ترکیہ سید علی گیلانی کی جدوجہد کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی کتنی حمایت کرتا ہے؟
سید علی شاہ گیلانی (1929-2021) مقبوضہ جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی کے ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے لیے وقف کر دی۔ ان کی جدوجہد، استقامت، اور قربانیوں نے نہ صرف کشمیریوں کے دلوں میں ایک خاص مقام بنایا بلکہ عالمی سطح پر، بالخصوص ترکیہ جیسے ممالک میں، ان کی تحریک کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ ترکیہ، جو ایک اہم اسلامی ملک ہے اور عالمی سطح پر انسانی حقوق اور خودمختاری کے مسائل پر آواز اٹھاتا رہتا ہے، نے ہمیشہ کشمیر کے مسئلے کو اہمیت دی ہے۔
سید علی گیلانی کی جدوجہد کا مرکزی نقطہ کشمیری عوام کا حقِ خودارادیت تھا۔ وہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ مانتے تھے اور اسے تقسیمِ ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیتے تھے۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کے فیصلے کی وکالت کی۔ اپنی 90 سالہ زندگی میں سے تقریباً 27 سال انہوں نے بھارتی جیلوں یا نظربندی میں گزارے، لیکن ان کا عزم کبھی متزلزل نہ ہوا۔ انہوں نے "تحریکِ حریت جموں و کشمیر” کی بنیاد رکھی اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے ایک اہم رہنما رہے۔ ان کی کتابیں، جیسے کہ رودادِ قفس، وُلر کنارے، اور اقبال روحِ دین کا شناسا، ان کے فکری و سیاسی عزم کی عکاسی کرتی ہیں۔ انہوں نے علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے افکار سے متاثر ہو کر اپنی جدوجہد کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کیا۔
ترکیہ میں سید علی گیلانی کو ایک عظیم مجاہدِ آزادی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرتا رہا۔ ترکیہ کے میڈیا، دانشوروں، اور سیاسی حلقوں میں ان کی جدوجہد کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی سوانح عمری Paradise on Fire: Syed Ali Geelani and the Struggle for Freedom in Kashmir کے مصنف عبدالحکیم نے لکھا ہے کہ "بہت سے مسلم برادری کے رہنما سید علی گیلانی اور ان کی کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کی قدر کرتے ہیں۔” اس کتاب کے مطابق، گیلانی کی غیر متزلزل استقامت اور غیر متشدد مزاحمت نے انہیں عالمی سطح پر، بالخصوص ترکیہ جیسے ممالک میں، ایک ایسی شخصیت بنایا جو نہ صرف کشمیریوں بلکہ دیگر مظلوم اقوام کے لیے بھی ایک علامت ہے۔
ترکیہ کے عوام اور رہنما، جو فلسطین اور دیگر مظلوم اقوام کے مسائل پر آواز اٹھاتے ہیں، سید علی گیلانی کی جدوجہد کو فلسطین کی تحریکِ مزاحمت سے مماثلت دیتے ہیں۔ وہ انہیں نیلسن منڈیلا اور فلسطین کے شیخ رائد صلاح جیسے رہنماؤں کے ہم پلہ مانتے ہیں جو اپنی قوم کی آزادی کے لیے جیلوں میں رہے اور ظلم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ترکیہ کے میڈیا میں انہیں "کشمیر کا عمر مختار” (لیبیا کے انقلابی رہنما) سے تشبیہ دی جاتی ہے، جو ان کے عظیم مقام کی عکاسی کرتی ہے۔
ترکیہ کی کشمیر کے لیے حمایت
ترکیہ نے ہمیشہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے اور اقوامِ متحدہ سمیت دیگر فورمز پر کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی ہے۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے کئی مواقع پر کشمیر کے تنازعے کو فلسطین کے مسئلے سے جوڑتے ہوئے اسے ایک انسانی اور سیاسی بحران قرار دیا ہے۔ 2019ء میں جب بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل 370) ختم کی، ترکیہ نے اس کی شدید مذمت کی اور اسے کشمیری عوام کے حقوق کی پامالی قرار دیا۔ ایردوان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطابات میں کشمیر کے مسئلے کو بارہا اٹھایا اور کہا کہ اس تنازعے کا حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری سے ہی ممکن ہے۔
ترکیہ کی سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو ایجنسی نے بھی سید علی گیلانی کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ 2020ء میں جب پاکستان نے گیلانی کو اپنا اعلیٰ ترین شہری اعزاز "نشانِ پاکستان” دیا، اس وقت انادولو ایجنسی نے لکھا کہ "سید علی گیلانی نے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔” ترکیہ کے سیاسی مبصرین، جیسے کہ شیخ شوکت حسین، نے بھی کہا کہ "گیلانی کی جدوجہد نے ثابت کیا کہ بھارت کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیاں لانا چاہتا ہے، اور ان کی یہ بات 5 اگست 2019ء کے بعد درست ثابت ہوئی۔”
ترکیہ کی حمایت صرف سیاسی بیانات تک محدود نہیں ہے۔ ترکیہ نے کشمیریوں کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھی امداد فراہم کی ہے اور ترکیہ کے غیر سرکاری اداروں نے کشمیر میں تعلیمی اور سماجی منصوبوں کی حمایت کی ہے۔ ترکیہ کے لوگ، جو خود استعماری طاقتوں کے خلاف جدوجہد کی تاریخ رکھتے ہیں، کشمیریوں کی جدوجہد کو اپنی تاریخ سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور اسے ایک جائز تحریک مانتے ہیں۔
ترکیہ کا نقطہ نظر
ترکیہ، سید علی گیلانی کی جدوجہد کو ایک ایسی تحریک کے طور پر دیکھتا ہے جو اسلامی اقدار، خودمختاری، اور انسانی حقوق کے اصولوں پر مبنی ہے۔ ترکیہ کے نقطہ نظر سے، گیلانی کی جدوجہد نہ صرف کشمیر کے لیے بلکہ عالمِ اسلام کے لیے بھی ایک مثال ہے۔ وہ انہیں ایک ایسی شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں جو بھارتی جبر کے سامنے کبھی نہیں جھکی اور اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ترکیہ کی عوام اور رہنماؤں کے لیے، گیلانی کی جدوجہد فلسطین، شام، اور دیگر مظلوم خطوں کی تحریکات سے ملتی جلتی ہے، جہاں عوام اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔
ترکیہ کے صدر ایردوان، جو خود "نشانِ پاکستان” کے حامل ہیں، نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھا کر یہ واضح کیا کہ ترکیہ کشمیریوں کی جدوجہد کو ایک جائز اور قانونی تحریک سمجھتا ہے۔ ترکیہ کا خیال ہے کہ کشمیر کا حل صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ممکن ہے، جو سید علی گیلانی کے موقف سے مطابقت رکھتا ہے۔
ترکیہ میں ان کی یاد
سید علی گیلانی کی وفات (یکم ستمبر 2021) پر ترکیہ کے میڈیا نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ انادولو ایجنسی نے لکھا کہ "گیلانی کی وفات کشمیری تحریکِ آزادی کے لیے ایک بڑا نقصان ہے، لیکن ان کا پیغام اور جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ رہے گی۔” ترکیہ کے تعلیمی حلقوں میں ان کی کتابوں، بالخصوص وُلر کنارے اور اقبال روحِ دین کا شناسا، کو علامہ اقبال کے افکار کے تناظر میں پڑھا جاتا ہے، کیونکہ ترکیہ میں بھی اقبال کی شاعری اور فلسفہ بہت مقبول ہے۔
ترکیہ کے عوام نے سوشل میڈیا پر بھی ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور ان کی جدوجہد کو سراہا۔ ترکیہ کے کچھ طلبہ اور دانشوروں نے ان کی یاد میں سیمینارز اور تقاریب کا انعقاد کیا، جن میں ان کی تحریک کو فلسطین اور دیگر تحریکات سے جوڑ کر خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
سید علی گیلانی ترکیہ کے لیے ایک عظیم مجاہدِ آزادی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کشمیری عوام کے حقوق کے لیے وقف کر دی۔ ترکیہ ان کی جدوجہد کو ایک جائز، اسلامی، اور انسانی حقوق کی تحریک کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کی سیاسی، سفارتی، اور اخلاقی حمایت کرتا ہے۔ صدر ایردوان اور ترکیہ کے میڈیا نے بارہا کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھایا ہے، جو گیلانی کے موقف سے ہم آہنگ ہے۔ ترکیہ کی عوام اور رہنما انہیں ایک ایسی شخصیت مانتے ہیں جنہوں نے ظلم کے سامنے سر نہیں جھکایا اور اپنی تحریروں، تقاریر، اور عمل سے کشمیریوں کے لیے ایک روشن مستقبل کی امید جگائی۔
سید علی گیلانی کی جدوجہد اور ان کا پیغام ترکیہ سمیت پوری دنیا میں ان لوگوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے جو آزادی اور انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ان کی برسی کے موقع پر، ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم کرنا چاہیے اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔
