جب دنیا خندقوں اور توپوں سے نکل کر میزوں اور قراردادوں پر آئی، تو کچھ شہر تاریخ میں علامت بن گئے: ویسٹ فیلیا—جہاں عیسائ فرقہ وارانہ مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہوا؛ ویانا—جہاں نپولین کی تباہ کاریوں کے بعدیورپ میں طاقت کا نیا توازن قائم ہوا؛ اور جنیوا—جہاں خون آلود جنگوں کے بعد یورپی ضمیر نےباہم بین الاقوامی اصول وضع کیے۔ اب سوال ہے: کیا دوحہ—خلیج کی اس چھوٹی مگر متحرک ریاست کا دارالحکومت—مسلم دنیا کی تقسیم، باہمی عدم اعتماد اور پراکسی جنگوں کا سلسلہ ختم کر کے ایک نئے نظم کی بنیاد بن سکتا ہے؟
موجودہ ایران-اسرائیل کشیدگی کے تناظر میں، جہاں بیشتر مسلم ممالک نے اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کی ہے اور سعودی عرب بھی ایران-امریکہ کشیدگی میں پسِ پردہ سفارتی کردار ادا کر چکا ہے، یہ لمحہ اس سازگار فضا کو مستقل اور دیرپا خوشگوار موسم میں تبدیل کرنے کا نادر موقع فراہم کرتا ہے۔ پاکستان، ترکی اور معتدل عرب ریاستوں کے لیے یہ گھڑی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے کہ وہ اس فالٹ لائن کو ٹھنڈا کرنے اور باہمی ضابطۂ کار کی بنیاد رکھنے کے لیے مشترکہ اور ادارہ جاتی قدم اٹھائیں،قبل اس کے کہ یہ ٹھنڈی ہوتی آگ دوبارہ اپنوں کی نادانی یا اغیار کی عیاری سے آتش فشاں نہ بن جائے۔
مسلم دنیا میں یہ فالٹ لائنیں یقیناً موجود ہیں، مگر ماضی میں صدیوں تک یہ ساکت رہیں؛ اتنی کہ لاہور کی مال روڈ پر اہلِ سنت نوجوان محرم کے جلوسوں کو پانی پلاتے تھے اور ایران–عرب سیاسی اختلافات کے باوجود عوامی سطح پر اخوت کا رشتہ قائم تھا۔ انقلابِ ایران اور بعد کے واقعات نے یہ ہم آہنگی چیلنج کر دی۔ نتیجہ: منتشر ملت، برباد ریاستیں، جلاوطن عوام اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلتی قیادتیں۔
1979 کے بعد اختلاف محض فقہی یا سیاسی نہ رہا؛ وہ ایک نظریاتی اور تہذیبی شگاف میں ڈھل گیا۔ ایران نے سامراج مخالف بیانیہ پیش کیا تو عرب بادشاہتوں میں عدم تحفظ بڑھ گیا۔ فرقہ واریت جغرافیائی سیاست سے جڑ گئی اور ایک نظریاتی تحریک “سکیورٹی تھریٹ” بن گئی۔ صدام حسین کی—سعودی پشت پناہی سے—ایران پر مسلط کردہ جنگ نے اس خلیج کو خونی خندق بنا دیا: ایک طرف انقلابی پھیلاؤ کا جنون، دوسری طرف اپنی تہذیب اور ریاست کی بقا کی جبلّت۔ یہی تناؤ پورے خطّے کو پراکسی جنگوں، مسلکی کشمکش اور سفارتی سرد مہری میں جھونک گیا۔
اگلے عشروں میں بین الاقوامی قوتوں نے اس دراڑ کو مزید گہرا کیا۔ عراق پر امریکی حملہ، شام کی خانہ جنگی، لبنان میں پراکسی کشمکش اور یمن کی قبائلی و مسلکی تباہی—یہ سب زخم امت کے اجتماعی شعور پر گہرے نشان چھوڑ چکے ہیں۔ مگر تمام ذمہ داری اغیار پر ڈالنا خودفریبی ہوگی؛ مسلم قیادت کی ناعاقبت اندیشی، اقتدار پرستی اور جذباتی پالیسیوں نے بھی اس بحران کو جنم دیا۔ سیاسی تنازعات کو مسلکی رنگ دینا، داخلی مسائل کو خارجہ محاذ پر لڑنا اور اختلاف کو کفر یا غداری قرار دینا—یہ رویّے ملتِ اسلامیہ کو پراکسی جنگوں اور منافرت کے دلدل میں دھکیل چکے ہیں۔
یہ پس منظر بتاتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا ویسٹ فیلیا یا ویانا طرز کے “کانگرس آف قطر” جیسا مفاہمتی فورم تشکیل دے—ایسی کانفرنس جہاں شیعہ و سنی قیادتیں اور عرب و غیر عرب ریاستیں متفق ہوں کہ فقہی اختلاف تہذیبی تصادم نہ بنے اور سیاسی مفاد کو امت کی وحدت پر فوقیت نہ دی جائے۔
چیلنجز کا تجزیہ
یہ عمل آسان نہیں۔ اوّل، مسلم ریاستوں کا باہمی عدم اعتماد اور داخلی سیاسی دباؤ فورم کو کمزور کر سکتا ہے۔ دوم، شدت پسند گروہ اسے اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھ کر سبوتاژ کریں گے۔ سوم، بیرونی قوتیں—جو مسلم دنیا کی کشیدگی سے فائدہ اٹھاتی ہیں—سفارتی اور اطلاعاتی مداخلت سے رکاوٹ ڈال سکتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی فرقہ وارانہ مہمات، عوامی تعصبات اور علمی قیادت کی خاموشی بھی بڑی رکاوٹ ہیں۔
“کانگرس آف قطر” کا مقاصدی خاکہ
“کانگرس آف قطر” کو محض سفارتی مشق نہیں، بلکہ مسلم دنیا کے لیے ایک سنجیدہ، عملی اور ادارہ جاتی کوشش سمجھا جانا چاہیے جس کا مقصد باہمی تعامل کے قواعد طے کرنا ہے۔ ہدف اختلافات کو مٹانا نہیں، بلکہ انہیں احترام کے اصولوں کے تحت منظم کرنا ہے؛ غایت کسی ایک مسلک یا ثقافت کو جذب کرنا نہیں، بلکہ تمام مسلم ثقافتوں اور مسالک کو ایک مربوط، مؤثر اور قابلِ عمل فریم ورک میں جوڑنا ہے—تاکہ مشترکات کو مرکز بنا کر ایسے اقدامات ہوں جو پراکسی اور تصادم کے بجائے قومی سلامتی، باہمی ضرورت، علاقائی توازن اور عوامی و تجارتی ہم آہنگی کو فروغ دیں، اور مسلم دنیا اپنے داخلی زخموں پر مرہم رکھ کر دوبارہ فکری و اخلاقی مرکز بن سکے، نہ کہ پراکسی جنگوں کا میدان بنا رہے۔
اسی فریم ورک میں بنیادی انسانی حقوق، شہری آزادیوں، اور اقلیتوں کے تحفظ جیسے اصول بھی شامل کیے جائیں گے، تاکہ یہ فورم نہ صرف سیاسی و تزویراتی سطح پر بلکہ اخلاقی و تمدنی سطح پر بھی مسلم دنیا کا اعتماد حاصل کر سکے۔
کرے گا کون، کیوں اور کیسے؟
اگر مسلم دنیا کو کسی “کانگرس آف قطر” جیسے مشترکہ ضابطۂ کار کی طرف پیش قدمی کرنی ہے تو پہلا سوال یہی ہوگا: یہ عمل کون سرانجام دے؟ اس ذمہ داری کے لیے پاکستان، ترکی، اور قطر نہ صرف فطری انتخاب ہیں بلکہ عملی امکانات بھی رکھتے ہیں — اور اس کے کئی اسباب ہیں۔
اوّل، یہ تینوں ممالک کسی ایک مسلکی یا جغرافیائی کیمپ (ایران یا سعودی بلاک) کا مستقل حصہ نہیں رہے، بلکہ اکثر مصالحانہ کردار ادا کرتے آئے ہیں۔
دوئم، ان کے درمیان پہلے ہی دفاعی، سفارتی، اور ابلاغی تعاون کی بنیادیں موجود ہیں، جنہیں اس مقصد کے لیے ادارہ جاتی فریم دیا جا سکتا ہے۔
سوئم، یہ تینوں مسلم دنیا میں اعتدال، اثر، اور قبولیت کی سطح پر ایک ایسا مثلث بناتے ہیں جو نہ صرف "کانگرس آف قطر” کے معمار بن سکتے ہیں، بلکہ اس عمل کے ضامن اور فیسلیٹیٹر (یا Catalyst) بھی ہو سکتے ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ صدارت یا فیصلہ سازی انہی کے پاس ہو، مگر ایک غیر جانبدار، معتدل، اور ربط انگیز کردار کے لیے یہی ممالک سب سے موزوں ہیں۔ ان کی شراکت سے مسلم دنیا کو پہلی بار ایک ایسا فورم میسر آ سکتا ہے جہاں احترام، اشتراک، اور توازن پر مبنی قواعد طے کیے جا سکیں۔
یقیناً وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا پراکسیوں، تعصبات فرقہ وارنہ زنجیروں سے نکل کر ایک نئے ضابطۂ کار کی طرف بڑھے—ایسا فریم ورک جو نہ صرف جنگوں کے دھویں کو صاف کرے، بلکہ ذہنوں اور دلوں میں بھروسے کی نئی فضا پیدا کرے۔ “کانگرس آف قطر” صرف ایک سفارتی تجربہ نہیں، بلکہ ایک فکری بیانیہ بھی ہے: کہ ہم اختلاف کے ساتھ بھی اکٹھے ہو سکتے ہیں؛ کہ وحدت کا مطلب یکسانیت نہیں، اور ضابطہ بندی کا مقصد طاقت کی مرکزیت نہیں بلکہ توازن ہے۔ اگر مسلم قیادت نے یہ موقع گنوا دیا، تو شاید اگلا ویسٹ فیلیا کسی اور کے ہاتھوں، کسی اور ایجنڈے کے تحت، ہماری تاریخ کے بجائے ہماری کمزوریوں سے جنم لے گا اور مانند خنجر ہمارے ہی کسی اور علاقے میں پیوست ہوگا!
