turky-urdu-logo

انسانیت اور امید کا سفینہ؛ فریڈم فلوٹیلا میڈلین

غزہ کی پٹی آج ایک ایسے میدان کا منظر پیش کر رہی ہے جہاں انسانیت سسک رہی ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے، ہم براہ راست اس تباہی کو دیکھ رہے ہیں جہاں بھوک، موت اور مایوسی کا ایک نہ ختم ہونے والا رقص جاری ہے۔ بچے بلک رہے ہیں، مائیں نوحہ کناں ہیں، اور ہر گزرتا لمحہ مزید زخموں کا سبب بن رہا ہے۔

ایسے میں، کچھ لوگ اٹھے ہیں جنہیں دنیا "دیوانے” کہے گی۔ یہ وہی ہیں جو "فریڈم فلوٹیلا میڈلین” پر سوار ہو کر، بھوک اور موت کے اس رقص کو روکنے نکلے ہیں۔ "میڈلین” نامی یہ جہاز غزہ کی پہلی اور واحد خاتون ماہی گیر "میڈلین کلاب (Madleen Kullab)” کے نام پر رکھا گیا ہے، جو فلسطینی استقامت اور دنیا میں جاری مظالم کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کی علامت ہیں۔

1 جون 2025 کو اٹلی کے سسلی کے شہر کتانیا (Catania) سے روانہ ہونے والی یہ کشتی 2,000 کلومیٹر (1,250 میل) کا دشوار گزار سفر طے کرے گی۔ اس کا مقصد غزہ کے لوگوں کے لیے انتہائی ضروری انسانی امداد پہنچانا ہے، جس میں "بچوں کا دودھ، آٹا، چاول، پانی کو صاف کرنے والی کٹس، طبی سامان، بیساکھیاں اور بچوں کے لیے مصنوعی اعضاء” شامل ہیں۔ یہ صرف سامان نہیں، یہ امید ہے ان لاکھوں بے بس لوگوں کے لیے جو زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔

جہاز پر موجود تمام 12 افراد کا عملہ اور 4 سویلین مسافر عدم تشدد کے تربیت یافتہ ہیں اور غیر مسلح سفر کر رہے ہیں۔ ان کا ہر قدم پرامن طور پر اسرائیلی ناکہ بندی کو چیلنج کرنے کی کوشش ہے تاکہ انسانیت کی پکار سنی جا سکے۔

اس جہاز پر مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافی سوار ہیں، جن میں مشہور سویڈش ماحولیاتی کارکن "گریٹا تھنبرگ (Greta Thunberg)”، فرانسیسی-فلسطینی یورپی پارلیمنٹ کی رکن "ریما حسن (Rima Hassan)”، آئرش اداکار "لیام کنیگھم (Liam Cunningham)”، اور دیگر جیسے "یاسمین آکار، بپٹسٹ آندرے، تیاگو ایولا، عمر فیاض (الجزیرہ کے نمائندے)، پاسکل ماریراس، یانس مہامدی، سویب اردو، اور سرجیو توریبیو” شامل ہیں۔

انہیں معلوم ہے کہ راستہ دشوار ہے، اور ہو سکتا ہے کہ انہیں منزل تک پہنچنے سے روک دیا جائے، جیسا کہ ایک ماہ قبل "فریڈم فلوٹیلا” کا ایک اور امدادی جہاز "کونسائنس (Conscience)” مالٹا کے ساحل کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں اسرائیلی ڈرونز کے حملے کا نشانہ بنا تھا اور اس پر سوار چار افراد شدید زخمی ہوئے تھے۔ (3 جون کو "میڈلین” کے قریب بھی ایک اسرائیلی ڈرون دیکھا گیا تھا)۔

مگر ان کے دلوں میں انسانیت کی محبت اس قدر پختہ ہے کہ انہیں کوئی رکاوٹ روک نہیں سکتی۔ یہ صرف انسانی امداد نہیں پہنچا رہے، بلکہ یہ دنیا کو ایک پیغام دے رہے ہیں – ایک پیغام کہ انسانیت ابھی مری نہیں، ضمیر ابھی زندہ ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلائے گا کہ جب انسانیت خطرے میں ہو تو خاموش رہنا سب سے بڑا جرم ہے۔ یہ ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ

ہم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں، اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں جو غزہ میں جاری ہے۔ کاش ان "دیوانوں” کا جذبہ ہمارے دلوں میں بھی انسانیت کی شمع روشن کر دے۔۔۔۔۔

ہم ان کے پیغام اور اپنی ذمہ داری سمجھیں۔۔۔۔۔انسانیت کے اس بحران میں اپنا کردار ادا کریں۔۔۔

Read Previous

باکو: یو این ٹوارزم کمیشن اجلاس، یورپی سیاحتی انڈسٹری میں دو فیصد اضافہ ریکارڈ

Read Next

دیوانوں کی دنیا اور ہوتی ہے

Leave a Reply