تحریر: اعظم علی
موجودہ فلسطینی جنگ کا واحد حل جس پر تقریباً پوری دنیا متفق ہے وہ دو ریاستی حل ہے۔ مسلمان اسرائیل کے مکمل خاتمے کے قابل نہیں ہیں اور اسرائیل اپنے مقبوضہ علاقوں سے فلسطینیوں کی مکمل نسل کُشی میں بھرپور کوششوں کے باوجود بھی ناکام رہا ہے۔
دونوں جانب کے انتہا پسند دو ریاستی حل پر رضامند نہیں ہیں پھر بھی حماس نے اس سلسلے میں لچک کے اشارے دئیے ہیں ، پر اسرائیل کی انتہا پسند حکومت تو کسی صورت میں اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ امریکی صدور بل کلنٹن سے لیکر اوباما تک سارے امریکی صدور نے اس معاملے میں اسرائیل کو رضامند کرنے کی بھرپور کو ششیں کی تھیں پر ناکام رہے۔ واحد اسرائیلی صدر اس معاملے میں سنجیدہ تھا وہ تھا اسحاق رابن ۔۔ جسے یہودی انتہا پسندوں نے گولیوں سے اڑا دیا تھا۔
اس تنازعے کا دو ریاستی حل ہی واحد حل ہے لیکن اس کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیلی انتہا پسند حکمران ہیں، جو اسے کسی نہ کسی بہانے ناکام بنانے کی کوشش جاری رکھتے ہیں۔
گذشتہ فروری دبئی میں ایک بین الاقوامی فورم سے خطاب کرتے ہوئے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے اسرائیل پر زور دیا کہ اگر اسے پائیدار امن کی خواہش ہے تو اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو ترک کرکے 1967 کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرلے۔
یہی سعودی عرب کا بھی کہنا ہے: اس جنگ کی ابتدا سے پہلے سعودی عرب تیزی کے ساتھ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی جانب گامزن تھا، یہ بات درست ہے کہ اسرائیل کی سعودی عرب کے ساتھ دو ریاستی حل پر بات ہو چُکی تھی۔
سعودی عرب تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے کچھ نہ کچھ عملی اقدامات کررہا تھا لیکن اسرائیل کی جانب سے دو ریاستی حل کے معاملے میں کسی قسم کی پیش رفت بالکل نظر نہیں آرہی۔
سعودی عرب کے فلسطینی ریاست کے بارے میں سنجیدگی پر کچھ شبہات ضرور ہیں ۔۔۔ کئی سال قبل 2015 میں سعودی شھزادے ولید بن طلال نے بھی ایک بیان میں فلسطینیوں کے ساتھ انتفادہ میں اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ خیر اب ولید بن طلال کے MBS سے تعلقات نہیں ہیں بلکہ MBS نے اسے قید کرکے زبردستی اربوں ڈالر نکلوا کر چھوڑا ہے۔ پھر بھی ولید بن طلال کا یہ بیان کسی نہ کسی طرح سعودی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کا اظہار کرتا ہے۔
بظاہر اسرائیل دو ریاستی حل کو سنجیدگی سے اپنانے کی بجائے دھوکے و فریب کے ذریعے دو ریاستی حل کے بہانے،ریاست اسرائیل کو خطے کے ممالک سے تسلیم کروانے کی کوشش کررہا ہے۔
عربوں کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد واپسی اتنی آسان نہیں رہتی ،اس کے بعد ان کے ہاتھ بندھ ہی جاتے ۔ سعودی عرب اس لحاظ سے خوش نصیب رہا ہے کہ اس کے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قبل ہی غزہ کی جنگ شروع ہو گئی ۔۔ ورنہ متحدہ عرب امارات جو اسرائیل کو تسلیم کرکے اس سے سفارتی تعلقات قائم کر چُکا تھا اسکی طرح خاموش تماشبین بن کررہ جاتا۔
غزہ کی جنگ میں اسرائیل کا سب سے بڑا نقصان امریکی و یورپی رائے عامہ کے سامنے اس کے ساکھ کی شکست ہے۔جس ہولوکاسٹ کی کہانیوں کی بنیاد پر مظلومیت کا چولہ پہن کر ملنے والی ہمدردیاں اسے مغربی طاقتوں کی ہمدردی دلاتی تھی، اب وہ قصہ ماضی بن چُکا ہے ۔
اس وقت دنیا کی نظر میں اسرائیل ایک ظالم قوت کے طور پر سامنے آیا ہے اور عوامی ہمدردیوں سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔اگر یہ مومینٹم جاری رہا تو جلد یا بدیر یہ اسے امریکی و مغربی دنیا کی سیاسی ہمدردیوں سے محروم کرنے کا سبب بنے گا جو اس کی لائف لائن ہے۔
اسرائیل کے لیے بھی بہت کم وقت بچا ہے کہ یورپ و امریکہ کی سیاسی قیادت اس وقت بھی اسرائیل کے حامی ہے ۔ اس کے اپنے مفاد میں ہے کہ آئندہ دوتین انتخابات میں صورتحال کی تبدیلی سے قبل اپنے لیے فائدہ مند شرائط پر فلسطین کے معاملے کا کوئی مستقل حل نکال لے،ورنہ مستقبل تشویشناک ہے ۔
ہمارے ہاں امریکیوں کی افغانستان میں “شکست” پر گفتگو کرنے والے، ایک بنیادی فرق بھول گئے ہیں کہ جب تک کوئی حکمران یا قابض طاقت
عوام کو مغلوب کرکے زمین ،ملک یا شہر پر حکومت کرتی ہے تو شکست کا شاک دور ہونے کے بعد مزاحمت شروع ہوجاتی ہے، ویت نام ہو یا افغانستان امریکہ و روس اسلحہ کی طاقت سے زمین پر قبضہ کرنا آسان ہے ، لیکن عوامی مزاحمت کے سامنے طویل مدت تک ٹھہر نا مشکل ہوتا ہے ۔
اس کا واحد حل یہ ہے کہ زمین پر قبضہ کرکے اس علاقے کے عوام کا مکمل صفایا کر دیا جائے اور اپنے لوگوں کو بسا کر مسئلہ ختم کردیا جائے۔
یہی کچھ رسول اللہ صلئ اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں سے یہودیوں کو مکمل طور پر نکال کرکیا تھا۔ یہی کچھ اسپین میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا، چین بھی تبت میں اور اپنے مسلمان صوبوں آبادی کا تناسب تبدیل کرکے کررہا ہے، اور یہی کچھ اسرائیل تسلسل کے ساتھ کررہا ہے جس میں اسے سوائے غزہ و جنوبی کنارے کی پاکٹس کے علاوہ اب تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
اس جنگ کے شروع میں بھی اسرائیل نے فلسطینی آبادی کو صحرائے سینائی میں دھکیلنے کی کوشش کی تھی لیکن مصر نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا ۔
بنیادی طور پر اسرائیل ایک یہودی نسل پرست ریاست ہے۔ اسے زمین چاہیے جہاں دنیا بھر سے اپنے ہم مذہبوں کو بسا سکے، اسے مقامی آبادی سے کوئی دلچسپی نہیں ہی۔ لیکن کچھ پڑوسی ممالک کے عدم تعاون اور کچھ فلسطینیوں کی ہمت کے باعث وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔
اس کا کریڈٹ پڑوسی ممالک کو جاتا ہے ، کہ وہ ۱۹۶۷ کی جنگ کے بعد بڑی تعداد میں فلسطینی مہاجرین کے آمد کا نتیجہ کم از کم لبنان اور اردن میں بھگت چُکے ہیں، اس لئے اس مرتبہ انہوں نے محصور فلسطینی آبادی کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دیکر انہیں اپنی جنگ لڑنے پر مجبور کردیا ہے ۔
اسرائیل کے پاس دو ریاستی حل کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ۔ جتنی جلدی ہو جائے اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ نسل کُشی کے ذریعے مقبوضہ علاقوں کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کی کوشش چھوڑ دے کیونکہ اب بین الاقوامی کمیونٹی اسرائیل کو لاکھوں فلسطینیوں کے قتل عام کے ذریعے مقامی آبادی سے صاف کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
ایک اور اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ درحقیقت تقریباً تمام مسلمان حکومتیں فلسطین کے مسئلے کے دو ریاستی حل پر رضامند ہیں (بشرطیہ کہ 1967 کی سرحدوں کے مطابق ہو)، لیکن زیادہ تر ممالک کے عوام کو اس حل پر مطمئن کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اسرائیل سے فلسطینی ریاست کے معاملے پر کوئی بھی سمجھوتہ شفافیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ۔ اسرائیل کی جانب سے مثبت اور نتیجہ خیز اقدامات کی شرط پر ، تمام مسلم ممالک کے واحد پلیٹ فارم OIC کے تحت جس میں فلسطینی بطور اصل فریقین شامل ہوں کیا جائے تاکہ امت مسلمہ کا اس سنگین مسئلے پر اجتماعی طور پر نہیں تو غالب اکثریتی اتفاق ہو سکے ورنہ اس کے نتیجے میں (مصری صدر أنورالسادات کے قتل جیسی ) پیدا ہونے والی بے چینی مسلمان ممالک میں خوفناک مسائل پیدا کرسکتی ہے ۔
