از تحریر ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ
یہ مضمون میری کتاب “ زبان یار من ترکی “کاحصہ ہے ۔ آج اس شخص کا یوم وفات ہے ۔ جس نے سلطنت عثمانیہ کو خلافت عثمانیہ میں بدل کر امت مسلمہ کے بکھرے دانوں کو ایک تسبیح میں پرو دیااور صدیوں پرانے لولےلنگڑے منصب خلافت کو ایک بار پھر عزت و وقار عطا کیا پرانے استنبول ( قسطنطنیہ ) کو سات چو ٹیو ں کا شہر ( City of seven hills) کہا جاتا ہے . اگر آپ آبنائے باسفورس سے پرانے شہر پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو پہلی چوٹی پر ٹوپکی محل ، ھائیہ صوفیہ اور سلطان احمد کی مسجد نظر آتی ہے دوسری چوٹی پر گرینڈ بازار، قسطنطین کا مینار اور نوروسمنائی کی مسجدتیسری چوٹی پر بایزید دوئم کی مسجد ، استنبول یونیورسٹی اور مسجد سلیمانیہ چوتھی چوٹی پر سلطان محمد فاتح کی مسجد اور مقبرہ جبکہ پانچویں چوٹی پر سلطان سلیم اوّل کی مسجد ہے جس کے احاطے میں سلطان سلیم اوّل دفن ہے جسے پہلا عثمانی خلیفہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے یہ مسجد استنبول کے فتیحہ ڈسڑکٹ میں چکربوستان Çukurbostan کے علاقہ میں واقع ہے جسے اس کے بیٹے سلطان سلیمان عالی شان نے بنوایا تھا اور یہ 1528ء میں آٹھ سال کے عرصے میں مکمل ہوئی سلطان سلیم اوّل وہ پہلا خلیفہ بھی تھا جس نے “ الحاکمین حرمین شریف “ کی بجائے “ خادمین حرمین شریف “ کا لقب اختیار کیا اور وہ پہلا حکمران بھی ہے جسے خلیفتہ المسلمین اور خادم حرمین شریفین ہونے کا شرف حاصل ہے وہ سلطان فاتح کا پوتا اور سلطان سلیمان عالی شان کا باپ تھا اسے سب سے زیادہ فتوحات حاصل کرنے والا عثمانی سلطان بھی کہا جاتا ہے ۔
اس کی سخت طبیعت کے باعث ترک اسے "یاووز” یعنی "درشت” کہتے ہیں۔وہ 1512 ء سے 1520 ء تک حکمران رہا اور اپنے اس آٹھ سالہ دور اقتدار میں جب وہ1520 ء میں فوت ہوا تو سلطنت عثمانیہ کا علاقہ تقربیاً دُگنا ہو چکا تھا اس کا رقبہ 576,900 مربع میل سے بڑھ کر 1,494,000 مربع میل ہوگیا تھاسلیم اوّل 10اکتوبر 1470ء کو آمیسیہ میں سلطان بایزید دوئم کے ہاں پیدا ہوا وہ سلطان کا سب سے چھوٹا بیٹا تھاسلطان بایزید دوئم ایک درویش صفت اور بہت کمزور حکمران تھا اس وقت سلطنت عثمانیہ کی مشرقی سرحدوں پر موجود مضبوط اور طاقتور ایران اور قاہرہ کی مملوک سلطنت کا گٹھ جوڑ سلطنت عثمانیہ کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ تھاایران کے صفوی بادشاہ شاہ اسمعیٰل اوّل نے 1500ء میں مہدی اور بارہواں امام ہونے کا دعویٰ کیا اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ نعوذ با للّٰہ حضرت علی رضی تعالی عنہ نے اس کے روپ میں دوبارہ جنم لیا ہے اس نے اپنے پیروکاروں کی مدد سے جو قزلباش کہلاتے تھے
ایران کے تخت پر قبضہ کر کے 1501 ء میں صفوی حکومت کی بنیاد رکھی پھر بہت ہی کم عرصے میں آزربائیجان آرمینیا داغستان افغانستان موجودہ بلوچستان اور جارجیا کو فتح کر کے ایران کو ایک بہت مضبوط اور طاقتور ملک بنا دیا جو طاقت اور رقبے کے اعتبار سے کسی طرح سلطنت عثمانیہ سے کم نہ تھاشاہ اسمعیٰل اوّل نے پہلی مرتبہ سنی مذہب کی بجائے شیعہ مذہب کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا اور نہ صرف یہ کہ اسے ایران میں زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی بلکہ اپنے اس انقلاب کو پڑوسی ملکوں اور خاص طور پر ترکی میں درآمد کرنے کی کوشش کرنے لگااس نے 1511ء کو اناطولیہ میں ہونے والی شیعہ بغاوت کی کھلے عام فوجی اور مالی حمایت اور سرپرستی کی اس بغاوت کا سر غنہ شاہ قلی بابا(Şahkulu) تھا جو خود بھی مسیح اور پیغمبر ہونے کا دعویٰ دار تھا ترکوں نے سختی سے اس بغاوت کو کچل دیا شاہ قلی بابا کو گرفتاری کے بعد قتل کر دیا گیاشاہ قلی بابا کے قتل کے بعد شاہ اسمعیٰل نے اس کی حمایت کرنے پر تحریر ی طور پر معذرت کی لیکن اندرون خانہ شاہ اسمعیٰل نے سلطان بایزید دوئم کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئےمشرق میں مملوکوں اور مغرب میں ویانا اور ہنگری کی سلطنتوں سے اتحاد کر لیا اور سرحدی چھیڑ چھاڑ شروع کر دی
یہ دو طرفہ اتحاد عثمانی سلطنت کے لئے وبال جان بن گیا اور اس کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی جب سلطان بایزیددوئم اس خطرے سے نپٹنے میں پوری طرح ناکام ہوگیا تو اس نے اپنے بڑے بیٹے شہزادہ احمد کو حکمرانی سونپنے کا ارادہ کیا لیکن اس کے سب سے چھوٹے بیٹے سلیم نے باپ اور بھائی کے خلاف بغاوت کر کے تاج و تخت پر قبضہ کر لیا اور نویں عثمانی سلطان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا عثمانی سلطنت کی جنگ اپنے قیام کے ابتداء سے ہی ہمیشہ صرف عیسائیوں اور یورپ کے ساتھ ہی رہی تھی پچھلے دو سو سالوں میں کسی ایک عثمانی سلطان نے بھی مشرق میں قائم مسلمان ریاستوں کو کبھی فتح کرنے کے بارے میں نہ سوچا تھا لیکن شاہ اسمعیٰل اور مملوکوں کی بڑھتی ریشہ دوانیوں نے پہلی مرتبہ عثمانی ترکوں کو مجبور کیا کہ وہ مشرق وسطی کی طرف توجہ دیں سلطان سلیم اوّل نے پوری تیاری کے ساتھ 1514ء میں ایران پر حملہ کیا اور چلدران کی جنگ میں شاہ اسمعیٰل کو بری طرح شکست دے کر اس کے دارلحکومت طبریز پر قبضہ کرلیا پھر وہ مملوکوں کی طرف متوجہ ہوا 1516ء میں حلب کے قریب مرج دابق کے میدان میں پہلی مرتبہ مملوک سلطان اشرف قنوش الغوری اور سلطان سلیم اوّل کا آمنا سامنا ہوا جس میں قنوش غوری مارا گیا اور میدان سلطان سلیم کے ہاتھ رہا عراق اور شام پر ترکوں کا قبضہ ہو گیا کہتے ہیں کہ دمشق میں داخل ہونے کے بعد سلطان نے سب سے پہلے ابن عربی کے مزار پر حاضری دی مزار بڑی شکستہ حالت میں تھا اس نے مزار کی از سر نو تعمیر کا حکم دیا اور موجودہ عمارت بنوائی 22 جنوری 1517ء کو سلطان نے آخری مملوک سلطان ترمان بے دوئم کو جنگ الرادنییہ میں شکست دے کر قاہرہ پر بھی قبضہ کرلیا اور یوں تین سو سالہ مملوک سلطنت کا خاتمہ ہوگیا ہلاکو خان نے 1258ء میں بغداد کو تباہ و برباد کیا اور عباسی خلیفہ المستعصم باللّہ کو قتل کرنے کے بعد عباسی خاندان کے افراد کو چن چن کر مار ڈالالیکن مملوک سلطان بیبرس نے 1260 ء میں عین جالوت کی جنگ میں منگولوں کو عبرت ناک شکست دی
اس جنگ نے جہاں منگولوں کے ناقابل شکست ہونے کا بھرم توڑ دیا وہیں وہ شام اور عراق سے بھی ہاتھ دھو بیٹھےمنگولوں سے نپٹنے کے بعد بیبرس نے 1261ء میں بڑی تلاش کے بعد عباسی خاندان کے آخری بچ جانے والے شخص احمد المستنصر کو خلیفہ بنا کر خلافت کو نئی زندگی دی لیکن اب خلیفہ بغداد کی بجائے قاہرہ میں مملوکوں کے زیر سایہ رہتا تھااسے قاہرہ کی عباسی خلافت کانام دیا جاتا ہے جو پچھلے ڈھائی سوسال سے قاہرہ میں قائم تھی جب سلطان سلیم نے قاہرہ فتح کیا تو وہ وہاں موجود عباسی خلیفہ المتوکل سوئم کو اپنے ہمراہ قسطنطنیہ لے گیا جہاں المتوکل سوئم نے سلطان سلیم کے حق میں دستبردار ہو کر اس کو نیا خلیفہ نامزد کر دیا اور اپنے پاس موجود وہ تمام تبرکات جو خلافت کی نشانی سمجھی جاتی تھیں اس کے حوالے کر دیں یہ تبرکات آج بھی ٹوپکی محل کے میوزئیم میں موجود ہیں ان تبرکات میں رسول اکرم صلعم کے موئے مبارک آپ صلعم کی تلواریں جبہ مبارک مصر کے بادشاہ مقوقس کو لکھا گیا خط چاروں خلفاء راشدین کی تلواریں اور دیگر تبرکات شامل ہیں اور اس طرح آٹھ سو سال کے بعد خلافت عباسی خاندان سے ارطغرل غازی کی اولاد کو منتقل ہوگئی
اب عثمانی سلطنت کی سرحدیں ویانا سے لے کر حجاز کے صحراؤں تک اور مراکش سے لے کر آرمینیا اور آزر بائی جان کے پہاڑوں تک تین براعظموں میں پھیل گئی تھیں۔ اس کو یاووز کا لقب دیا گیا کہ یہ دھن کا پکا اور بے مہر اور ضدی تھا جیسے اس کے بیٹے سلیمان کو عالی شان کہا جاتا ہےاپنے آٹھ سالہ دور حکومت میں سلطان سلیم کی زیادہ زندگی گھوڑے کی پشت پر گذری اور گھوڑے کی جلدسے ہی اسے Anthrax کا مرض لاحق ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا اور یوں یہ بہادر سلطان 22 ستمبر 1520ء کو قسطنطنیہ میں 49 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملاوہ صرف ایک اچھا منتظم بہترین حکمران اوربہادر سپاہی اور قابل جرنیل ہی نہیں تھا بلکہ بہت پڑھا لکھا عالم فاضل شخص بھی تھا وہ فارسی اور ترکی زبان کا اعلیٰ پائے کا شاعر تھا اس کا تخلص محلاس سلیمی تھا اس کا دیوان آج بھی موجود ہے اور فارسی ادب میں بہت اعلیٰ مقام رکھتا ہے اس کی ایک نعت بہت مقبول ہوئی جس کا ایک مشہور شعر ہے- خاکِ راہِ آں سہی قد شو بیا اے آفتابسال و مہ زیں ہرزہ گردی ہا چہ حاصل می کنی اے آفتاب! تجھے اپنی ہمیشہ کی ان آوارہ گردیوں سے کیا حاصل ہوگا؟
آ، اور اُس سہی قدکی خاکِ راہ بن جا۔ اس کی چھوڑی ہوئی عظیم الشان سلطنت کو ایک بہت قابل وارث ملا اس کے بیٹے اور دوسرے عثمانی خلیفہ سلطان سلیمان عالی شان نے اگلی چند دہائیوں میں اس بڑی سلطنت کو دنیا کی واحد سپر پاور بنا دیااور یوں ارطغرل غازی کا وہ خواب پورا ہوا جو اس نے اوائل شباب میں دیکھا تھا کہ وہ ایک درخت کے نیچے کھڑا ہے جس کی شاخوں نے تین براعظموں کو اپنی چھاؤں میں لے رکھا ہے اقبال نے جب حضور اکرم ﷺ کی شان میں اپنی مشہور شہرہ آفاق نعت لکھی تو اس میں سلطان سلیم اوّل کا ذکر بھی کیا کہ سلطان سلیم اور سلطان سنجر کا جاہ و جلال ، ان کی شان و شوکت اور حضرت جنید اور حضرت با یزید کا فقر آپ ﷺ کی شان جمال کے مظہر ہیںلَوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتابگُنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حبابعالَمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغذرّۂ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتابشوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمودفقرِ جُنیدؒ و بایزیدؒ تیرا جمالِ بے نقابشوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا اماممیرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجابتیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پاگئےعقل,غیاب وجستجو!عشق,حضور و اضطرابہ
															