سپریم کورٹ آف پاکستان میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران سات رکنی آئینی بینچ نے کیس کے اہم نکات پر سوالات اٹھائے۔ سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ہوئی، جس دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل پیش کیے۔
کون سا کیس فوجی عدالت میں جائے گا؟ عدالت کا سوال
سماعت کے دوران عدالت نے بار بار یہ سوال اٹھایا کہ، مقدمات کو ملٹری کورٹس اور انسداددہشت گردی عدالتوں میں بھیجنے کا معیار کیا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ،کون فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا کیس ملٹری کورٹ میں چلے گا اور کون سا انسداد دہشت گردی عدالت میں؟ جبکہ جسٹس نعیم افغان نے 9 مئی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ، ان میں 103 ملزمان کے خلاف ملٹری کورٹس میں مقدمات چل رہے ہیں، جبکہ دیگر کیسز انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چلائے جا رہے ہیں، یہ تفریق کن بنیادوں پر کی گئی؟
خواجہ حارث کے دلائل
خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے اس فیصلے کا حوالہ دیا جس میں ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ، عدالت نے بنیادی حقوق کی وضاحت کر دی تھی اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا تھا۔
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ، بنیادی حقوق معطل کرنے کے لیے ایمرجنسی کا نفاذ ضروری ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ،اگر فوجی عدالتیں سویلینز کے کیسز سن سکتی ہیں تو انسداددہشت گردی عدالتیں کیوں نہیں؟
کلبھوشن یادیو کیس پر بحث
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا کہ،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا اب کلبھوشن جیسے ملک دشمن جاسوس کا کیس فوجی عدالت میں چل سکتا ہے؟خواجہ حارث نے جواب دیا کہ، سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ایسے کیسز اب ملٹری کورٹس میں نہیں چلائے جا سکتے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالتوں کو مضبوط بنانے کی تجویز
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ ،ہم اپنے پراسیکیوشن کے نظام کو مضبوط کیوں نہیں کر رہے؟ انہوں نے کہا کہ، بہتر پراسیکیوشن اور تفتیشی افسران کی تقرری سے عدالتیں بہتر فیصلے دے سکتی ہیں۔ جسٹس حسن اظہر نے استفسار کیا کہ ،کیا 9 مئی کے واقعات دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہیں کہ۔ ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو رہا ہے؟
صدر مملکت کے اختیارات پر گفتگو
جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ، آئین کے تحت صدر مملکت کے پاس بنیادی حقوق معطل کرنے کا اختیار ہے اور ایگزیکٹو صدر کے احکامات پر عمل درآمد کرتی ہے، لیکن یہ واضح نہیں کہ، فوجی عدالتوں میں مقدمات بھیجنے کا فیصلہ کون اور کیسے کرتا ہے؟
بعد ازاں،عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔
