turky-urdu-logo

پنٹاگون لیک، "ڈیپ اسٹیٹ” کا وار یا وارننگ؛ کیا ٹرمپ ماضی کے صدور کی طرح ہی قتل ہوں گے؟؟

ڈونلڈ ٹرمپ کو شاید اسرائیل کی حکم عدولی مہنگی پڑ رہی ہے۔ گزشتہ روز پینٹاگون کی ایک انتہائی خفیہ رپورٹ کے لیک ہونے کے بعد واشنگٹن کی سیاست میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ یہ رپورٹ امریکہ کی جانب سے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر B-2 بمباروں کے حملوں کے بعد پنٹاگون نے مرتب کی تھی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ حملوں میں ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ نہیں ہوا ہے۔ حملے کے اثرات زیادہ سے سے زیادہ صرف چند ماہ کی تاخیر پیدا کر سکتے ہیں۔

اصل تہلکہ اس رپورٹ کے مواد سے نہیں، بلکہ اس انتہائی خفیہ (top secret) رپورٹ کے "لیک” ہونے سے مچا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اس کے منظر عام پر آنے کو اپنے آفیشل بیان میں “ڈیپ اسٹیٹ” کی گہری سازش قرار دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے تو اس سے بھی آگے بڑھ کر لیک رپورٹ کی خبر چلانے والے میڈیا کو “bad and sick people” کہاہے۔

اہم بات یہ ہے کہ امریکی سلامتی سے متعلق اس خفیہ رپورٹ کو سب سے پہلے جن میڈیا اداروں نے افشاء کیا، وہ تمام وہی چینلز اور اخبارات ہیں جن پر یہودی لابی کے گہرے اثرات تسلیم شدہ ہیں۔ ان میڈیا اداروں نے نہ صرف خفیہ رپورٹ کو پبلک کیا، بلکہ اس کے بعد ایران پر امریکی حملے کو "ڈرامہ” قرار دے کر ٹرمپ کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کر دی ہے۔

غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ، اس وقت اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ میں طاقتور اسرائیلی لابی کو گزشتہ نصف صدی میں پہلی بار ایک ایسی امریکی حکومت کا سامنا ہے جو ان کے اشارے پر مکمل طور پر ناچنے کو تیار نہیں۔

صدر ٹرمپ، اگرچہ ماضی میں اسرائیل کے شدید حامی رہے ہیں، لیکن اپنے حالیہ بیانات میں اسرائیل پر شدید تنقید کر چکے ہیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے غزہ پر حملوں کے دوران ایک بار کہا تھا کہ "ہمیں اپنے مفادات کے لیے خود فیصلے کرنے چاہئیں، اسرائیل کا دفاع ہماری ذمہ داری نہیں۔” ان بیانات کے بعد سے امریکی میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص حلقوں نے ٹرمپ کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔

یہ پہلی بار نہیں کہ کوئی امریکی صدر "طاقتور خفیہ ریاست” یا لابیوں کے خلاف کھڑا ہوا ہو۔ ماضی میں ابراہام لنکن(Abraham Lincoln)، جیمز گارفیلڈ (James Garfield)، ولیم مک کینلی (William McKinley) اور جان ایف کینیڈی (John F. Kennedy) جیسے امریکی صدور نے "ڈیپ اسٹیٹ” کے مفادات کے خلاف عمل کرنا شروع کیا تھا۔ اور ان چاروں کو دورانِ صدارت ہی قتل کر دیا گیا تھا۔

ان میں سب سے حالیہ مثال سابق امریکی صدر "جان ایف کینیڈی” ہیں۔ جنہوں نے "اسرائیل کے ایٹمی پروگرام” پر سوالات اٹھائے تھے — جس کے کچھ ہی عرصے بعد انہیں صدارتی پروٹوکول کے درمیان میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد پون صدی تک، کسی امریکی صدر کو "ڈیپ اسٹیٹ” اور اسرائیلی لابی کے سامنے چوں چران کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا "ٹرمپ ان مقتول صدور سے مختلف ثابت ہوں گے؟ یا تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا دے گی”؟

امریکہ کی انتہائی طاقتور سمجھی جانے والی اسرائیلی لابی کے لیے آج حالات خاصے غیر معمولی ہیں۔ ایک طرف انہیں ٹرمپ جیسے رہنما کی اسرائیل مخالف پالیسی برداشت کرنا پڑ رہی ہے، تو دوسری طرف عوامی سطح پر امریکہ میں اسرائیلی اقدامات کے خلاف جذبات تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ غزہ کی تباہی، بچوں کی ہلاکتیں، اور فلسطینیوں کی نسل کشی جیسے مناظر اب سوشل میڈیا اور نوجوان نسل کے ذہنوں میں سوالات پیدا کر رہے ہیں۔

یونیورسٹی کیمپسز سے لے کر کانگریس کے کچھ حلقوں تک، اب یہ آواز سنائی دینے لگی ہے کہ "کیا امریکہ اسرائیل کے مفادات کے لیے اپنی ساکھ اور سلامتی داؤ پر لگانی چاہیے؟”

BDS جیسی تحریکوں کو پہلے دبانے کی کوشش کی گئی، مگر اب ان کو نئی توانائی ملتی دکھائی دے رہی ہے۔

اگر یہی رجحان جاری رہا تو امکان ہے کہ امریکی سیاست میں اسرائیلی لابی کی طاقت کو چیلنج کرنے والے نئے دھڑے ابھریں گے۔ ڈیموکریٹس میں برنی سینڈرز، الہان عمر، اور رشیدہ طلیب جیسے ارکان پہلے ہی اسرائیل پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ اگر ریپبلکنز میں بھی MAGA گروپ کے ٹرمپ جیسے رہنما بھی اسرائیل مخالف موقف اپنانے لگے، تو امریکی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔

البتہ، ایسی تبدیلی آسان نہیں ہو گی۔۔۔۔۔ یہودی لابی اب بھی امریکہ کی معیشت، میڈیا، اور سیاست میں گہرا اثر رکھتی ہے۔ اب پنٹاگون کی لیک رپورٹ اور ٹرمپ پر بڑھتی ہوئی میڈیا اور سیاسی یلغار سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی امریکی رہنما یا صدر ہی اسرائیل کو للکارے گا، تو طاقتور لابی اور "ڈیپ اسٹیٹ” اسے خاموش کروانے کے لیے ہر حد تک جا سکتے ہیں۔

البتہ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ "کشمکش” اب صرف سیاست کی نہیں ہے، بلکہ یہ امریکی اسٹیبلشمنٹ، عوامی رائے اور سماجی محاز پر شروع ہو چکی ہے۔ مستقبل میں یہ سوال مزید شدت اختیار کرے گا:

کیا امریکہ واقعی ایک آزاد ریاست ہے، یا وہ اسرائیل کے اشاروں پر ناچنے والی کھٹ پُتلی ہے؟

اس کے علاوہ سب سے اہم سوال تو ہے کہ:

کیا ڈونلڈ ٹرمپ، لنکن اور کینیڈی کی طرح مارے جائیں گے، یا پھر تاریخ کا رخ موڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟

Read Previous

شنگھائی تعاون تنظیم کا مشترکہ اعلامیہ جاری، پاکستان مخالف بھارتی مطالبات کو رد کر دیا گیا، بھارت کا دستخط سے انکار

Read Next

26 جون؛ آذربائیجان کا یومِ مسلح افواج

Leave a Reply