turky-urdu-logo

نو منتخب مئیر نیویارک "میں محمدی ہوں”

معمر انور ، نیو یارک

نومنتخب مئیر نیو یارک زہران ممدانی “ مسکراہٹ دیکھ کر ان کی ہم ہوش گنوا بیٹھے ہم ہوش میں آنے کو تھے کہ وہ پھر مسکرا بیٹھے “مسکراہٹ فاتح عالم ، گلاب کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹ کر ، زہران ممدانی نے مسکراہٹ کی تلوار سے نیو یارک فتح کر لیا ۔

مئیر شپ کے الیکشن میں دولت طاقت صہیونیت کے حمایت یافتہ ، سٹیٹس کو کے علمبردار سابق گورنر کومو کو شکست دے کر ، مہاجر ابن مہاجر زہران ممدانی کی کامیابی کو نیو یارک کی تاریخ رقم کرنا قرار دیا جا رہا ہے ۔ جس دنیا کا چوہدری ٹرمپ ہے ( اس سے قطع نظر کہ دنیا بے حس یا بے بس ہے اور اسکا چوہدری جھلّا یا سیانا ہے ) اُس دنیا کا دارالخلافہ “ نیو یارک “ ہے ، جو دولت اور طاقت کا مرکز اور ساڑھے آٹھ سو بولیاں بولے جانے والا کثیر الثقافتی شہر ہے ۔ رنگ ، نسل ، مذہب ، برادری و قوموں کا تنوع اس کا خاصہ ہے ۔

اور سچ ہوا ہے کہ ایک تینتیس سالا نوجوان مسلمان نے سیاسی ، معاشی ، میڈیا اسٹیبلشمنٹ اور صہیونی طاقتوں کو شکست دے کر آگے بڑھا ہے ، عام طور پہ امریکہ اور خاص طور پہ نیویارک جہاں صہیونی حمایت کے بغیر کوئی جیت نہیں سکتا کی صدیوں پرانی روایت کو توڑ دیا ہے ۔ صہیونیت کے گڑھ میں صہیونیت کی دولت ، طاقت اور صحافت کو ممدانی کی مسکراہٹ نے مات دے دی ہے ۔ ظہران ممدانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کے اسرائیل مخالف بیانات کو گردانا جا رہا تھا۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ وہ نہ یہودیوں کے خلاف ہیں، نہ ہی اینٹی سیمیٹک۔ بلکہ ان کے حامیوں میں خود ایک بڑی تعداد یہودیوں کی ہے۔ تاہم اسرائیلی لابی — خاص طور پر طاقتور ایپک (AIPAC) — مسلسل اس تاثر کو فروغ دیتی رہی کہ وہ اینٹی سیمیٹک ہیں، صرف اس لیے کہ وہ اسرائیلی جارحیت پر تنقید کرتے ہیں۔ممدانی بارہا واضح کر چکے تھے کہ وہ مسلمان ہیں، لیکن کسی قوم یا مذہب کے مخالف نہیں۔

ان کی اصل تنقید اسرائیل کی پالیسیوں اور فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر تھی۔آج کی دنیا میں، بالخصوص امریکی سیاست میں، فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنا ایک بہت بڑا سیاسی خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر آپ سیاست دان ہیں تو آپ کو اسرائیل نواز لابی، خصوصاً AIPAC، کا سامنا کرنا پڑتا ہے — اور تاریخ گواہ ہے کہ جس کے خلاف یہ لابی کھڑی ہو جائے، اُس کی کامیابی تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے جبکہ ممدانی نے اپنی مسلم شناخت کو زرا نہیں چھپایا اور نہ شرمایا ہے اور نہ اسے اسکا کوئی کمپلیکس ہے نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی اس نے پرواہ کی ہے اس نے ہر جا کہا اور برملا کہا اور گرج گرج کر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا کہ “ میں مسلم سماجی کارکن ہوں “ بلکہ اس نے صہیونی حمایت یافتہ امیدوار کو للکارتے ہوئے کہا کہ “ میں اس شہر کو فلاحی شہر بناؤں گا ، بنا کر رہوں گا اس لیے کہ میں “ تم “ نہیں ہوں “ میں ممدانی ہوں “ کہ میں محمدی ہوں ۔۔۔۔ ایک ٹاک شو میں امیدواران سے پوچھا گیا ، تم جیت کر سب سے پہلے کس ملک کا وزٹ کرو گے ( پوچھنے والے کا مطلب واضح تھا کہ شکرانہ کہاں جا کر ادا کرو گے ) سب نے کہا اگر میں جیتا تو سب سے پہلے “ اس را ایل “ جاؤں گا ، ممدانی سے پوچھا گیا تو اس نے کہا میں اپنے شہر نیو یارک جاؤں گا جسکا مجھے مئیر بنایا جائے گا ، اور آج جب مئیر کا الیکشن ہو رہا تھا تو یہ نیویارک کی تاریخ کا ایک اہم ترین دن تھا سیاسی درجہ حرارت بڑھا ہوا تھا اور اس درجے میں کسی کا دل گرمئی عشق سے جل رہا تھا اور کسی کا کلیجہ حسد اور تکبر کی آگ سے بُھن رہا تھا مگر ممدانی شہر کی گلیوں میں ایک ایک ووٹر کے پاس جا رہا تھا ۔

اس نے صہیونیت کے ظلم کی مذمت کھل کر کی اور مظلوم کی حمایت بھی ، اس سے بھارت کے مودی بارے سوال ہوا جبکہ نیو یارک میں بھارتی ووٹر کی بڑی تعداد موجود ہے مگر اس نے لگی لپٹی رکھے بغیر اسے مسلمانوں کا قاتل اور قصاب کہا۔۔۔ مدانی سے پوچھا گیا اگر ناتین یاہو نیویارک آئے تو آپ اسکا استقبال کس انداز سے کریں ؟ ممدانی نے بلا جھجک اور بلا توقف کہا کہ میں نتین یاہو کا استقبال اسکے کرمنل ریکارڈ کے مطابق اسکی گرفتاری سے کروں گا ۔ ایسا بیان بڑے دل گردے کا انسان ہی دے سکتا ہے ۔، کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حقنے اَبلہِ مسجد ہُوں، نہ تہذیب کا فرزنداپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوشمیں زہرِ ہَلاہِل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔۔۔ مگر ایسا زوردار بیانیہ اور ایسی شاندار فتح محض اسکی کرشماتی شخصیت کے سحر کا شاخسانہ نہیں ہے اور نہ قدرت کا ایسا معجزہ ہے جو ناقابل تاویل ہو ۔۔ ممدانی نے الیکشن کے ان تمام لوازمات اور تدابیر اور کوششوں کو بروئے کار لایا ہے جسکے بعد گردوں سے فرشتے اترنے کی نوید سنائی جاتی ہے ۔ممدانی نے الیکشن کے لیے عام آدمی سے چندے کی اپیل کی اور ڈالر ڈالر اکٹھا کر کے آٹھ ملین ڈالر جمع کرنے کا ریکارڈ بنایا ۔۔۔ یہ سب کیونکر ممکن ہوا اس میں ہمارے لیے سبق ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ کفر کا سحر ٹوٹنے میں اسکی اپنی شخصیت کی خود اعتمادی ، اسکے اندر بھری ہوئی انرجی ، جراتِ اظہار ، قوت استدلال ، حاضر جوابی ، قوت ارادی و قوت فیصلہ ، مقصد سے لگن ، بلا تردد و تشکک کمٹمنٹ ، سخت محنت بلا تھکن جدوجہد ، عزم و حوصلہ ، نبض شناسی کی اہلیت ، اور سب سے بڑھکر مومنانہ فراست ، ہمت و شجاعت ، بلا روک دوڑ ، مسلسل متبسم چہرے کے جادو نے کمال کر دکھایا ہے ۔

اسکی تحریک قابلِ رشک ہے اور اسکا تحرّک ناقابلِ بیاں ہے ۔ اسے دہشت گرد ، متنازعہ شخص کہا گیا ، اسکی داڑھی کا مذاق اڑایا گیا ، اسے یہودی مخالف کا طعنہ دیا گیا ، اسے مارے جانے کی دھمکیاں ملیں ، اور الیکشن کے دن موثر ترین اخبار “ نیو یارک پوسٹ “ نے ضابطۂ صحافت اور اخلاق کو پامال کرتے ہوئے صفحہ اول پہ بے ہودہ الزامات لگا کر عوام ممدانی کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کی ( پاکستانی صحافی دل چھوٹا نہ کریں ، ڈنڈے ، ڈالر اور گاجر کا کھیل دنیا میں اک جیسا ہی ہے چونکہ دنیا گول ہے ) مگر ممدانی نے اس زرد اور دجالی صحافت کے مکروہ چہرے کے پردہ پھاڑ دیا ۔ ممدانی کی سیاسی بصیرت ، جارحانہ الیکشن کمپین ، سوشل میڈیا کے ذریعے پیغام رسانی کی تیز رفتاری اور نرم گفتاری نے دولت اور تعصب کے زور پہ چلنے والی زرد صحافت کو پچھاڑ اور لتاڑ کے رکھ دیا ۔ اور کل جب مئیر کا الیکشن ہو رہا تھا تو یہ نیویارک کی تاریخ کا ایک گرم ترین دن تھا درجہ حرارت بہت بڑھا ہوا تھا اور اس گرمی میں کسی کا دل نصب العین کی گرمئی عشق سے جل رہا تھا تو کسی کا کلیجہ حسد اور تکبر کی آگ سے بُھن رہا تھا مگر ممدانی شہر کی گلیوں میں ایک ایک ووٹر کے پاس پیدل جا رہا تھا ، بلکہ اس نے سخت گرم اور چلملاتی دھوپ میں سارے شہر میں واک کی اور ووٹر سے ووٹ ڈالنے کی درخواست کرتا رہا ، اور یہ صرف اسی پہ موقوف نہ تھا اسکے ساتھ ایسی رضاکارانہ ٹیم دن رات مصروف تھی جسکا تصور مادیت کے گڑھ نیو یارک میں مفقود ہے ۔

کارکنان کی کمنٹمنٹ کا آپ اندازہ کریں کہ گزشتہ جمعہ کو نماز جمعہ کے لیے مسجد گیا تو اسکے سامنے ایک نوجوان عرب لڑکی ممدانی کے پمفلٹ بانٹ رہی تھی ، میرے سے سلام دعا ہوئی اسنے کسی بہانے سے میرا فون نمبر حاصل کر لیا ، اور کل الیکشن کے دن اسکی مجھے کال آئی کہ کیا آپ نے ووٹ کاسٹ کر لیا ہے ؟ پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ الیکشن مہم کے سلسلے میں ووٹ مانگنے کے لیے دو دفعہ ممدانی کی ٹیم ہمارے گھر آئی ، الیکشن سے ایک دن پہلے میں گھر داخل ہونے لگا تو میرے دروازے پہ دو خوبرو انگریز لڑکیاں اردو میں پمفلٹ لیے کھڑی تھیں ، انکو اردو تو نہیں آتی تھی مگر وہ اردو پڑھا کر مجھ سے ممدانی کے لیے ووٹ مانگ رہی تھیں ۔۔ اور یہ بھی پہلی دفعہ ہوا کہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے لانے کے لیے لوگوں نے اپنی طرف سے ٹرانسپورٹ کا اہتمام کیا ۔ نیویارکر نے نیویارک میں پہلی دفعہ پاکستانی و ہندوستانی طرز کی انتخابی ریلیوں کا جوش خروش دیکھا ، ڈھول کی تھاپ پہ رقص اور انتخابی نعروں کا مزہ لیا ۔۔ یہ الیکشن یوں لڑا گیا جیسے پاکستان کے دیہاتوں میں بی ڈی کا الیکشن لڑا جاتا ہے ۔۔۔

ممدانی نے روایت سے ہٹ کر الیکشن میں صہیونیوں اور سرمایہ داروں کی بجائے ، عام آدمی کو اپیل کیا ، طلبہ ، نوجوان ، مزدور ،ریڑھی والے ، چھوٹے دوکان دار ، تاجر ، پڑھے لکھے طبقے ، مرد و خواتین کو مخاطب کیا ۔۔ پہلی دفعہ ہم نے دیکھا کہ ہماری خواتین ہمارے بچے ووٹ ڈالنے میں بہت پرجوش تھے ، اور بلاخر بطور امریکن شہری ہماری بیگم صاحبہ کے پہلی دفعہ ووٹ کاسٹ کے فیصلہ کن ووٹ سے ممدانی الیکشن جیت گیا ۔ دراصل یہ الیکشن نہیں ایک ریفرنڈم تھا ، صہیونی مظالم اور اسکے مظالم پہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے خلاف ریفرنڈم ، نیو یارک کی عوام نے طاقت کے مراکز اور وال سٹریٹ کے بیوپاریوں کو پیغام دیا ہے کہ ہم تمھارے ظلم کے خلاف ہیں اور مظلوم کے ساتھ ہیں ۔ صیہونی وزیراعظم نے مممدانی مخالف امیدوار ان سے ملاقاتیں کیں اور ایک موجودہ مئیر ایرک ایڈم کو الیکشن سے دستبردار کرا کے سابق گورنر کو متفقہ امیدوار بنایا حتیٰ کے ریپلکن امیدوار کو کمپین سے منع کرایا تاکہ سب ملکر ممدانی کا مقابلہ کر سکیں ، نیورک کے تاجروں نے تجوریاں کھول کر میڈیا خریدا اور منفی پراپیگنڈے کا ہتھکنڈا استعمال کیا بلکہ دولت کے زور پہ ہر حربہ آزمایا مگر خلق خدا کا نقارہ خدا بج کر رہا ۔۔۔ دولت ، طاقت ، صدارت ، رعونت صیہونت اپنی ٹرمپیت سمیت سب ہار گئے ۔۔

اللہ نے ممولے سے شہباز شکار کرا دیا ۔جنوبی ایشیائی نعرے کو امریکہ میں تعبیر ملی ہے کہ “ اب راج کرے گی خلقِ خدا “ وہ جو دے گیا خبر سحر کی کہ “ ایک وقت آئے گا جب کمیونزم کو ماسکو میں کہیں جائے پناہ نہیں ملے گی اور سرمایہ دارانہ نظام خود نیو یارک اور واشنگٹن میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگا “ تو وہ وقت آگیا ہے ۔ معمر انورنیو یارک

Read Previous

استنبول اجلاس کے بعد 7 مسلم ممالک کا مشترکہ اعلامیہ — غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد، اسرائیل سے فوری جنگ بندی کی پاسداری کا مطالبہ

Read Next

تربیلا ڈیم کی مٹی میں اربوں ڈالر مالیت کے سونے کے ذخائر کا انکشاف — ملکی قرضوں کی ادائیگی کی امید

Leave a Reply