس مسجد کی جو بات مجھے خاص لگئ وہ یہ تھی کہ دور سے دیکھنے پر ہی اپنے نام کی طرح قدیم اور پرانی محسوس ہورہی تھی۔ البتہ سلیمیہ جامع کے بالکل سامنے ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی زیادہ توجہ حاصل نہیں کرپاتی۔  ہم اس مسجد کے پاس سے گزرے اور سامنے عثمانی گلی میں داخل ہوگئے۔ یہ اصل میں ادرنہ شہر کا مرکزی بازار تھا۔ اس گلی کی ساخت اور بناوٹ بھی استنبول کی استقلال سڑیٹ کی طرح ہے۔ البتہ یہ ایک ڈھلوان سے نیچے کی جانب آتی ہے۔ یہاں پر کافی دوکانیں اور گاہوں کا رش تھا جبکہ بہت سے لوگ ہماری طرح بس ادھر ادھر دیکھ کر گزررہے تھے۔ ہر چوک پر فوارہ یا کسی جانور کی تصویر یا مجسمہ بنا ہوا تھا جوکہ یہاں چلنے والوں کے لیے تصاویر بنانے کا موقع فراہم کرتا تھا۔ بازار کے آخر تک ہم چل کر گئے جہاں پر ایک جل پری کا مجسمہ بنا ہوا تھا جوکہ آدھی عورت اور آدھی مچھلی کی صورت پانی میں نہارہی تھی۔ اس کے اوپر فوارے سے پانی گررہا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ دو چار تصاویر بنوائیں اور واپسی رہائش گاہ جانے کے لیے چل پڑے۔ سورج اب مکمل طور پر غروب ہوچکا تھا۔ جس گلی سے گئے تھے اسی راستے پر تیز تیز قدم چلتے ہوئے ہم واپس آگئے۔ یہاں پر پھر ای ٹی ایم سے پیسے نکالے جو کہ دس لیرے تھے  اگرچہ کرایہ تو سات لیرے بن رہا تھا لیکن چینج نہ ہونے کی وجہ سے دس ہی دینے پڑے۔ کیونکہ شام کا وقت ہوچکا تھا اور شہر مرکز میں کام کرنے والے لوگ اپنے اپنے گھروں کو جارہے تھے۔ اسی واسطہ گاڑی میں بھی خوب رش تھا۔ بہرحال اپنے ہوسٹل پہنچے جہاں پر کھانے کا وقت ہو رہا تھا۔ میں نے وہاں سے کھانا کھایا اور کمرے می آکر لیٹ گیا۔  بستر پر سارے دن کی کہانی میرے سامنے چل رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ آج کے دن میں نے کیا نیا سیکھا ، کیا پایا اور کیا کھویا۔ ساتھ ہی راستہ کیسے گزرا اور راستے میں کیا دیکھا بھی ذہن میں آرہا تھا۔

استنبول سے ادرنہ آتے ہوئے زیادہ تر کھیت وغیرہ تھے راستہ میں ایک اور شہر قرقلرایلی گزارا اور کانفرنس کے دوسرے دن ادرنہ کے بعد کا ایک اور شہر تکیر داغ بھی گیا۔ یوں ایک دن میں چناق قلعہ شہر کو چھوڑ کر میں نے سارا تراقیا یا تھریس کا علاقہ جو ترکی میں ہے گھوم لیا۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تراقیا کے علاقہ پر چند معلوماتی سطروں درج کردیں جائیں۔  تھریس یا تراقیا جنوب مشرقی یورپ کا ایک تاریخی و جغرافیائی علاقہ ہے۔ اس وقت تھریس جنوبی بلغاریہ، شمال مشرقی یونان اور ترکی کے یورپی حصے پر مشتمل علاقے کو کہا جاتا ہے۔ تھریس کی سرحدیں تین سمندروں سے ملتی ہیں جن میں بحیرہ اسود، بحیرہ ایجیئن اور بحیرہ مرمرہ شامل ہیں۔ قدیم تھریس میں موجودہ شمالی بلغاریہ، شمال مشرقی یونان اور مشرقی سربیا اور مشرقی جمہوریہ مقدونیہ کے حصے بھی شامل تھے۔

تراقیا کی مختصر تاریخ:

قرون وسطی میں رومی سلطنت کے خاتمے کے بعد 5 ویں صدی میں جرمینک قبیلوں کی زد میں آ گیا اور سقوط روم کے بعد تھریس اگلے ایک ہزار سال تک میدان جنگ بنا رہا۔ بلقان کے علاقے میں رومی سلطنت کی حقیقی جانشیں بازنطینی سلطنت 9 ویں صدی تک تھریس کے علاقے پر قابض رہی جب علاقے پر بلغاریہ نے قبضہ کر لیا۔ 972ء میں بازنطینی اسے دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تاہم 12 ویں صدی کے اواخر میں اسے پھر بلغاریوں کے ہاتھوں کھو بیٹھے۔ 13 ویں اور 14 ویں صدی میں یہ علاقہ بلغاریہ اور بازنطینی سلطنت کے درمیان جنگ کا میدان بنا رہا۔ عثمانی تھریس کا امتیازی نشان 1265ء میں منگولوں کی آلتن اوردہ حکومت نے اس پر قبضہ کر لیا اور بالآخر 1352ء میں عثمانی ترک اس علاقے کے ذریعے پہلی بار یورپ میں داخل ہوئے اور دو دہائیوں کے اندر پورے تھریس کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا اور اگلی 5 صدیوں تک یہ علاقہ ان کے زیر نگیں رہا۔1878ء میں شمالی تھریس کا علاقہ نیم خود مختار عثمانی صوبہ مشرقی رومیلیا میں شامل کیا گیا جو 1885ء میں بلغاریہ میں ضم ہو گیا۔ 20 ویں صدی کے آغاز اور جنگ بلقان، پہلی جنگ عظیم اور یونان۔ترک جنگوں کے بعد بقیہ تھریس بلغاریہ، یونان اور ترکی کے درمیان تقسیم ہو گیا۔ترکی کے مشہور شہر استنبول، ادرنہ اور گیلی پولی تھریس میں ہی واقعہ ہیں۔

تراقیا یونیورسٹی آمد:

دوسرے دن تازم دم ہوکر اچھا سا ناشتہ کیا اور پھر تراقیا یونیورسٹی کے بڑے خوبصورت اور کشادہ کانفرنس ہال میں شرکت کے لیے دروازہ پر ہی موجود یونیورسٹی کی بس میں بیٹھ گئے۔ تقریباً صبح 9 بجے سے قبل ہی ہم لوگ اس کانفرنس ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کانفرنس ہا ل کے دروازہ پر ہی ہمیں نام لکھے ہوئے کارڈ دیے گئے۔ تلاوت قرآن پاک کے بعد ہمیں  ایک بڑے مرکزی ہال میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ارحان تباقواوغلو نے تمام طلبہ کو خوش آمدید کہا اور استقبالیہ تقریرکی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پہلے تو پورے ترکی سے آنے والے طلبائ و طالبات کو انتہائی بہترین انداز میں خوش آمدید کہا اور پھر تراقیا یونیورسٹی کا مختصر تعارف کروایا۔ انہوں نے بتایا کہ تراقیا یونیورسٹی 1973میں استنبول یونیورسٹی کی شعبہ طب/ طب فیکلٹی کے ماتحت ادرنہ میں ایک میڈیکل کیمپس کے طور پر کھولی گئی تھی۔ 22 جولائی 1982 میں استنبول سے علیحدہ تراقیا یونیورسٹی کے نام سے ایک یونیورسٹی بن گئی۔ اس میں اب 12 مختلف مضامین کی فکلیٹیز، 4 انسٹیٹوٹ، 6 کالجز، 10 دستکاری سکول،28 تحقیق و تحریر کے مراکز، 1 پرائمری سکول موجود ہیں۔ اس میں 50 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اس یونیورسٹی کا بنیادی مقصد ترکی کا بلقان ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری و مضبوطی ہے۔ یہ یونیورسٹی ایک طرف تو بلقان ممالک کی یونیورسٹیز اور اہل علم کے ساتھ رابطہ کرکے مختلف پروگرام کرواتی ہے اس کے ساتھ ہی مختلف تہذیبی و ثقافتی پروگرام، صنعتی اور کھیلوں کے مقابلہ بھی کرواتی ہے۔ جبکہ اندرون ادرنہ یہ یونیورسٹی پانی اور زمین کے متعلقہ مسائل کو حل کرنے کے لیے اہل علم اور مقامی تاجروں اور زمینداروں کے مابین رابطہ کا کام دیتی ہے۔

ان کی تقریر کا ہر دوسرا جملہ بلقان اور ترکی کے تعلقات اور تراقیا یونیورسٹی نے اس حوالہ سے جو کام کیا ہے اس پر ختم ہوتا تھا۔ ان کی تقریر کے بعد جب طالبات نے سوال بھی کیے اور پھر ہمیں تراقیا یونیورسٹی اور بلقان کی مختلف یونیورسٹیز کے درمیان ہوئے مختلف تعلیمی و ثقافتی معاہدوں اور تعلقات وغیرہ کے حوالہ سے ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی۔ اس کے بعد اس ہال کے مختلف کمروں اور طلبائ و طالبات نے اپنے اپنے مقالہ جات پڑھنے شروع کردیے۔ چونکہ میرا مقالہ پڑھنے کی باری دوپہر 14:00 سے لیکر 15:20 والے جلسہ میں تھی اس لیے میں کانفرنس ہال سے باہر آگیا۔ میں وہاں سے یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری گیا جہاں پر میں نے امام احمد رضا خانؒ(1856-1921ئ) کی ایک عربی تصینف بطور تحفہ یونیورسٹی کی لائبریری میں دی اور واپس کانفرنس ہال میں آگیا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر گھومتا رہا ، یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کو دیکھا پھر دوپہر کے کھانے کے لیے سب کے ساتھ لنگرخانے چلاگیا۔ وہاں پر گوشت اور آلو کا بنانا ہوا بہترین کھانا کھایا اور واپس کانفرنس ہال میں آگیا کیونکہ میرے مقالہ پڑھنے کی باری قریب آتی جارہی تھی۔

مقالہ:

اپنی باری آنے پر کانفرنس کے  15ویں جلسہ اور ہال نمبر 7 میں 14:00 سے 15:20 تقریباً ایک گھنٹہ بیس منٹ تک جاری رہنے والی اس سیشن میں مجھ سے قبل چار دیگر طلبائ و طالبات نے کرغیزستان، آزربئیجان، ویتنام، سویت یونین کے متعلق بڑی محنت سے تیارکردہ مقالہ جات پڑھے۔ سب سے آخر میں ، میں نے ’’ابن بطوطہ کے سفرنامہ کے مطابق زمانہ وسطیٰ کا ہندوستان‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پڑھا۔ اگرچہ مقالہ تو میں نے انگریزی زبان میں تحریر کیا تھا البتہ وہاں پر انگریزی سمجھنے والے نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اس کا خلاصہ ترکی زبان میں ہی پیش کیا۔ اس مقالہ کا ایک مختصر سا خاکہ آپ کے سامنے بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ابن بطوطہ کی ذاتی زندگی بارے ہماری معلومات کی حد محض اتنی ہی ہے جتنی اس نے اپنے سفرنامہ میں اپنے بارے بعض ذیلی باتوں میں بتائی ہے۔  اس کے اپنے کہنے کے مطابق اس کی پیدائش مراکش کے شہر طنجہ میں 2 رجب 725 ہجری بمطابق 25 فروری 1304 عیسوی میں ہوئی۔ اس کا نام شمس الدین ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ ابن بطوطہ ہے۔ ہندوستان میں لوگ اسے مولانا بدرالدین کہتے تھے۔جون 1325 میں وہ اپنے پہلے سفر یعنی حرمین کی زیارت اور حج کی غرض سے گھر سے نکلا لیکن وہ پھر اگلے 30 سال تک دربدر کے سفرمیں رہا۔ ابن بطوطہ زمانہ وسطیٰ کا وہ واحد مسلم سیاح ہے جس نے اس وقت کے سارے مسلم حکمرانوں کے ممالک کا دورہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سری لنکا، چین، قسطنطنیہ اور جنوبی روس تک گیا۔ ایک اندازہ کے مطابق اس نے 75ہزار میل کا سفر کیا۔ جنگ و جدل اور آفاقی وبائوں سے بھرے ہوئے زمانہ وسطیٰ میں اتنا لمباسفرکرنا حقیقتاً اسی شخص کا کمال ہے۔ ابن بطوطہ ہندوستان میں 1334 میں پہنچا اور ہندوستان کے اس وقت کے حاکم سلطان محمد بن تغلق نے اس کی علمیت اور غیرملکی نسل سے ہونے کی وجہ سے دہلی کا قاضی مقرر کیا۔ وہ سلطان کے انعام واکرام کا سزاواررہا لیکن تقریباً آٹھ سال تک عہدہ پر برقرار رہنے کے بعد اس کو برطرف کردیا گیا ، کیونکہ اس نے سلطان کی ناراضگی مول لے لی تھی۔ بہت زیادہ سفرکرنے والے یہ شخص مشاہدہ کرنے والی آنکھ اور تیز ذہانت کا ملک تھا۔ لوگوں اور چیزوں میں اس کی دلچسپی اتنی زیادہ تھی کہ اپنے سفروں میں اس کو جو چیز بھی اچھی لگی اس کے بارے میں اس نے جلد سے کچھ نہ کچھ لکھا لیا۔ بدقسمی سے اس کی اصلی تحریر اس کے کسی سفر میں گم ہوگئیں اور اس سے سفروں کا جوبیان اب ہمیں دستیاب ہے وہ صرف ایک صاحب علم ابن جزی کو دیے گئے اپنے تجربات کے بیانات کی محض تلخیص ہے جس نے اس کو مرتب کیااور کتاب شکل دی ۔ کتاب کا نام ہے ’’ تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار ‘‘۔ ابن بطوطہ کا سیاحت نامہ زمانہ وسطی کے ہندوستان کی سماجی، معاشی اور معاشرتی حالات کے حوالہ سے معلومات کا قیمتی ذخیرہ ہے۔ وہ سلطان محمد تغلق کے دربار اور عام طور سے لوگوں کے اخلاق عادات، رسوم ورواج، طریقوں اور اداروں کا ایک حقیقت پر مبنی بیان دیتا ہے۔ ابن بطوطہ ایک آزاد مصنف ہے اور ان مئورخین سے زیادہ قابل اعتماد ہے جو شہنشاہوں کے انعام واکرام یا غصہ و ناراضگی کی پرواہ کرتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ غیر ہندوستانی ہونے کی وجہ سے اس کے بیانات میں ہندوستانیوں والا مذہبی تعصب نہیں ہے اور نہ ہی اس کا ذہن ہندوستان کے ذات پات کے غیرانسانی نظام سے متاثر ہے۔ لیکن اس کی تاریخ میں کچھ خامیاں بھی ہیں۔ وہ ایک غیرملکی تھا وہ اچھی طرح درباری زبان فارسی نہیں جانتا تھا اور عوامی زبان ہندی سے تو بالکل ہی ناواقف تھا۔ بیشتر وہ افواہوں اور گپوں کو بھی حقیقت کی طرح لے لیتا ہے، اکثر حقیقت اور افسانہ کو گڈمڈکردیتا ہے۔ وہ واقعات کی تاریخی ترتیب اور اسی طرح حغرافیائی صحت کی بہت کم پرواہ کرتا ہے۔ لیکن یہ چند کمیاں اس کی محنت اور سفر پر پانی ہرگز نہیں پھیر سکیتں۔ اس کی کتاب ’’رحلہ‘‘ زمانہ وسطی کی سیاسی اور سماجی حالات کا بیش بہا خزانہ ہے۔

قطعہ ہندوستان یا جنوبی ایشائ کی بعض باتیں اور رسم ورواج پوری دنیا سے الگ تھلگ اور حیران کن ہیں۔ جیسے ذات پات کا فرسودہ نظامل، ستی، جوہر جیسی غیر انسانی رواج وغیرہ وغیرہ۔ قدیم زمانہ میں ہندوستان میں رواج پانے والے اس غیر انسانی  ذات پات کے نظام میں پہلا مذہبی گروہ برہمن، جو علم اور مذہب کے محافظ تھے۔ دوم چھتری یا کھتری جو دنیاوی امور کے محافظ تھے۔ سوم ویش جو زراعت یا تجارت سے دولت پیدا کرتے تھے۔ چہارم شودر جو خدمت کرنے کے لیے مخصوص تھے۔ ان سب کی پیشوں کے لحاظ سے آگے متعدد کئی قسمیں ہوگئیں۔ بدھ مذہب نے ذات پات کی اس تفریق کو مٹانے کی کوشش کی لیکن یہ مٹ نہ سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اچھوت اور اچھوت قومیں وجود میں آئیں جن کی زندگی اب بھی باوجود علم کے نہایت تلخ گزرتی ہے اور عام انسانی حقوق تک سے ان کومحروم رکھا جاتا ہے۔ ذات پات کا نظام ہندوستان کے سوا اور کسی ملک یا معاشرے میں نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح ستی یا جوہر کا نظام تھا۔ ستی کے معنیٰ صادقہ کے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ کلمہ ایسی عورت کو کہا جانے لگا جو شوہر کی وفادار ہو اور اس کے مرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ ستی ہوجائے۔ برصغیر میں انگریزوں کے دور تک ہندووَں میں رواج کسی شخص کے مرنے پر اس کی بیوی بھی اس کی چتا کے ساتھ جل جاتی تھی اور یہ رسم ستی کہلاتی تھی۔  4 دسمبر 1829ء کو ستی کو خلاف قانون قرار دیا گیا ۔1829ء ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس رسم کے خلاف قانون کا اجزا کیا جس میں سختی سے اس رسم روکنے کا حکم دیا ۔ شروع میں لوگوں نے چھپ کر ستی کے کچھ واقعات ہوئے ۔ مگر برطانوی حکومت نے سختی سے اس رسم میں مددگاروں کو سخت اور کڑی پر سخت سزائیں دیں گئیں ۔ یہاں تک اس رسم کا صدباب ہو گیا ۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں کم از کم تین ستی کے واقعات ذکر کیے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک مقام پر تو زندہ عورتوں کو جلتےہوئے دیکھ کر ابن بطوطہ خود بھی بے ہوش ہوکرگھوڑے سے گرگیا تھا۔ جب ستی اور ذات پات کے نظام کی تفصیل میں نے کانفرنس میں بتائی تو مجلس کے تمام شرکائ پر ایک سناٹا سا چھا گیا۔ اور ہر ایک میری ان باتوں کو غیر یقینی سے دیکھنے لگا کیونکہ غیر ہندوستانی معاشروں میں رہنے والوں کے لیے یہ واقعی ہی عجیب باتیں ہیں۔ مقالہ ختم کرنے کے بعد شرکائ نے اس حوالہ سے کئی سوالات کیے جن کے جوابات میں نے دیے۔ اس مقالہ میں چند تبدیلیاں کرنے کے بعد یہ مقالہ سلجوق یونیورسٹی سے چھپنے والے علمی مجلی "سلاجقہ تحقیقی مجلہ” 2023ء سال کے پہلے مجلہ میں ترکی زبان میں شائع ہوا تھا۔

کلیجی کھانے کی عوت:

مقالہ پڑھنے کے بعد چائے کا وقفہ ہوا جس میں تقریباً سارے ترکی سے آئے ہوئے طلبہ و طالبات ایک دوسرے سے جان پہچان بنانے میں مصروف ہوگئے۔ مجھے تو زیادہ وقت مقالہ سننے والے سامعین نے گھیرے رکھا اور چند مزید سوالات کیے۔ میں نے مقالہ کے دوران بعض دوستوں کی جانب سے لی گئی تصاویر کو اپنے انستاگرام کے صفحہ پر جلدی سے اپ لوڈ کردیا۔  اس کے بعد وہیں قریب ہی کھڑے ہوئے شام سے تعلق رکھنے والے ایک دوست محمد جو کہ غازی انتیب میں عربی زبان و ادب میں پی-ایچ-ڈی کررہے تھے۔ ان سے اسلام کی پہلی عرب سلطنت بنوامیہ کے عہد میں عربی زبان و ادب کے حوالہ سے تھوڑی بات چیت ہوئی۔ میں نے بھی سبعہ معلقات میں سے امرائ القیس کے چند اشعار جو کہ مجھے یاد تھے، اسی طرح عرب ادب کی بعض کتب جیسے مقاماتِ حریری وغیرہ کو لے کر جو کچھ اس وقت ذہن میں آیا ان سے بات کی۔ ان کا اصرار تھا کہ شام کا کھانا ان سے کھائوں اور ایک مجلس ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے لاری اڈے جانا تھا تاکہ اسی شام یا پھر اگلے دن صبح کی کوئی ٹکٹ مل جائے اور میں قونیہ واپس جاسکوں۔ کیونکہ مقالہ تو میں نے پڑھ لیا تھا اور ادرنہ شہر بھی دیکھ لیا تھا اب وہاں رہنے کا کوئی مقصد نہ تھا۔ چنانچہ میں وہاں سے خاموشی سے نکل گیا۔ اور وہاں سے بس کے ذریعے لاری اڈے آیا۔ وہاں ٹکٹ دکھائی تو ان کا بھی وہی جواب تھا جو قونیہ لاری اڈے میں ملا تھا۔ کہ یہ ٹکٹ واپس اور تبدیل نہیں ہو سکتی وغیرہ وغیرہ اور قونیہ کے لیے اسی شام کی ٹکٹ 165 ترک لیرا کی تھی۔ اب میں وہاں پر یہی بات چیت کر ہی رہا تھا کہ میرے موبائل کی گھٹنی بجنے لگی۔ میرے ایک ترک دوست-باتحان دنچ-جو کہ قونیہ میں تقریباً 3 سال تک ہم کمرہ ہی رہے فون کررہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ادرنہ تک آیا ہوں تو آگے تکیر داغ جو کہ ساتھ ہی ان کے پاس بھی ہوکرجائوں۔ یا پھر وہ مجھ سے ملنے کے لیے ادرنہ آرہے ہیں۔ میں نے ان سے اگلے دن تکیر داغ آنے کا وعدہ کیا۔ وہاں سے بس لی اور واپس تراقیہ یونیورسٹی کے کانفرنس ہال کی طرف چل دیا۔ مجھے ہدایت ایرانی نے بھی میسج کرکے پوچھا کہ کہاں ہوں کیونکہ ان کی دوستوں کے ساتھ محفل خوب جمی ہوئی ہے اور مجھے بھی اس میں شرکت کی خواہش رکھتے ہیں۔ میں نے انہیں کانفرنس ہال آنے سے معذرت کرتے ہوئے یہ شعر لکھ کر بھیج دیا۔

در محفل خود راه مده همچو منی را

افسرده دل افسرده کند انجمنی را

یعنی اپنی محفل میں مجھے شرکت کی دعوت مت دو کہ افسردہ دل ساری محفل کو ہی افسردہ کردیتا ہے۔

لاری اڈے پر میں کانفرنس ہال سے تھوڑا دور ہی اتر کر یونیورسٹی کی کینٹین پر جاکر بیٹھ گیا۔ یہ 10 مرلہ پر مشتمل کھلا سا میدان تھا جس میں مختلف کھانے کی دوکانیں، فوٹو کاپی، بینک، ڈاک پوسٹ کرنے کے دفتر اور میڈیکل سٹور وغیرہ جیسی دوکانیں تھیں۔ لیکن ہفتہ کے دن اور شام ہونے کی وجہ سے تقریبا سبھی دوکانیں بند تھی اور وہاں پر سنناٹا تھا۔ میرا دل بھی علیحدہ ہوکر بیٹھنا چاہتا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں کانفرنس ہال کی جانب سے کچھ آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ جہاں سے شرکائ نکل کر آہستہ آہست لنگر خانے یا پھر اپنی اپنی رہائش گائوں کی جانب جارہے تھے۔ اچانک ہی مجھے وہاں ایک کرسی پر خاموشی سے بیٹھے ہوئے دیکھ کر شام سے تعلق رکھنے والے دوست محمد جن سے میں کانفرنس ہال میں ملا تھا میرے پاس آگئے۔ اس بار ان کے ساتھ افغانستان سے تعلق رکھنے والے جاوید رضا جو کہ ازمیر میں تاریخ کے شعبہ میں پی-ایچ-ڈی کر رہے تھے بھی ساتھ ہی تھے۔ یہ دوست بھی وہیں میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور ہم لوگ افغانستان، شام ، عراق وغیرہ مسلم ممالک میں خانہ جنگیوں اور زندگی کی مشکلات بارے بات کرنے لگے۔ بات لمبی ہونے پر دوستوں کا اصرار تھا کہ کھانا ان کے ساتھ کھائو۔ چنانچہ قریب سے گزرتی ہوئی ایک ٹیکسی کو روکا اور ہم لوگ ادرنہ شہر کے مشہور کلیجی ریستوران ’’استاد کمال‘‘ کے ہوٹل پر کھانے کے لیے پہنچ گئے جوکہ ’’مدحت پاشا‘‘ نامی گلی میں تھا۔ یہ ایک کھلا میدان تھا جس میں شاپنگ مال، قہوہ خانہ جات، کپڑے اور جوتوں کی بڑی بڑی دوکانیں اور پلازہ وغیرہ شامل تھے۔ یہاں پر پہنچ کر دیکھا تو ریستوران کے باہر لمبی قطار بنی ہوئی تھی اور سردی بھی بڑھ گئی تھی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس دومنزلہ ریستوران کی عمارت اور صحن میں گاہکوں کے بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔ لہذا یہاں اپنا کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرنا ہوتا ہے جیسے ہی کوئی جگہ خالی ہوتی ہے باری میں کھڑے ہوئے افراد اس کی جگہ پر جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم لوگ سردی میں لگ بھگ آدھ گھنٹہ انتظار کیا اور یوں ہماری باری آئی۔ اتنا رش تو ہمارے لاہور میں مدفون مشہور صوفی بزرگ حضرت عثمان بن علی الہجویری (1009-1077ء) جنہیں عوام الناس داتاصاحب کہتی ہے کے مزار پرمفت لنگر تقسیم کرنے والی لائین میں بھی نہیں ہوتا۔ بہرحال ہم اس کی پہلی منزل پر جا کر بیٹھ اور تین عددکلیجی کا آرڈردیا۔ کھانا واقعی لذیز تھا لیکن جتنا باہر سردی میں کھڑے ہو کر ہم نے انتظار کیا تھا انتا لذیز نہیں تھا۔ بہرحال کھانا کھانے کے بعد محمد بھائی نے جلدی سے کھانا کا سارا حساب ادا کردیا جس کو میں نے بالکل پسند نہیں کیا۔ اور میں نے انہیں بھی بتایا کہ میں کسی بھی طالبعلم سے کچھ نہیں کھاتا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ترک شہریت لے لی ہے اور ساتھ غازی انتیب میں کسی سکول میں استاد بھی ہیں لہذا وہ محض طالب علم نہیں ہیں۔ لیکن میں نے پھر بھی اس کو پسند نہیں کیا۔ اس کے بعد میں نے سب کو چائے کی دعوت دی اور ساتھ ہی ہدایت کو بھی فون کردیا وہ بھی وہاں پر موجود ایک قہوہ خانہ جو کہ ہماری رہائش گاہ کے بالکل سامنے سڑک کے اس پار تھا  میں آکر بیٹھ گئے۔ کیونکہ ہم سبھی اسی ہوسٹل میں رکے ہوئے تھے اس لیے کافی دیر تک بیٹھے چائے اور بوتلیں وغیرہ پیتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ میرا ان دوستوں سے یہ سوال تھا کہ مسلمان جوکہ آبادی میں دنیا میں کروڑوں میں ہیں، پیسہ، قدرتی وسائل، نوجوان طبقہ ہر چیز میں انتہائی طاقتور ہونے کے باوجود افغانستان، عراق، شام، فلسطین، کشمیر سمیت پوری دنیا میں کیوں ہر جگہ مار کھا رہے ہیں؟ بعض دوستوں نے کہا کہ مسلمانوں میں اتحاد کی کمی ہے تو کسی نے خلافت کے ختم ہونے کو اس کی وجہ قرار دیا۔ بعض دوسرے دوستوں نے ایران، سعودیہ یعنی عربی وایرانی دشمنی اس کی وجہ قرار دیا ۔ ہو سکتا یہ سب وجوہات بھی ہوں لیکن میرا یہ کہنا تھا کہ مسلم دنیا کو اس وقت دنیا پر حاکم ہونے کے خواب کو چھوڑ کر حقیقی دنیا میں واپس آنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو اپنی معشیت کو درست کریں۔ ہر اسلامی ملک اپنا سارا زور ہر چیز کو بھول کر محض معیشت کو بہتر بنانے میں دے۔ پھر اپنے ہاں انصاف کے اداروں کو بہتر کریں۔ بہتر تعلیم بالخصوص خواتین کو آزادی اور بہتر تعلیم دیں۔ جب تک یہ باتیں مسلم اقوام نہیں کریں گی یہ اسی طرح اغیار سے لات جوتا کھاتے رہیں گی۔ باقی دوستوں نے بھی میری ان باتوں سے اتفاق کیا۔ بہرحال باقی دوستوں نے بھی بہت اچھی اچھی تجاویز پیش کیں۔ یوں خاصی گپ شپ کے بعد مجلس کو ختم کیا کیونکہ مجھے اگلے صبح تکیر داغ جانا تھا اور شام کو پھر قونیہ واپسی بھی تھی۔ میں نے سارا حساب ادا کیا اور ہم لوگ سونے کے لیے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ وہاں تھوڑی دیر ہدایت ایرانی سے بات کی اور ساتھ ہی ایران سے تعلق رکھنے والے ایک اور دوست علی عمرانی جوکہ استنبول یونیورسٹی سے ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘ کے شعبہ میں پی-ایچ-ڈی کر رہے تھے بھی ہمارے کمرے میں رات رکنے کے لیے پہلے سے ہی موجود تھے۔ تھوڑی بہت ان سے بات کی اور ان کی مزے مزے کی باتیں سنتے سنتے ہی آنکھیں بند ہو رہیں تھیں۔ البتہ میرا ذہن ابھی بھی خواجہ معمار سان کے تعمیر کے فن پر مہارت میں اٹکا ہوا تھا اور واقعی انہوں نے عثمانیوں کو ایسی عمارات بنا کر دیں کہ اگرچہ آج عثمانی سلطنت تو نہیں رہی لیکن ان کی طاقت، پیسہ اور شوقِ تعمیر آج بھی اناطولیہ میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ یہاں مناسب ہوتا ہے تھوڑا ذکر اس عظیم معمار کا بھی کرلیا جائے۔

خواجہ معمار سنان:

سنان پاشا یا معمار سنان پاشاثمانی سلاطین سلیم اول، سلیمان اول، سلیم دوم اور مراد سوم کے دور کے اہم ماہر تعمیرات تھے۔ ادرنہ کی سلیمیہ مسجد اور استنبول کی سلیمانیہ مسجد ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ابتدائی زندگی:

سنان الدین یوسف قیصریہ شہر کے آرناس محلہ میں آرمینی، رومی یا پھر عیسائی ترک خاندان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ 1511 میں سلطان یاوز سلیم کے زمانہ میں دوشیرمہ کے طور پر استنبول لائے گئے اور ینی چری (نئی فوج/ سلطان کی ذاتی فوج) کا حصہ بنا دیے گئے۔ یہیں پر ینی چری فوج کے رواج کے مطابق انہیں اسلام میں داخل کرلیا گیا۔ تین سال بعد تعمیرات اور انجینئری کا ماہر سنان بن عبدالمننان مشرق میں عثمانی سلطان سلیم اول یاوز کے پیش قدمی کرنے والے دستوں میں شامل تھا اور قاہرہ پر قبضہ کرنے والے دستے کا رکن تھا۔اس فتح کے بعد سنان کو اعلی ماہر تعمیرات مقرر کیا گیا۔ انہیں پیادہ افواج کا کمانڈر مقرر کیا گیا لیکن ذاتی خواہش پر توپ خانے میں منتقل کر دیے گئے۔ 1521 میں قانونی سلطان سلیمان کے لشکر میں جس نے بلغراد پر حملہ کرے فتح کیا بطور ینی چری کے سپاہی کے طور پر شامل تھے۔ 1522 میں روداس قلعہ اور 1526 میں جنگ موہاچ میں حملہ آور لشکروں میں مختلف دستوں کے کماندار کے طور پر شریک رہے۔ 1533 میں قانونی سلطان سلیمان کے ایران کے خلاف جنگ کے دوران موجود اناطولیہ کی مشرقی سمت وان جھیل سے دوسری جانب ساحلوں پر جانب کے لیے معمار سنان نے دو ہفتوں میں تین کشتیاں بنا کر اسلحہ سے لیس کرکے بھرپورشاہی اعتبار حاصل کرلیا۔ یوں جنگ سے واپسی پر ینی چری فوج میں ان کا عہدہ بڑا کر اعلیٰ رتبہ دے دیا گیا۔

1538ء میں یوکرائن اور رومانیہ کے درمیان سے گزرنے والی پرت نہر دلدل ہونے کی وجہ سے کئی دنوں کی کوششوں کے باوجود عثمانی افوان اس کا پار نہ کرسکیں۔ تب قانونی سلطان سلیم کے وزیر داماد چلبی لطفی پاشا (وفات 1564) نے افواج کو وہاں سے گزارنے کے لیے پل بنانے کا کام سنان بن عبدالمنان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ معمار سنان کے دوست اور سوانح نگار سائی مصطفی چلبی کہ جس نے تذکرۃ البنیان (عمارتوں کی کتاب) تحریر کی۔ جس میں خود معمار سنان واقعات بتاتے جاتے ہیں جبکہ کاتب مصطفی چلبی ان کو کتاب کی صورت میں درج کرتے جاتے ہیں۔ اس کتاب کے الفاظ ہیں ’’ میں نے فوراً ہی بہتے ہوئے پانی کے اوپر ایک خوبصورت پل بنانے کا کام شروع کردیا۔ 10 دن میں بلند پل تیار کردیا۔ اسلامی افواج اور بادشاہ معظم آرام کے ساتھ گزر گئے۔‘‘ اس پل کو تعمیر کرنے کے بعد 17 سالہ ینی چری دور ختم ہوا اور معمار سنان عثمانی سلطنت کے تعمیرات کے سربراہ کا عہد دے دیا گیا۔ معمار سنان کے اپنے الفاظ جو کہ تذکرۃ البنیان میں یوں ذکر کیے گئے ہیں ’’ ینی چری فوج سے راستہ جدا ہونے کا غم ہوا لیکن ساتھ ہی مساجد تعمیر کرکے دنیا و آخرت میں مراد پوری ہونے کا وسیلہ بن جانے کا سوچ کا یہ عہدہ قبول کرلیا۔‘‘

بطور سربراہ شعبہ تعمیرات:

1538ئ  میں سربراہ تعمیرات کے عہدہ پر تعین ہونے کے اگلے 49 سال تک تین بادشاہوں (قانونی سلطان سلیمان، سلیم ووم اور مراد سوم)کے ادوار میں  کئی لاجواب اور بے مثال تعمیرات کیں۔ سنان کا پہلا معروف تعمیراتی کام 1548ء میں قائم کردہ شہزادہ مسجد تھی جو کہ استنبول میں تعمیر کی گئی۔ 1550ء میں انہوں نے سلیمانیہ مسجد پر کام شروع کیا جو 1557ء میں مکمل ہوا۔ انہوں نے استنبول اور دیگر شہروں میں کئی عمارات، مساجد اور پل وغیرہ تعمیر کیے جن میں ادرنہ کی سلیمیہ مسجد، استنبول کی رستم پاشا مسجد، ادرنہ کی محرمہ سلطان مسجد اور استنبول کی قادرگا صوقولو مسجد شامل ہے۔ انہوں نے دمشق میں تقیہ السلیمانیہ خان مسجد بھی تعمیر کی جو آج بھی شہر کی اہم ترین یادگاروں میں سے ایک ہے۔ وہ بلغاریہ کے دار الحکومت صوفیہ کی واحد مسجد بنیا باشی مسجد کے بھی معمار ہیں۔  اپنی سوانح حیات "تذکرات بنیان” کے مطابق وہ ادرنہ کی جامع سلیمیہ مسجد کو اپنے فن تعمیر کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہیں۔ جس وقت انہوں نے اس مسجد کی تعمیر کی اس وقت ان کی عمر 86 برس کے لگ بھگ تھی۔  اس 49 سال دور میں ان کے ذمہ نہ صرف نئی عمارتیں بنانا تھا بلکہ پہلے سے موجود عمارتوں کی مرمت کا کام بھی انہیں کے سپردتھا۔ انہوں نے اس حوالہ سے آیاصوفیہ کی تعمیر نو میں خوب محنت کی۔ 1573 میں آیا صوفیہ کے گنبد کا سامنے رکھتے ہوئے مضبوط دیواریں بنائیں جن کی بنا پر آیا صوفیہ کی عمارت آج بھی اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم ہے۔ جب جامع سلیمیہ کی تعمیر جاری تھی جو مسیحیوں نے دعوی کیا تھا کہ دنیا کوئی بھی معمار خصوصا مسلمان آیاصوفیہ کے گنبد سے بڑا گنبد تیار نہیں کر سکتا۔ سنان پاشا نے اس دعوے کو غلط کر دکھایا اور جامع سلیمیہ کا گنبد آیاصوفیہ سے بڑا بنایا۔ ان مضبوط اور بلندو بالا عمارتوں کا خالق معمار سنان خود عجز و انکساری کا پیکر تھا۔ اس کا واضح اور تحریری ثبوت استنبول میں بویک چشمہ (بڑا چمشہ) پل پر نقش کی ہوئی ان کی مہر ہے۔ جو کہ ان الفاظ میں درج ہے ’’الفقیر الحقیر سر معمارخاصا‘‘ (بے قیمیت اور محتاج غلام، سربراہ برائے تعمیرات سرائے خاص)

وفات اور تعمیرات:

معمار سنان پاشا نے اتوار 23 شعبان 996ھ بمطابق 17 جولائی 1588ء کو 99 سال کی عمر میں استنبول میں وفات پائی۔ سلیمہ مسجد کے ساتھ ہی ان کی خود ہی کی تعمیر کردہ سادہ سی قبر میں انہیں دفن کیا گیا۔  معمار سنان نے 81 جامع مساجد، 51 چھوٹی مسجدیں، 55 مدرسے، 26 دارلقرائ، 17 مزار، 17لنگر خانے، 3 ہسپتال، 5 چشمے، 8 پل، 20 کاروان سرائے، 36 محل، 8 گودام اور 48 حمام کل ملا کر 375 یادگار تعمیرات چھوڑیں ہیں۔

میں جب اس عظیم معمار کے بارے میں سوچ رہا تھا اور میرے ذہن میں بار باریہی بات آرہی تھی کہ جب وہ اپنا کام کررہے ہوں گے تو نہ جناے کتنے ہی بونے لوگ ان کے فن اور کام کا مذاق اڑانے اور غلطیاں نکال کر ان پر ہسنسے کی فکر میں لگے رہتے ہوں گے۔ کیونکہ جو لوگ خود کچھ نہیں کرسکتے وہ کرنے والوں پر تنقید ہی کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے خود ہی ایسے مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور کبھی کبھی تو میں انتہائی غصہ میں آجاتا ہوں۔ لیکن پھر اسی وقت وہ عظیم شخصیت ایسے حال میں میرے سامنے آتی ہیں کہ جب   اس کی صورت بجلی کی ماند اور اس کی پوشاک برف کی ماند سفید ہوتی ہے ۔وہ مجھے بڑے ہی میٹھے انداز میں کہتی ہیں کے میں اپنے رب کے حضور یوں دعا کرتا رہا کروں۔ ’’اے میرے خدا! میں نے تجھ پر توکل کیا۔ مجھے شرمندہ نہ ہونے دے۔ میرے دشمن مجھ پر شادیانہ نہ بجائیں۔‘‘

Read Previous

اسرائیل پر حملے کے لئے پاکستان ایران کو میزائل فراہم کرے گا، اسرائیلی اخبار کا دعویٰ

Read Next

طلبہ کا احتجاج اور الٹی میٹم ، چیف جسٹس بنگلہ دیش مستعفی

Leave a Reply