تحریر: محمد نذیر خان
بسا اوقات خوشی کے اظہار کیلئے الفاظ کم پڑجاتے ہیں، اللہ تعالی نے مُجھے کم مائیگی کے باوجود ایسے کئی مواقع عطافرمائے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ” دستِ قُدرت کی فیاضی نے مُجھے ایسے اہلِ علم کو حدیث شریف ( کتبِ سِتہ) پڑھانے کی توفیق عطافرمائی جن میں سے اکثر نہ صرف مُستند اہلِ علم، علومِ آلیہ کے ماہرین ہیں بلکہ اُن کی اکثریت عمر میں سے زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری طور پر اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔
جہاں پر مُجھے تدریسی فرائض انجا دینے کا موقع مل رہاتھا یہ مشرقی تُرکیہ میں تاریخی اور خوبصورت ترین علاقہ ہے۔ دو حضراتِ انبیاء کرام علیھم السلام کے علاوہ پانچ سو کے قریب صحابہ وتابعین یہاں محوِ استراحت ہیں۔ یہ نہ صرف کُرد اکثریتی علاقہ ہے بلکہ کُردی لوگ اسے اپنا دارالحکومت قراردیتے ہیں۔ کسی بھی کردش سے دیار باقر کے بارے بات کی جائے تو اُس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اور فورا کہہ دیتے ہیں ” دیار باقر مالامنہ” ( دیار باقر تو ہمارا گھر ہے)۔ ( جدید ترکیہ کی تاریخ میں کتبِ ستہ کی تدریس کایہ پہلا تجربہ تھا)

پہلی سندِ حدیث پڑھتے ہُوئے جب امام ابوطاہر الکردی المدنی الشافعی کا نام لیا تو کئی عمر رسیدہ اہلِ علم آبدیدہ ہو ئے، اور بعد میں اُنہوں نے بتایا کہ امام ابو طاہر الکردی الشافعی (ت: 1145ھ) کردوں میں گورانی قبیلہ کے تھے۔ ہندوستان سے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے 1143ھ میں سفر،حجاز کے دوران اُن سے علم حدیث (بالخصوص صحيح البخاري، صحيح مسلم ( کا کچھ حصہ ) جامع الترمذي ، سنن أبي داود ، سنن ابن ماجه، موطأ الإمام مالك ، اور مسند الإمام أحمد) حآصل کرکے یہ فیض ہندوستان لے گئے تھے، جہاں سے اُن کا یہ فیض چہاردانگِ عالم میں پھیلا۔ اور آج تقریبا تین سوسال بعد ہمیں ہماری امانت دوبارہ مل رہی ہے! اس پہ میری زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے ” هذه بضاعتكم ردت إليكم!
دوسرا جدید ترکیہ کی تاریخ میں پہلے تخصص فی الفقہ کی تدریس میں شرکت۔
چار قبل جب پی ایچ ڈی کے لئے استنبول مُنتقل ہوا تو وہاں بہت ہی عزیز دوست مُفتی احمد رضا سے ملاقات ہُوئی، مُفتی صاحب سے شناسائی کی سعادت 2017 سے حاصل تھی، جب میں استنبول یونیورسٹی سے ماسٹرز( ایم فل) کررہاتھا اور مُفتی صاحب ابن خلدون سے سکالرشپ پر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے پہلے ” ترکش لینگویج کورس” میں تھے۔) مفتی صاحب کو سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی رحمہ اللہ کے خادمِ خاص ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ سرگودھا کے گورنمنٹ کالج میں لیکچرر بھی تھے۔ مُفتی صاحب نے یہ آئیڈیا شیئر کیا کہ وہ استنبول میں دو چیزیں کرنا چاہتے ہیں۔

اول : دارالعلوم کراچی کے طرز پر تخصص فی الفقہ اور دوسرا مشہور صوفی بزرگ اور عالم حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ صاحب کے طرز پر دور تفسیر القرُآن۔
اور کُچھ دِنوں کے بعد اُنہوں نے مجھے اطلاع دی کہ تخصص کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اور مُجھے بھی ساتھ دینے کا کہا لیکن چند ذاتی مصروفیات کی بنا پر ساتھ نہ دے سکا۔ گُزشتہ سال مُفتی صاحب نے دوبارہ یاد فرمایا تعمیلِ ارشاد میں ہفتہ وار دو کلاسوں کی ترتیب بنائی۔ الحمدللہ مختلف ممالک کے باصلاحیت طلبہ ( جو مختلف جامعات سے ایم فل پی ایچ ڈی کررہے ہیں) پوری دلچسپی اور پابندی سے نہ صرف تخصص کے اسباق میں شرکت کررہے ہیں بلکہ مُفتی صاحب کے سالانہ دورہ تفسیر القرآن سے بھی بھر پور استفادہ کررہے ہیں۔ اللهم لك الحمد ولك الشكر

اس سلسلہ میں 20 رمضان 1444ھ 11 اپریل 2023ء، بروز منگل الرقیم: مرکز البحوث والدراسات استنبول کے تحت جامع سلطان یاووز سلیم، فاتح، استنبول میں مختصر مگر پروقار تقریب ہوئی۔ تقریب کی تفصیلات مفتی صاحب کی زبانی سن لیجئے:
یہ تقریب دو عناوین پر مشتمل تھی:
1 – تخصص فی الافتاء کی پہلی کلاس کی دستار بندی:
اس تقریب میں الرقیم کے تحت جاری تخصص فی الافتاء کی پہلی کلاس کی دستار بندی ہوئی۔ واضح رہے کہ یہ کلاس محمد بن عبد اللہ کزاخستانی نامی ایک ہی طالب علم پر مشتمل ہے اور گذشتہ دو سالوں سے جاری ہے۔ اس عرصے کے دوران اس طالب علم نے تخصص کے نصاب میں شامل دروس اور مطالعہ بھی پورا کیا اور سو فتاوی کی تمرین بھی کی۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا اور اس کے بعد تخصص فی الافتاء میں بارہ طلبہ کی دوسری کلاس جاری ہوئی، جبکہ مزید طلبہ آئندہ سال داخلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ اب یہ کزاخستان میں اکابر کے مزاج و مذاق کے مطابق فتویٰ کے کام کا سلسلہ روسی اور دنگانی زبان میں شروع کرے گا۔ واللہ الموفق
2 – دوسرے سالانہ دورۂ تفسیر کی تقسیم اسناد و انعامات :
پاکستان میں تو دورہ تفسیر کا بہت چرچا ہے اور شعبان و رمضان میں بڑے اساتذہ کرام کے دورہ تفسیر کے بڑے بڑے حلقے ہوتے ہیں، لیکن بیرون پاکستان خاص طور پر وسطی ایشیا، ترکی اور یورپ میں اس کی مثال نظر نہیں آتی تھی، اسی طرح عربی زبان میں اس دورے کی کوئی شنید نہیں تھی، جبکہ ترکی اطراف واکناف عالم سے آئے ہوئے طلبہ میں صفوۃ التفسیر جیسی ابتدائی کتب تفسیر پر قناعت تھی، اس خلاء کو پر کرنے کی نیت سے گذشتہ سال ماہِ شعبان و رمضان میں چالیس روزہ دورۂ تفسیر رکھا گیا، اور اپنے بڑوں سے سیکھے ہوئے انداز میں یہ دورہ تفسیر کروایا، جس میں بھرپور شرکت ہوئی اور حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے، اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے امسال دوسرے سالانہ دورۂ تفسیر کے پروگرام کا انعقاد کیا گیا، الحمد للہ امسال بھی بھرپور شرکت رہی، مستقل رجسٹریشن کروا کے شاملِ درس رہنے والے حضرات کی تعداد پچاس تھی، ممالک کے اعتبار سے مختصر اعداد وشمار کچھ یوں ہیں:
1- ترکیا سے : 2 طالب علم
2- امریکہ : 1 طالب علم
3- کنیڈا : 1 طالب علم
4- تاجکستان : 3 طلبہ
5- روس : 2 طالب علم
6- شام : 2 طالب علم
7- کرغیزستان : 1 طالب علم
8- کزاخستان : 8 طالب علم
9- ازبکستان : 26 طالب علم
جبکہ جزوی طور پر شامل ہونے والوں میں پاکستان، مصر اور ترکی کے مزید حضرات شامل رہے۔ ۔
چالیس دن کے اختتام پر الحمد للّٰہ مکمل قرآن کریم کی تکمیل کی سعادت نصیب ہوئی اور اس تقریب میں بطورِ مہمان درجِ ذیل حضرات نے شرکت کی :
1- شیخ محمود الدرۃ رفاعی
2- مفتی محمد نذیر خان
3- شیخ عمر فاروق قورقماز ( سابق ترکش وزیرا عظم کے ایڈوائزر)
4- شیخ سلیمان یلدز
5- مولانا صلاح الدین
6- شیخ مطیع الرحمن
ان حضرات نے اپنے ہاتھوں سے دستار بندی کی، اور شرکاء دورہ تفسیر میں اسناد و انعامات تقسیم کئے۔ انعامات کے طور پر احکام القرآن للجصاص، تفسیر البغوی ، تفسیر النسفی ، تفسیر ابی السعود اور تفسیر ابدع البیان دی گئیں۔

تقریب کے اختتام پر سلسلہ رفاعیہ کے مشہور پیرِ طریقت شیخ محمود الدرہ حفظہ اللہ نے رقت آمیز دعا کروائی، جس کے بعد تمام مہمانوں کے لئے دعوتِ افطار کا پر تکلف انتظام کیا گیا، اور اس طرح جدید ترکیہ کی تاریخ کے اس پہلے تخصص فی الافتاء کی پہلی کلاس کی دستار بندی
اور دوسرے سالانہ دورہ تفسیر کی یہ سادہ سی تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
