دنیا بھر کے ضمیر زنده لوگوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دے دیا ہے، جہاں ہزاروں معصوم شہریوں کی ہلاکتیں، وسیع پیمانے پر تباہی اور لاکھوں کی بے گھری ہوئی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین، ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیمیں اسے انسانیت کے خلاف سنگین جرم قرار دے چکی ہیں۔ مگر بھارت کے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک سینئر رہنما نے اسی تباہی کو "سبق” قرار دے کر نہ صرف نفرت کا اظہار کیا بلکہ یہود و ہنود کی سوچ میں گہری مماثلت کو واضح کر دیا۔ یہ بیان محض ایک فرد کی اشتعال انگیزی نہیں بلکہ بھارتی سیاست کے مرکزی دھارے میں انتہا پسندانہ بیانیے کی گہرائی کی نشاندہی کرتا ہے، جو عالمی برادری کے لیے ایک سنگین انتباہ ہے۔ اگر دنیا اسے نظرانداز کرتی رہی تو یہ فسطائیت نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے اور عالمی امن کو خطرے میں ڈال دے گی۔
اس واقعے کے مرکز میں بی جے پی کے اہم رہنما اور مغربی بنگال اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سوویندو ادھیکاری ہیں۔
26 دسمبر 2025 کو کولکتہ میں بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کے دوران ادھیکاری نے کہا: "ان لوگوں کو سبق سکھانا ضروری ہے، جیسے اسرائیل نے غزہ کو سکھایا۔ ہمارے ملک کے 100 کروڑ ہندو ہیں؛ ہندوں کے مفادات کے لیے چلنے والی حکومت کو پاکستان کو آپریشن سندور میں جو سبق دیا، ویسا ہی سبق سکھانا چاہیے۔” یہ بیان بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر مبینہ حملوں کے ردعمل میں تھا، مگر اس کا مفہوم سرحد پار تک محدود نہیں۔ عالمی سطح پر نسل کشی قرار دی جانے والی غزہ کی کارروائیوں کو "سبق” قرار دینا اجتماعی سزا اور تشدد کی کھلی حمایت ہے۔ ناقدین، بشمول ترنمول کانگریس اور کانگریس لیڈروں، کا کہنا ہے کہ یہ براہ راست بنگلہ دیش کو دھمکی ہے ہی، بھارت کے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کے لیے بھی سنگین پوشیدہ پیغام ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2025 ورلڈ رپورٹ میں بھی بھارت میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، کے خلاف بڑھتی امتیازی سلوک اور تشدد کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ہندوتوا اور صیہونیت کی فکری مماثلت
ہندوتوا اور صیہونیت دونوں انتہا پسند قوم پرست نظریات ہیں جو ایک مخصوص مذہبی گروہ کی برتری، سرزمین کی توسیع، آبادی کی تبدیلی اور اقلیتوں کو مستقل دشمن قرار دینے پر مبنی ہیں۔ ہندوتوا کے بانی وینایک دامودر ساورکر نے صیہونیت کی کھل کر تعریف کی تھی اور یہود کو ایک "نسلی قوم” قرار دیا جو اپنی سرزمین پر مکمل اختیار رکھنے کی مستحق ہے۔ ساورکر اور ان کے جانشین ایم ایس گولوالکر نے صیہونیت کو ہندو ریاست کا ماڈل قرار دیا۔ آج بی جے پی کے دور میں اسرائیل کے ساتھ فوجی اور سیاسی تعلقات اس فکری قربت کی عکاسی کرتے ہیں۔ غزہ میں جاری مظالم کو ہندوتوا کے حامی "سبق” سمجھتے ہیں تو یہ اتفاقی نہیں بلکہ نظریاتی مماثلت کا نتیجہ ہے۔ دونوں نظریات اقلیتوں کو دائمی خطرہ قرار دیتے ہیں اور جمہوریت کو اکثریتی بالادستی سے تبدیل کرتے ہیں۔
2025 میں اقلیتوں پر حملے اور حقوق کی بگڑتی صورتحال
2025 کا سال بھارت میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں، کے لیے انتہائی خوفناک رہا۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2025 رپورٹ کے مطابق مذہبی اقلیتوں پر امتیازی سلوک، تشدد اور حکام کی مجرموں کو سزا نہ دینے کی پالیسی جاری ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) نے 2025 میں ایک بار پھر بھارت کو "خاص تشویش کا ملک” قرار دیا اور نظاماتی مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے CPC کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی۔
خاص طور پر کرسمس 2025 عیسائیوں کے لیے دہشت کا موسم بنا۔ انٹرنیشنل کرسچن کنسرن اور یونائیٹڈ کرسچن فورم کی رپورٹوں کے مطابق کرسمس ہفتے میں 80 سے زائد حملے ریکارڈ ہوئے: گرجا گھر جلائے گئے، کارول گروپس پر حملے ہوئے، سٹریٹ وینڈرز کو دھمکیاں دی گئیں اور کرسمس کی تقریبات میں خلل ڈالا گیا۔ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، کیرالہ اور دیگر صوبوں میں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس سے منسلک گروپوں کے کارکنوں کے نام سامنے آئے۔ مذہبی تبدیلی مخالف قوانین کا غلط استعمال اور پولیس کی جانب داری نے صورتحال کو مزید خراب کیا۔
مسلمانوں پر "بلڈوزر جسٹس” کا سلسلہ جاری ہے، جہاں الزامات کے بعد گھر، دکانیں اور عبادت گاہیں مسمار کی جاتی ہیں۔ یہ اجتماعی سزا کی شکل ہے جو اکثر مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور حجاب پر پابندیاں مسلمانوں میں خوف اور خارج ہونے کا احساس بڑھا رہی ہیں۔ ادھیکاری کا بیان اس پس منظر میں مزید خطرناک ہے کیونکہ ایک مرکزی رہنما کا نسل کشی کو "سبق” کہنا حامیوں میں انتہا پسندی کو ہوا دیتا ہے اور تشدد کی حد کم کرتا ہے۔
علاقائی سطح پر بھی اثرات سنگین ہیں۔بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور ایسے اشتعال انگیز بیانات سفارتی بحران کو گہرا کرتے ہیں۔ بھارت کا سیکولر آئین مساوات اور مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، مگر موجودہ رجحانات اس ورثے کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
عالمی برادری یہود کے بعد ہنود کی اس سوچ اور مسلمانوں پر جاری ظلم کا نوٹس لے۔
صیہونسٹ سوچ کے بعد اب ہندوتوا دنیا کے لیے نیا خطرہ بن رہا ہے۔ غزہ کی نسل کشی کو "سبق” قرار دینا اور بھارت میں اقلیتوں پر منظم ظلم عالمی خاموشی کا نتیجہ ہے۔ اگر اب بھی نوٹس نہ لیا گیا تو یہ فسطائیت خطے سے نکل کر عالمی امن تباہ کر دے گی۔ عالمی برادری کو فوری طور پر نوٹس لینا ہوگا اور درج ذیل اقدامات کرنے چاہییں: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل بھارت میں اقلیتی حقوق کی آزادانہ تحقیقات کرے اور نفرت انگیز بیانات پر پابندی لگائے؛ اسلامک کوآپریشن آرگنائزیشن (OIC)، یورپی یونین، امریکہ اور دیگر طاقتیں بھارت کے ساتھ سفارتی روابط میں انسانی حقوق کو شرط بنائیں اور بی جے پی حکومت پر دباؤ ڈالیں؛ عالمی میڈیا اور انسانی حقوق تنظیمیں بھارت میں جاری ظلم کو مسلسل کوریج دیں؛ بھارتی حکومت سوویندو ادھیکاری جیسے رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائی کرے اور نفرت انگیز بیانات کو جرم قرار دے؛ عالمی برادری ہندوتوا اور صیہونیت کے فکری اتحاد کو روکے تاکہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا تحفظ ہو سکے۔
یہ مشترکہ سوچ اگر نہ روکی گئی تو نہ صرف اقلیتیں بلکہ جمہوریت اور امن تباہ ہو جائے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نسل کشی اور اجتماعی تشدد الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ ادھیکاری کا بیان ایک سنگین انتباہ ہے: دنیا کو اب فوری عمل کرنا ہوگا، ورنہ قیمت ناقابل برداشت ہوگی۔
